امریکی صدر ٹرمپ کا جنگیں ختم کرانے کا دعویٰ7، کتنی حقیقت، کتنا فسانہ؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ انہوں نے 7جنگیں ختم کروائی ہیں۔ 6دوسری مدت میں اور ایک پہلی مدت میں۔
ذیل میں وہ 7تنازعات ہیں جن کی طرف وائٹ ہاؤس کا دعویٰ ہے کہ ٹرمپ نے انہیں ’ختم‘ کیا ہے۔ ذیل میں ہر ایک سے متعلق حقائق کا جائزہ بھی پیش کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں 7 جنگیں رکوائیں، اقوام متحدہ کہیں نظر نہیں آئی، ٹرمپ کا جنرل اسمبلی سے خطاب
7جنگیں/تنازعات جنہیں ختم کرانے کا دعویٰ کرتے ہیں آرمینیا اور آذربائیجان (Nagorno-Karabakh تنازعہ)8 اگست 2025 کو وائٹ ہاؤس میں فریقین نے امن معاہدہ کیا۔
یہ ایک قابلِ ذکر کامیابی ہے، لیکن تنازعہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ اب بھی آئینی، نسلی، اور علاقائی اختلافات باقی ہیں۔
جولائی 2025 میں شدید جھڑپیں ہوئیں، پھر معاہدہ ہوا کہ لڑائی روکی جائے۔
جنگ جیسی مکمل لڑائی نہیں تھی، بلکہ ایک سرحدی تصادم تھا۔
معاہدہ وقتی طور پر لڑائی کم کرنے کا باعث بنا مگر بنیادی سرحدی اختلافات باقی ہیں۔
رواںڈا اور ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (DRC-Rwanda تنازعہ)جون 2025 میں ایک معاہدہ ہوا جس میں ایک پچھلے معاہدے کی پاسداری کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
معاہدے میں میجر باغی گروپ M23 شامل نہیں تھے، اور لڑائیاں مکمل طور پر نہیں تھم سکیں۔
جون 2025 میں اسرائیل نے ایران کی نیوکلیئر سائٹس پر حملے کیے، ایران نے رد عمل دیا، پھر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ جنگ 12 دن کی تھی اور ’رسمی صف بندی‘ ہوئی۔
یہ معاہدہ مختصر مدتی جنگ کا ’وقفہ‘ ہے، نہ کہ مکمل مستقل امن معاہدہ۔ سرحدوں اور ذمہ داروں کے حوالے سے اختلافات باقی ہیں۔
مئی 2025 میں کشمیر میں جھڑپیں ہوئیں، پھر ایک عارضی معاہدہ/وقفہ ہوا جسے ٹرمپ کہتے ہیں US نے ’مذاکرات کے ذریعے‘ کروایا۔
بھارت نے اس بات کی تردید کی کہ امریکا نے مذاکرات میں مداخلت کی، انڈیا کا دعویٰ ہے کہ یہ مذاکرات براہِ راست دونوں ممالک نے کیے۔
تنازعہ ہے ‘گرینڈ ایتھوپین رینیسانس ڈیم’ (GERD) پر، جس سے مصر کو استحکام پر تحفظات ہیں کہ دریائے نیل کا پانی متاثر ہو گا۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے اس کو بھی حل کیا ہے۔
یہ کوئی جنگ نہیں تھی؛ یہ زیادہ تر ایک سفارتی / ماحولیاتی / پانی کا معاملہ ہے۔ مذاکرات جاری ہیں، کوئی مکمل معاہدہ طے نہیں پایا۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ممکنہ جنگ سے بچایا، اور انہوں نے 2020 کا واشنگٹن معاہدہ بطور بنیاد بھی پیش کیا۔
یہ کوئی سرحدی یا علاقائی جنگ نہیں تھی جس کا فوراً شروع ہونے کا خطرہ ہو؛ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات ہیں، مگر ’جنگ‘ کی حالت نہیں تھی۔
ٹرمپ کے دعووں کے سچ یا جھوٹ ہونے سے متعلق یہاں وہ نکات پیش کیے جارہے ہیں جن پر ماہرین زور دیتے ہیں:
متنازعہ کردار / مبالغہ آرائی: کئی معاملات میں ٹرمپ کا عملِ دخل (mediation, دباؤ، ثالثی) تسلیم کیا جاتا ہے، مگر یہ کہنا کہ وہ ’جنگ ختم کر دی‘ ایک مستحکم، دیرپا امن معاہدہ ہوا، یہ اکثر مبالغہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں مودی کو کیسے ڈرا، دھما کر امن قائم کرایا، ٹرمپ نے ساری کہانی تفصیل سے بتادی
کچھ معاملات میں جنگ نہ ہونا: مصر ایتھوپیا یا سربیا کوسوو جیسے معاملات میں ’ جنگ‘ جیسی حالت موجود نہیں تھی، بلکہ کشیدگی یا سفارتی تنازعہ تھا۔
ادارک اور تسلیم شدہ ٹھوس نتائج کا فقدان: مثلاً DRC-Rwanda معاملے میں باغی گروپ M23 نے معاہدے کو مانا نہیں، یا لڑائیاں جاری رہیں۔
عالمی مبصرین کی رائے: کئی تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے امن کوششوں کو آگے بڑھایا ہے، مگر وہ ایسے مکمل امن معاہدے نہیں ہوئے ہیں جن کی بنیاد پر تنازعات مکمل ختم ہوسکیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ٹرمپ نوبیل انعام 2025.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدر ٹرمپ نوبیل انعام 2025 انہوں نے نہیں تھی کا دعوی ٹرمپ کا
پڑھیں:
کوئٹہ خودکش دھماکا: لواحقین سے رقم لے کر لاشیں دینے کا انکشاف، حقیقت کیا ہے؟
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں 30 ستمبر کو ماڈل ٹاؤن میں فرنٹیئر کور (ایف سی) ہیڈکوارٹر پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد اب ایک افسوسناک پہلو سامنے آیا ہے۔ دھماکے میں جاں بحق ہونے والے 2 افراد کے لواحقین نے الزام لگایا ہے کہ سول اسپتال کوئٹہ میں ان سے لاشیں دینے کے بدلے رقم طلب کی گئی۔
متاثرہ شہری نیاز محمد بڑیچ کے مطابق ان کے والد حاجی نور محمد اور بھائی صابر خان حملے میں جاں بحق ہوئے تھے۔ جب سول اسپتال میں لاشوں کی حوالگی کا عمل شروع ہوا تو ایک شخص آیا اور کہا کہ 35 ہزار روپے دیے بغیر میت نہیں ملے گی۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ دھماکا: سیکیورٹی فورسز نے 4 دہشتگردوں کو ہلاک کردیا، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی
انہوں نے کہاکہ ہم صدمے میں تھے، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ رقم کس بات کی مانگی جا رہی ہے۔ ہمارے پاس اتنی رقم نہیں تھی، اس لیے رشتہ داروں سے پیسے جمع کیے اور آخرکار 16 ہزار روپے دے کر لاشیں حاصل کیں۔
انہوں نے کہاکہ وہ رقم لینے والے شخص کو نہیں جانتے کیونکہ اس نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی، لیکن اگر سامنے لایا جائے تو وہ اسے پہچان لیں گے۔
’ہمارے ہاتھوں میں اپنے باپ اور بھائی کی جلی ہوئی لاشیں تھیں اور اسپتال کے عملے کا یہ رویہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔‘
یہ انکشاف سامنے آنے کے بعد سول اسپتال انتظامیہ نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
ایم ایس سول اسپتال ڈاکٹر عبدالہادی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان الزامات کے بعد مکمل انکوائری کی گئی ہے، تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رقم لینے والا اسپتال کا عملہ نہیں بلکہ ریسکیو سروس کا ایک رضاکار تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اہلکار نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے اور اس کی شناخت پریڈ بھی مکمل کر لی گئی ہے۔ ایک رضاکار کی غیر اخلاقی حرکت نے پوری سروس پر سوال اٹھا دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کے بعد ایدھی سروسز کو سول اسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے، جبکہ متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے معذرت اور یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہیں ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ دھماکا: جاں بحق افراد کی تعداد 13 ہوگئی، وزیراعلیٰ کا ضرورت پڑنے پر ایئر سروس مہیا کرنے کا اعلان
ڈاکٹر عبدالہادی نے کہاکہ پشین اسٹاپ دھماکے کے متاثرین سمیت تمام زخمیوں اور جاں بحق افراد کے لیے تمام خدمات مفت فراہم کی گئیں۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ کسی بھی مشتبہ عمل یا بدعنوانی کی اطلاع براہ راست اسپتال انتظامیہ کو دی جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews انکشاف ایم ایس سول اسپتال رقم کی وصولی کوئٹہ خود کش دھماکا لاشوں کی حوالگی وی نیوز