دو ریاستی حل گریٹر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا ‘ملی یکجہتی کونسل سندھ
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251009-08-23
کراچی (اسٹاف رپورٹر)ملی یکجہتی کونسل سندھ کے تحت ادارہ نورحق میں کونسل کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ کی زیر صدارت منعقدہ’’ یکجہتی فلسطین‘‘ سیمینار میںمقررین نے مسلم حکمرانوں پر زور دیا ہے کہ وہ ٹرمپ کے نام نہاد امن معاہدے کے نام پر ٹریپ ہونے کے بجائے غزہ کے مظلوم مسلمانوں اور حماس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور 2 سال سے جاری جارحیت و دہشت گردی اور انسانیت سوز مظالم پر امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے دل اہل غزہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں غزہ کے مظلوموں کے حق میں احتجاج نے سب کی آنکھیں کھول دیں ہیں۔2 ریاستی حل گریٹر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا اورپھرکشمیر سے بھی دستبردارہونا پڑے گا۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے، ریاست صرف ایک آزاد فلسطین ہے۔طوفان الاقصیٰ کامیاب اور حماس بیانیہ کی جنگ بھی جیت چکی ہے جس کے اثرات آج پوری دنیا میں نظر آنے لگے ہیں۔قوم اسرائیل کو کبھی تسلیم کرنے نہیں دے گی۔سیمینار سے کونسل کے صوبائی صدراسداللہ بھٹو،علامہ قاضی احمد نورانی ، علامہ ناظرعباس تقوی،مفتی اعجازمصطفی،ڈاکٹر صابر ابومریم ،مسلم پرویز،محمد حسین محنتی ،مولانا صادق جعفری،مولانا عبدالوحید اخوانی ،علامہ اصغرحسین شہیدی ،مہدی اسحاق،شیخ سجاد حسین حاتمی ،مولانا عبدالماجد فاروقی نے بھی خطاب کیا ۔ لیاقت بلوچ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ کیمپ ڈیوڈ، ابراہم اکاررڈ سے لے کر ٹرمپ کا 20 نکاتی امن معاہدہ اسرائیل کا ناجائز وجود تسلیم کرانے کی کوشش ہے،اسرائیل ایک ناسور ہے، یہ جب تک قائم رہے گا اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ بانی پاکستان نے اس کو امریکا کا ناجائز بچہ قرار دیا تھا۔ قطر پر حملے سے واضح ہوگیا ہے کہ امریکا کسی کا دوست نہیں ہے وہ صرف اپنے مفادات اورخواہشات کا اسیر ہے۔لاہورکراچی میں تاریخی مارچ اورارض فلسطین میں شہادتوں سے امت میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہوگئی ہے۔اسرائیل سمجھتا تھا کہ وہ امریکا وبرطانیہ کی سرپرستی اوراسلحہ وگولہ بارود کی طاقت سے سب کچھ مٹاکر اپنا قبضہ مستحکم کرے گا مگر حماس کے شاہینوں اورفلسطینی عوام کی قربانیوں سے وہ ناکام ہوگیا اب وہ ٹرمپ کے ذریعے خود کو دلدل سے نکالنے کی بھیک مانگ رہا ہے۔مسلم حکمرانوں کو حماس وحزب اللہ اوراخوان المسلمون سے خوف کھانے کے بجائے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔9اکتوبر لاہور اور14اکتوبر کواسلام آباد میں’’ یکجہتی فلسطین ‘‘سمینار کا انعقاد کیا جائے گا۔انہوں نے علما کرام سے اپیل کی کہ وہ جمعہ 10 اکتوبر کو منبرومحراب کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو اُجاگر اورغزہ میں انسانیت کے قتل عام پر مذمتی قراردادیں منظور کرائیں۔ کونسل کے صوبائی صدراسداللہ بھٹو نے کہاکہ مسلم وغیر مسلم پوری دنیا کے عوام یکجہتی ٔ فلسطین کر رہے ہیں۔مسلم حکمرانوں پراپنے عوام کا بڑا دباؤ ہے مگر وہ امریکا واسرائیل سے ڈرتے ہیں۔ان شاء اللہ عوام کی جدوجہد ضرور کامیاب ہوگی۔علامہ قاضی احمد نورانی نے کہاکہ ملی یکجہتی کونسل گلدستہ ہے جس نے امت کے ہرمسئلے پرآواز اٹھائی ہے۔طوفان الاقصیٰ کے بعد غزہ پر سفاکی اور درندگی کے2سال مکمل ہونے کے باوجود اقوام متحدہ سمیت عالمی ضمیر نیتن یاہو کو ناک میں نکیل ڈالنے میں ناکام رہے۔ علامہ ناظرعباس تقوی نے کہاکہ حماس مسئلہ فلسطین کو اُجاگرکرنے میں کامیاب اوراسرائیل ناکامی کے راستے پر ہے اب وہ اپنی بقا کے لیے سہارے تلاش کر رہا ہے۔پورا یورپ لاکھوں کی تعداد میں غزہ میں ظلم کے خلاف اورفلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہا ہے۔مفتی اعجازمصطفی نے کہاکہ صہیونیت کے منصوبے گریٹراسرائیل میں خانہ کعبہ بھی شامل ہے۔2ریاستی حل کا مطلب ہی گریٹر اسرائل کا راستہ ہموار کرنا ہے۔مسلم حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ڈاکٹر صابر ابومریم نے کہاکہ طوفان الاقصیٰ نے پوری دنیا کو مسئلہ فلسطین کے حق میں کھڑا کردیا ہے جو حماس کے بیانیے کی جیت ہے۔مسلم پرویز نے کہاکہ مزاحمت میں ہی زندگی ہے جہاد ہی عزیمت کا راستہ ہے فلسطینی عوام کی جدوجہد ضرور ایک دن رنگ لائے گی۔محمد حسین محنتی نے کہاکہ جہاد مومن کی معراج ہے حق وباطل کے معرکہ غزہ سے ظالم ومظلوم کا فرق دنیا کے سامنے آگیا ہے۔مولانا صادق جعفری نے کہاکہ کراچی میںجماعت اسلامی کا غزہ مارچ قابل تحسین اورسابق سینٹر مشتاق احمد خان کے ایمانی جذبہ قابل قدر ہے۔مولانا عبدالوحید اخوانی نے کہاکہ فلسطین کے حوالے سے پوری امت متحد ہے۔جنگی جرائم کے مرتکب نیتن یاہو نے غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا ہے لیکن قحط ،پیاس اور بھوک کے باوجود سرفروشوں کا جذبہ جہاد ختم نہیں کرسکا ہے اب وہ اپنی ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے ٹرمپ کے ذریعے امن معاہدے کی باتیں کر رہا ہے۔علامہ اصغرحسین شہیدی نے کہاکہ مسلم حکمران غیروں کی غلامی کے بجائے اپنی تمام پالیسیاں عوام کے جذبات کے مطابق بنائیں۔مہدی اسحاق نے کہاکہ صہیونیوں نے فرعون سے بھی بڑھ کر غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم کیا ہے،مسلم حکمرانوں کی خاموشی بے حمیتی وبے حسی کی انتہا ہے۔شیخ سجاد حسین حاتمی نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ خون ناحق پرعالمی ضمیر کی خاموشی شرمناک ہے۔غزہ کے مظلوموں کا ساتھ دینے والے مشتاق احمد خان پاکستانی ہیرو اورایران کا کردار بھی قابل تعریف ہے۔مولانا عبدالماجد فاروقی نے کہاکہ ہرکامیابی قربانی مانگتی ہے۔75ہزار شہدا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
کراچی : مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ ملی یکجہتی کونسل سندھ کے تحت ادارہ نورحق میں یکجہتی فلسطین سیمینار سے خطاب کررہے ہیں
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ملی یکجہتی کونسل پوری دنیا نے کہاکہ ہے مسلم رہا ہے غزہ کے
پڑھیں:
سعودی عرب کو اسرائیل کے مقابلے میں کم درجے کے ایف 35 طیارے دیئے جائیں گے، امریکی حکام
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے سعودی عرب کو ایف 35 طیارے فروخت کرنے کا اعلان کیا، لیکن حکام نے کہا کہ سعودی طیاروں میں وہ اعلیٰ خصوصیات شامل نہیں ہوں گی جو اسرائیلی بیڑے میں موجود ہیں، جن میں جدید ہتھیاروں کے نظام اور الیکٹرانک وار فیئر آلات شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی حکام اور دفاعی ماہرین نے کہا ہے کہ امریکا سعودی عرب کو ایف 35 لڑاکا طیارے فروخت کرنے کا جو منصوبہ بنا رہا ہے، وہ اسرائیل کے زیرِ استعمال طیاروں کے مقابلے میں کم تر درجے کے ہوں گے، کیونکہ ایک امریکی قانون اسرائیل کی خطے میں عسکری برتری کی ضمانت دیتا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے سعودی عرب کو ایف 35 طیارے فروخت کرنے کا اعلان کیا، لیکن حکام نے کہا کہ سعودی طیاروں میں وہ اعلیٰ خصوصیات شامل نہیں ہوں گی جو اسرائیلی بیڑے میں موجود ہیں، جن میں جدید ہتھیاروں کے نظام اور الیکٹرانک وار فیئر آلات شامل ہیں۔ اسرائیل کو اپنے ایف 35 طیاروں میں ترمیم کے خصوصی اختیارات حاصل ہیں، جن میں اپنے ہتھیاروں کے نظام کو ضم کرنے اور ریڈار جیمنگ کی صلاحیتیں اور دیگر اپ گریڈ شامل کرنے کی اجازت ہے، جن کے لیے امریکا کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود، جیسا کہ منگل کو ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا، اسرائیلی فضائیہ اس مجوزہ فروخت کی مخالفت کرتی ہے اور اس نے سیاسی رہنماؤں کو ایک دستاویز میں خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام خطے میں اسرائیل کی فضائی برتری کو کمزور کرے گا۔
مچل انسٹیٹیوٹ فار ایرو اسپیس اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈگلس برکی کے مطابق اگرچہ سعودی عرب کو یہ طیارے مل بھی جائیں، امکان ہے کہ اسے AIM-260 جوائنٹ ایڈوانسڈ ٹیکٹیکل میزائل (JATM) نہ دیا جائے جو اگلی نسل کے لڑاکا طیاروں کے لیے تیار کی جانے والی اگلی نسل کا فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل ہے۔ JATM کے 120 میل سے زیادہ کے فاصلے کو ایف-35 پلیٹ فارم سے وابستہ سب سے حساس میزائل ٹیکنالوجی سمجھا جاتا ہے, یہ میزائل غالباً اسرائیل کو ہی فراہم کیے جائیں گے۔ ایف-35 ہر ملک اور ہر پائلٹ کے لیے تخصیص کردہ ہوتا ہے۔ امریکا کے پاس سب سے زیادہ قابل ورژن موجود ہیں، جبکہ دیگر تمام ممالک کو اس سے کم تر درجے کے طیارے ملتے ہیں، سعودی طیاروں کو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اسرائیلی طیاروں کے مقابلے میں کم مضبوط رکھنا ممکن ہے، جس کا انحصار اس سافٹ ویئر پیکیج پر ہے جس کی طیاروں کے لیے اجازت دی جائے۔
رپورٹ کے مطابق صلاحیت کے فرق کے علاوہ، اسرائیل عددی برتری بھی رکھتا ہے، کیونکہ وہ اس وقت ایف-35 کے دو اسکواڈرن چلا رہا ہے اور تیسرا آرڈر پر ہے، سعودی عرب کو دو اسکواڈرن تک محدود رکھا جائے گا جن کی فراہمی میں کئی سال لگ جائیں گے۔ اسرائیل گزشتہ تقریباً آٹھ برسوں سے خطے میں ایف 35 کا واحد استعمال کنندہ رہا ہے۔ امریکی حکام نے کہا کہ فروخت کو حتمی شکل دینے سے قبل اسرائیل کی معیاری عسکری برتری کا باضابطہ جائزہ ضروری ہو گا، سعودی عرب کو ہونے والی ہر فروخت کی کانگریس سے منظوری درکار ہوتی ہے، ایک اہلکار نے اشارہ دیا کہ کانگریس میں اسرائیل کی مضبوط حمایت اس منظوری میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ حکام نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اسرائیل، سعودی عرب کو ابراہیمی معاہدوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ خطے میں تعلقات کو معمول پر لایا جا سکے اور ٹرمپ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی سے بچا جا سکے۔
کانگریس کی جانب سے ویٹو پروف مشترکہ قرارداد کے ذریعے اس کی مخالفت کرنے کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی تاکہ صدر کے ویٹو کو کالعدم قرار دیا جا سکے، جو ایک مشکل ہدف سمجھا جاتا ہے۔ یہ فروخت سعودی عرب کو قطر اور متحدہ عرب امارات کے برابر لا کھڑا کرے گی، جنہیں ایف 35 طیاروں کی پیش کش کی گئی ہے، تاہم یہ معاہدے اب بھی ڈیلیوری شیڈول، طیاروں کی صلاحیتوں، اور ٹیکنالوجی تک چین کی ممکنہ رسائی پر تحفظات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔