Express News:
2025-10-13@17:36:47 GMT

ثقافتی نوآبادیات اور لبرل ازم

اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT

آج کے جدید ٹیکنالوجی دور میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد موجودہ یورپ اور امریکا ایک مرتبہ پھر افراتفری اور ہیجان خیزی کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکے ہیں، یورپ اور امریکا کا یہ ایسا دور ہے کہ جس میں وہ دنیا کے تمام وسائل پر دسترس رکھنے کے بعد بھی اپنے عوام کے معاشی اور سیاسی مستقبل سے خائف ہیں۔

برائے نام سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نام پر لوٹ کھسوٹ سے بڑے سرمایہ کار پیدا کرنے سے عوام کی سیاسی آزادیوں کو ختم کرنے کا منصوبہ یورپ اور امریکا کے عوام کو اب تک وہ جمہوری اور مکمل انسانی حقوق نہیں دے سکا ہے جس کے وعدے عوام سے کیے گئے تھے۔

یورپ اور امریکا میں سرمایہ داری کی ہیجان خیزی یا مفاد اب تک وہاں کے عوام کو ان کے جمہوری اور انسانی حقوق دینے میں ناکام رہا ہے جس کے سبب یہ مذکورہ سرمایہ دارانہ استحصالی ممالک دنیا کے معدنی، معاشی اور ثقافتی وسائل اور خیالات کی پیشگی صف بندی میں مصروف نظر آتے ہیں۔

اسی کے ساتھ یہ سرمایہ دارانہ ہیجان خیز ممالک نئی نسل میں جدید ترقی کے نام پر ان کو ان کی ادبی و ثقافتی اور سماجی تاریخ سے بیگانہ کرکے سرمایہ دارانہ مفادات کی نگہبان ’’ این جی اوز‘‘ کے سنہرے خواب دکھلا کر تبدیلی یا قوموں کے درمیان انقلابی فکر اور سوچ کے زاویوں کو یکسر این جی اوز کی مدد سے تبدیل کر دینے پر کاربند ہیں جس کی تین مثالیں ماضی قریب کے نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ہیں جہاں ’’ انقلاب‘‘ کے پرفریب نعرے میں سرمایہ دارانہ تسلط اور من پسند حکومتیں قائم کی گئی ہیں۔

اس تناظر میں یہ سرمایہ دارانہ عالمی طبقہ سب سے پہلے کسی بھی ملک یا خطے کی ثقافت کو تبدیل کرتا ہے جو آگے جاکر اپنی تاریخ و ثقافت کو بھول کر اسی ہلڑکو انقلاب سمجھ بیٹھے ہیں جس ہلڑکی نتیجے میں سرمایہ دارانہ استحصالی قوتوں کو اسی خطے یا ملک کے چند مفاد پرست افراد نسل میں ثقافت کے نام پر ’’کثافت‘‘ پھیلا کر ملک کے وسائل پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، جو کہیں کے بھی وسائل پر قبضہ کرنے کا یہ سرمایہ دارانہ مزاج کا پرانا طریقہ واردات ہے۔

سیاسی، معاشی اور سماجی طور سے انسانی شعور کو صیقل کرنے اور سماجی استحصال سے نجات دلانے کے ’’ سوشلسٹ و مارکسسٹ‘‘ فلسفے کے مقابل پرفریب سرمایہ دارانہ مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والے لبرل اور ’’ نیو لبرل ازم‘‘ کی سفاکیوں کو کل کے مقابل آج سمجھنا بہت ضروری ہے، تاکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حمایت یافتہ لبرل ازم اور نیو لبرل ازم کی چالبازیوں کو سمجھا جائے۔

اس سلسلے میں لندن میں مقیم ترقی پسند فکر کے دانشور ثقلین امام کے خیالات اور بحث فکر انگیز ہیں، ان کے خیال میں تحریکوں کا مطالعہ سرد جنگ کی حکمت عملیوں، خاص طور پر کانگریس فارکلچرل فریڈم (CCF) کے کردار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ CCF کے بارے میں اب کئی تحقیقی مقالے اور چند کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ 1950 میں قائم ہونے والی کانگریس فار کلچرل فریڈم CCF کو سی آئی اے کی طرف سے خفیہ طور پر مالی امداد فراہم کی گئی تھی تاکہ سوویت یونین کے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔

اس تحریک کا مقصد ایسی دانشورانہ اور ثقافتی تحریکوں کی حمایت کرنا تھا جو لبرل جمہوری اقدار کی حامی ہوں، لیکن ان میں سرمایہ داری کے فروغ کی کوئی واضح حکمت عملی شامل نہیں تھی۔ اس کے بجائے، CCF نے آمرانہ حکومتوں کے خلاف اظہار رائے کی آزادی، انفرادی حقوق اور بائیں بازو کے نظریات کے مخالف مینیفیسٹوز کی وکالت کو ترجیح دی۔

مغربی پولیٹیکل ڈکشن میں سوشلسٹ حکومتوں کو آمرانہ حکومتیں کہا جاتا تھا مگر امریکا کے حامی فوجی آمروں کو اپنا کہہ کر قبول کر لیا جاتا تھا۔ اس طرح ’’ اینٹی کمیونسٹ بایاں بازو‘‘ کا ایک نیا تصور پیدا ہوا، جو نہ صرف بائیں بازو کے رجحانات بلکہ عالمی سطح پر مغربی مفادات کے لیے ایک جدید حکمت عملی بن گئی۔معروف دانشور سعدیہ طور کی تحقیق The State of Islam:

Culture and Cold War Politics in Pakistan نے اس بات کو بے نقاب کیا ہے کہ کس طرح مغرب نے اسی پالیسی کے ذریعے پاکستان میں مارکسی اور سامراج مخالف تحریکوں (anti ، imperialist movements) کو حکمت عملی کے طور پر کمزور کیا۔

سعدیہ طور کا استدلال ہے کہ ’’ یورپ اور شمالی امریکا میں ثقافتی سرد جنگ کی قیادت کمیونزم مخالف لبرلز نے کی تھی۔ یہی صورتحال پاکستان میں بھی تھی اور میں یہ دکھانا چاہتی تھی کہ اس لبرل کمیونزم مخالف رجحان نے سیاست، سماج اور ثقافت پر کیا اثرات مرتب کیے۔

میری اس کتاب میں بنیادی دلیل یہ ہے کہ پاکستان میں رجعت پسند اسلامی سیاست کا عروج براہ راست بائیں بازو کی بطور ایک سیاسی اور ثقافتی رپریشن، مارجنلائزیشن اور بالآخر تباہی سے جڑا ہوا ہے، اور اس منصوبے میں کمیونزم مخالف لبرلز نے نمایاں کردار ادا کیا اور اب تک کر رہے ہیں۔‘‘

سعدیہ طور کی تحقیق کے مطابق امریکا نے سی آئی اے کی معاونت سے چلنے والے پروگرامز اور فنڈنگ کے ذریعے بائیں بازو کے اثرات اور ترقی پسند مصنفین کی تحریک کو غیر مؤثرکرنے کی کوششیں کیں۔ پاکستان میں، یہ کوششیں دانشوروں، ثقافتی اشرافیہ اور فنکاروں کو اپنے خول میں شامل کرنے کی شکل میں سامنے آئیں، تاکہ مغربی مفادات کے مطابق بیانیے کو فروغ دیا جا سکے۔ مس طور کے مطابق اس خانمہء خرابی میں پاکستانی ادب اور فن کے بڑے نام بھی CCF سے سرد جنگ کے اُس دور میں مستفیض ہوئے۔

21 ویں صدی میں، امریکا کی فنڈنگ سے چلنے والی سول سوسائٹی تنظیموں، ماحولیاتی تحریکوں اور ثقافتی سرگرمیوں جیسے ادبی میلوں (literary festivals) نے سرد جنگ کے دورکی نوعیت کی حکمت عملی کو اپنایا ہے۔

بڑے شہروں میں ہونے والے ادبی میلوں میں یہ تقریبات ظاہری طور پر مکالمہ اور دانشورانہ تبادلے کے پلیٹ فارم ہیں، لیکن یہ ایک قسم کی ثقافتی نوآبادیاتی (cultural colonialism) کے حربے ہیں، جو مغربی ایجنڈے کو فروغ دے کر دراصل سرمایہ دارانہ مفادات کا فروغ چاہتے ہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد اب کیونکہ پاکستان کا دانشور طبقے ایک ایسا ریوڑ ہے جسے کوئی بھی ہنکا کر کہیں لے جائے کیونکہ بائیں بازوکی تحریک عنقا ہے۔ اس لیے مغربی ثقافتی نوآبادیاتی ایجنڈا بلا چون و چرا فروغ پا رہا ہے۔

یہ میلوں، جو مغربی اقدار، انفرادیت، لبرل ازم اور صارفیت (consumerism) کو ترجیح دیتے ہیں، درحقیقت مقامی ثقافتوں اور اقدار سے متصادم ہیں۔ ایسے فنکار، مصنفین اور دانشور جو اس میں حصہ لیتے ہیں، اکثر اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھ بند کرکے شمولیت کے پیچھے وسیع جغرافیائی اور سیاسی مقاصد ہیں۔

پاکستان میں غیر ملکی فنڈز سے چلنے والے ادبی میلوں کو ایک نرم طاقت (soft power) کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جو مغربی ثقافتی اور دانشورانہ معیارات کو فروغ دیتے ہیں۔

یہ میلے عموماً انگریزی زبان کے مصنفین اور لبرل تھیمزکو ترجیح دیتے ہیں جو مغربی نظریات سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ اس کا نتیجہ مقامی ثقافتوں اور ادبی ورثے کے لیے ایک خطرہ بن رہا ہے، اس طبقہ کو’’ کمپراڈور انٹلیکچؤلز‘‘ (comprador intellectuals) کہا جاتا ہے جو مقامی شناختوں اور جدوجہدوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔

موجودہ دور میں ایک اور نئی حکمت عملی یہ ہے کہ حکومتی مداخلت کے علاوہ نجی افراد بھی فنڈنگ کر رہے ہیں۔ جیسے جارج سوروس (George Soros)، ایلون مسک (Elon Musk)، بل گیٹس (Bill Gates) اور کئی مالدار افراد یا نجی اداروں کی طرف سے دنیا کے نظریات کو دوبارہ تشکیل دینے (worldview reshaping ) میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں، یہ اقدامات ثقافتی نوآبادیات (cultural colonization) کے جاری منصوبے کا حصہ ہیں، جو دانشورانہ اور ثقافتی منظر ناموں کو مغربی اقدار (Western norms) کے مطابق ڈھالتے ہیں جب کہ مقامی شناختوں اور جدوجہد کو کم سے کم کر دیتے ہیں۔

سعدیہ طور کے مطابق یہ پروگرامز بہت منظم طور پر سامراج مخالف نظریات (anti-imperialist ideologies) کو منہدم کرتے ہیں اور یہ کہ ترقی پذیر دنیا کے دانشورانہ اور ثقافتی تانے بانے (fabric) کو تشکیل دینے میں غیر ملکی ایجنڈوں کے خفیہ مگر وسیع اثر و رسوخ کو فروغ دیتے ہیں، جن کو سمجھنے اور ان سرمایہ دارانہ چالبازیوں کے خلاف سماجی اور فکری مزاحمت کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یورپ اور امریکا سرمایہ دارانہ پاکستان میں ثقافتی نوا اور ثقافتی میں سرمایہ حکمت عملی سعدیہ طور اور ثقافت کے مطابق دیتے ہیں دنیا کے کو فروغ رہا ہے

پڑھیں:

سونے کے بعد چاندی کی قیمت میں بھی تیزی سے اضافہ، وجہ کیا ہے؟

عالمی مارکیٹ کے بعد پاکستان میں بھی قیمتی دھاتوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ سونا پہلے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو چکا ہے جبکہ اب چاندی کی قیمتوں نے بھی تیزی سے نئی حد عبور کر لی ہے۔
ماہرین اس رجحان کو عالمی منڈی میں غیریقینی حالات روپے کی گرتی ہوئی قدر، صنعتی طلب اور مقامی سرمایہ کاری کے رجحان کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
اردونیوزکی رپور ٹ کےمطابق چیئرمین آل پاکستان جیولرز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن محمد ارشد کے مطابق اکتوبر 2025 کے دوسرے ہفتے سے 24 قیراط سونے کی فی تولہ قیمت چار لاکھ روپے سے زائد ریکارڈ کی جا رہی ہے جبکہ عالمی سطح پر بھی سونا مضبوط پوزیشن میں ہے جہاں فی اونس سونے کی قیمت چار ہزار امریکی ڈالر سے زائد تک جا پہنچی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’دوسری جانب چاندی کی قیمتوں میں غیرمعمولی تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ملک بھر میں چاندی کی فی تولہ قیمت پانچ ہزار روپے سے زیادہ ریکارڈ کی جا رہی ہے جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ گذشتہ چار ماہ میں چاندی کی قیمت میں 40 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سونے اور چاندی کی قیمتوں میں اضافے کا سب سے بڑا سبب روپے کی گرتی ہوئی قدر ہے۔ پاکستانی روپے کی قیمت جب بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے تو عالمی منڈی سے درآمد کی جانے والی اشیا خصوصاً قیمتی دھاتیں مہنگی ہو جاتی ہیں۔
کراچی کے مالیاتی تجزیہ کار اور سینیئر صحافی وکیل الرحمٰن نے  کہا کہ پاکستان میں سونے اور چاندی کی قیمتوں کا انحصار عالمی مارکیٹ پر ہے، اور یہ چوںکہ ڈالر میں طے ہوتی ہیں، اس لیے روپے کی قدر میں کمی براہِ راست ان کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
ڈالر کی قدر میں معمولی اضافہ بھی سونے کی فی تولہ قیمت میں ہزاروں روپے کا فرق ڈال دیتا ہے۔
عالمی سطح پر سونا اور چاندی ایک مرتبہ پھر سرمایہ کاری کے محفوظ ترین ذرائع بن چکے ہیں۔
افراطِ زر میں اضافہ، بینکوں کی شرح سود میں غیریقینی اور جغرافیائی کشیدگی نے سرمایہ کاروں کو دوبارہ قیمتی دھاتوں کی طرف مائل کر دیا ہے۔

پاکستان میں قیمتی دھاتوں کی خرید و فروخت صرف سرمایہ کاری تک محدود نہیں بلکہ معاشرتی اور ثقافتی طور پر بھی اہم ہے۔ شادیوں کے موسم میں زیورات کی خریداری بڑھنے سے مارکیٹ میں طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔
کراچی کے صرافہ بازاروں کے مطابق سونے کی قیمت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے اب خریداری کا رجحان بہت کم دیکھا جا رہا ہے۔
دوسری جانب چاندی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے حوالے سے ایک نیا رجحان بھی سامنے آیا ہے۔ چاندی صرف زیورات کے لیے نہیں بلکہ صنعتی مقاصد جیسے سولر پینلز، میڈیکل آلات، بیٹریوں اور الیکٹرانک پرزہ جات میں بھی وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چاندی کی قیمت میں اضافہ صرف مالیاتی رجحان نہیں بلکہ صنعتی ضرورت کا نتیجہ ہے۔ جیسے جیسے دنیا قابلِ تجدید توانائی کی طرف جا رہی ہے، چاندی کی عالمی طلب بڑھ رہی ہے۔ اس کے اثرات پاکستان جیسے درآمدی ملک پر براہِ راست پڑتے ہیں۔
عام صارفین اور چھوٹے سرمایہ کار متاثر
قیمتوں کے اس مسلسل اضافے نے عوام اور چھوٹے سرمایہ کاروں کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں۔
کراچی کے رہائشی محمد شاہد کہتے ہیں کہ چاندی پہلے عام آدمی کی بچت ہوا کرتی تھی۔ اب یہ بھی اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ چھوٹے سرمایہ کار کے پاس اب محفوظ سرمایہ کاری کے زیادہ مواقع نہیں رہے۔
زیورات ساز صنعت بھی خام مال کی مہنگائی کے دباؤ میں ہے۔ کراچی جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق کام میں واضح کمی واقع ہوئی ہے، کیونکہ خام مال کی قیمت بڑھنے سے پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے جبکہ صارفین بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے کم خریداری کر رہے ہیں۔
پاکستان میں سونے اور چاندی کی قیمتوں کا بڑھنا بظاہر سرمایہ کاروں کے لیے خوش آئند نظر آتا ہے، مگر مجموعی طور پر یہ معیشت کے لیے ایک نئی آزمائش ہے۔ یہ اضافہ نہ صرف عام صارفین کے بجٹ پر بوجھ ڈال رہا ہے بلکہ زیورات کی صنعت، درآمدی توازن اور مالیاتی پالیسی کے لیے بھی چیلنج بن چکا ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر روپے کو استحکام اور مالیاتی نظم نہ ملا تو یہ رجحان آنے والے مہینوں میں مزید بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کی مارکیٹ میں سونا اور چاندی فی الحال دونوں اپنی تاریخی چمک برقرار رکھے ہوئے ہیں، مگر ان کی یہ چمک معیشت کے گہرے زخموں کی عکاسی بھی کر رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، انڈیکس میں 4,500 پوائنٹس کی گراوٹ
  • سعودی انٹرنیشنل باز و شکار میلہ اختتام پذیر: 7 ملین ریال کے باز نیلام
  • ہیلیون کی شمولیت سے سرمایہ کاری اور روزگار میں اضافہ
  • چینی سفارت خانے میں رنگا رنگ ثقافتی مشاعرہ سے پاک-چین دوستی کا دلکش اظہار
  • سونے کے بعد چاندی کی قیمت میں بھی تیزی سے اضافہ، وجہ کیا ہے؟
  • پاکستان کی جنوبی افریقا کیخلاف پہلی اننگز میں ذمہ دارانہ بیٹنگ
  • اسرائیل نے مغربی کنارے میں موجود الجزیرہ کے دفتر کی بندش 7ویں بار بڑھا دی
  • مصنوعی ذہانت کے ذریعے ڈیجیٹل معیشت کو مؤثر اور اس کے ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنایا جائے، وزیراعظم شہباز شریف
  • پاکستان میں چاندی کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ