Express News:
2025-11-27@22:05:48 GMT

ثقافتی نوآبادیات اور لبرل ازم

اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT

آج کے جدید ٹیکنالوجی دور میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد موجودہ یورپ اور امریکا ایک مرتبہ پھر افراتفری اور ہیجان خیزی کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکے ہیں، یورپ اور امریکا کا یہ ایسا دور ہے کہ جس میں وہ دنیا کے تمام وسائل پر دسترس رکھنے کے بعد بھی اپنے عوام کے معاشی اور سیاسی مستقبل سے خائف ہیں۔

برائے نام سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نام پر لوٹ کھسوٹ سے بڑے سرمایہ کار پیدا کرنے سے عوام کی سیاسی آزادیوں کو ختم کرنے کا منصوبہ یورپ اور امریکا کے عوام کو اب تک وہ جمہوری اور مکمل انسانی حقوق نہیں دے سکا ہے جس کے وعدے عوام سے کیے گئے تھے۔

یورپ اور امریکا میں سرمایہ داری کی ہیجان خیزی یا مفاد اب تک وہاں کے عوام کو ان کے جمہوری اور انسانی حقوق دینے میں ناکام رہا ہے جس کے سبب یہ مذکورہ سرمایہ دارانہ استحصالی ممالک دنیا کے معدنی، معاشی اور ثقافتی وسائل اور خیالات کی پیشگی صف بندی میں مصروف نظر آتے ہیں۔

اسی کے ساتھ یہ سرمایہ دارانہ ہیجان خیز ممالک نئی نسل میں جدید ترقی کے نام پر ان کو ان کی ادبی و ثقافتی اور سماجی تاریخ سے بیگانہ کرکے سرمایہ دارانہ مفادات کی نگہبان ’’ این جی اوز‘‘ کے سنہرے خواب دکھلا کر تبدیلی یا قوموں کے درمیان انقلابی فکر اور سوچ کے زاویوں کو یکسر این جی اوز کی مدد سے تبدیل کر دینے پر کاربند ہیں جس کی تین مثالیں ماضی قریب کے نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ہیں جہاں ’’ انقلاب‘‘ کے پرفریب نعرے میں سرمایہ دارانہ تسلط اور من پسند حکومتیں قائم کی گئی ہیں۔

اس تناظر میں یہ سرمایہ دارانہ عالمی طبقہ سب سے پہلے کسی بھی ملک یا خطے کی ثقافت کو تبدیل کرتا ہے جو آگے جاکر اپنی تاریخ و ثقافت کو بھول کر اسی ہلڑکو انقلاب سمجھ بیٹھے ہیں جس ہلڑکی نتیجے میں سرمایہ دارانہ استحصالی قوتوں کو اسی خطے یا ملک کے چند مفاد پرست افراد نسل میں ثقافت کے نام پر ’’کثافت‘‘ پھیلا کر ملک کے وسائل پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، جو کہیں کے بھی وسائل پر قبضہ کرنے کا یہ سرمایہ دارانہ مزاج کا پرانا طریقہ واردات ہے۔

سیاسی، معاشی اور سماجی طور سے انسانی شعور کو صیقل کرنے اور سماجی استحصال سے نجات دلانے کے ’’ سوشلسٹ و مارکسسٹ‘‘ فلسفے کے مقابل پرفریب سرمایہ دارانہ مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والے لبرل اور ’’ نیو لبرل ازم‘‘ کی سفاکیوں کو کل کے مقابل آج سمجھنا بہت ضروری ہے، تاکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حمایت یافتہ لبرل ازم اور نیو لبرل ازم کی چالبازیوں کو سمجھا جائے۔

اس سلسلے میں لندن میں مقیم ترقی پسند فکر کے دانشور ثقلین امام کے خیالات اور بحث فکر انگیز ہیں، ان کے خیال میں تحریکوں کا مطالعہ سرد جنگ کی حکمت عملیوں، خاص طور پر کانگریس فارکلچرل فریڈم (CCF) کے کردار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ CCF کے بارے میں اب کئی تحقیقی مقالے اور چند کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ 1950 میں قائم ہونے والی کانگریس فار کلچرل فریڈم CCF کو سی آئی اے کی طرف سے خفیہ طور پر مالی امداد فراہم کی گئی تھی تاکہ سوویت یونین کے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔

اس تحریک کا مقصد ایسی دانشورانہ اور ثقافتی تحریکوں کی حمایت کرنا تھا جو لبرل جمہوری اقدار کی حامی ہوں، لیکن ان میں سرمایہ داری کے فروغ کی کوئی واضح حکمت عملی شامل نہیں تھی۔ اس کے بجائے، CCF نے آمرانہ حکومتوں کے خلاف اظہار رائے کی آزادی، انفرادی حقوق اور بائیں بازو کے نظریات کے مخالف مینیفیسٹوز کی وکالت کو ترجیح دی۔

مغربی پولیٹیکل ڈکشن میں سوشلسٹ حکومتوں کو آمرانہ حکومتیں کہا جاتا تھا مگر امریکا کے حامی فوجی آمروں کو اپنا کہہ کر قبول کر لیا جاتا تھا۔ اس طرح ’’ اینٹی کمیونسٹ بایاں بازو‘‘ کا ایک نیا تصور پیدا ہوا، جو نہ صرف بائیں بازو کے رجحانات بلکہ عالمی سطح پر مغربی مفادات کے لیے ایک جدید حکمت عملی بن گئی۔معروف دانشور سعدیہ طور کی تحقیق The State of Islam:

Culture and Cold War Politics in Pakistan نے اس بات کو بے نقاب کیا ہے کہ کس طرح مغرب نے اسی پالیسی کے ذریعے پاکستان میں مارکسی اور سامراج مخالف تحریکوں (anti ، imperialist movements) کو حکمت عملی کے طور پر کمزور کیا۔

سعدیہ طور کا استدلال ہے کہ ’’ یورپ اور شمالی امریکا میں ثقافتی سرد جنگ کی قیادت کمیونزم مخالف لبرلز نے کی تھی۔ یہی صورتحال پاکستان میں بھی تھی اور میں یہ دکھانا چاہتی تھی کہ اس لبرل کمیونزم مخالف رجحان نے سیاست، سماج اور ثقافت پر کیا اثرات مرتب کیے۔

میری اس کتاب میں بنیادی دلیل یہ ہے کہ پاکستان میں رجعت پسند اسلامی سیاست کا عروج براہ راست بائیں بازو کی بطور ایک سیاسی اور ثقافتی رپریشن، مارجنلائزیشن اور بالآخر تباہی سے جڑا ہوا ہے، اور اس منصوبے میں کمیونزم مخالف لبرلز نے نمایاں کردار ادا کیا اور اب تک کر رہے ہیں۔‘‘

سعدیہ طور کی تحقیق کے مطابق امریکا نے سی آئی اے کی معاونت سے چلنے والے پروگرامز اور فنڈنگ کے ذریعے بائیں بازو کے اثرات اور ترقی پسند مصنفین کی تحریک کو غیر مؤثرکرنے کی کوششیں کیں۔ پاکستان میں، یہ کوششیں دانشوروں، ثقافتی اشرافیہ اور فنکاروں کو اپنے خول میں شامل کرنے کی شکل میں سامنے آئیں، تاکہ مغربی مفادات کے مطابق بیانیے کو فروغ دیا جا سکے۔ مس طور کے مطابق اس خانمہء خرابی میں پاکستانی ادب اور فن کے بڑے نام بھی CCF سے سرد جنگ کے اُس دور میں مستفیض ہوئے۔

21 ویں صدی میں، امریکا کی فنڈنگ سے چلنے والی سول سوسائٹی تنظیموں، ماحولیاتی تحریکوں اور ثقافتی سرگرمیوں جیسے ادبی میلوں (literary festivals) نے سرد جنگ کے دورکی نوعیت کی حکمت عملی کو اپنایا ہے۔

بڑے شہروں میں ہونے والے ادبی میلوں میں یہ تقریبات ظاہری طور پر مکالمہ اور دانشورانہ تبادلے کے پلیٹ فارم ہیں، لیکن یہ ایک قسم کی ثقافتی نوآبادیاتی (cultural colonialism) کے حربے ہیں، جو مغربی ایجنڈے کو فروغ دے کر دراصل سرمایہ دارانہ مفادات کا فروغ چاہتے ہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد اب کیونکہ پاکستان کا دانشور طبقے ایک ایسا ریوڑ ہے جسے کوئی بھی ہنکا کر کہیں لے جائے کیونکہ بائیں بازوکی تحریک عنقا ہے۔ اس لیے مغربی ثقافتی نوآبادیاتی ایجنڈا بلا چون و چرا فروغ پا رہا ہے۔

یہ میلوں، جو مغربی اقدار، انفرادیت، لبرل ازم اور صارفیت (consumerism) کو ترجیح دیتے ہیں، درحقیقت مقامی ثقافتوں اور اقدار سے متصادم ہیں۔ ایسے فنکار، مصنفین اور دانشور جو اس میں حصہ لیتے ہیں، اکثر اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھ بند کرکے شمولیت کے پیچھے وسیع جغرافیائی اور سیاسی مقاصد ہیں۔

پاکستان میں غیر ملکی فنڈز سے چلنے والے ادبی میلوں کو ایک نرم طاقت (soft power) کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جو مغربی ثقافتی اور دانشورانہ معیارات کو فروغ دیتے ہیں۔

یہ میلے عموماً انگریزی زبان کے مصنفین اور لبرل تھیمزکو ترجیح دیتے ہیں جو مغربی نظریات سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ اس کا نتیجہ مقامی ثقافتوں اور ادبی ورثے کے لیے ایک خطرہ بن رہا ہے، اس طبقہ کو’’ کمپراڈور انٹلیکچؤلز‘‘ (comprador intellectuals) کہا جاتا ہے جو مقامی شناختوں اور جدوجہدوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔

موجودہ دور میں ایک اور نئی حکمت عملی یہ ہے کہ حکومتی مداخلت کے علاوہ نجی افراد بھی فنڈنگ کر رہے ہیں۔ جیسے جارج سوروس (George Soros)، ایلون مسک (Elon Musk)، بل گیٹس (Bill Gates) اور کئی مالدار افراد یا نجی اداروں کی طرف سے دنیا کے نظریات کو دوبارہ تشکیل دینے (worldview reshaping ) میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں، یہ اقدامات ثقافتی نوآبادیات (cultural colonization) کے جاری منصوبے کا حصہ ہیں، جو دانشورانہ اور ثقافتی منظر ناموں کو مغربی اقدار (Western norms) کے مطابق ڈھالتے ہیں جب کہ مقامی شناختوں اور جدوجہد کو کم سے کم کر دیتے ہیں۔

سعدیہ طور کے مطابق یہ پروگرامز بہت منظم طور پر سامراج مخالف نظریات (anti-imperialist ideologies) کو منہدم کرتے ہیں اور یہ کہ ترقی پذیر دنیا کے دانشورانہ اور ثقافتی تانے بانے (fabric) کو تشکیل دینے میں غیر ملکی ایجنڈوں کے خفیہ مگر وسیع اثر و رسوخ کو فروغ دیتے ہیں، جن کو سمجھنے اور ان سرمایہ دارانہ چالبازیوں کے خلاف سماجی اور فکری مزاحمت کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یورپ اور امریکا سرمایہ دارانہ پاکستان میں ثقافتی نوا اور ثقافتی میں سرمایہ حکمت عملی سعدیہ طور اور ثقافت کے مطابق دیتے ہیں دنیا کے کو فروغ رہا ہے

پڑھیں:

سرمایہ کار بیرون ممالک منتقل ہو رہے ہیں،پیاف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور:پیاف نے کہا ہے کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث سرمایہ کار بیرون ممالک منتقل ہورہے ہیں۔

پاکستان انڈسٹری اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن فرنٹ (پیاف ) کے پیٹرن انچیف میاں سہیل نثار ،چیئرمین سید محمود غزنوی ،سینئر وائس چیئرمین مدثر مسعود چودھری اور وائس چیئرمین راجاوسیم حسن نے کہا ہے کہ ایف بی آر میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور نظام کی آٹومیشن پر برق رفتاری سے پیشرفت کرنے کی ضرورت ہے ۔

پائیدار معیشت کے لیے پالیسیوں میں تسلسل لایا جائے ،ملک میں جمود کا شکار براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے رجحان کو تبدیل کرنے کےلیے سنجیدگی سے حکمت عملی مرتب کی جائے۔

مشترکہ بیان میں پیاف کے عہدیداروں نے کہا کہ ایف بی آر کے ا سٹرکچر کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس کےلیے جامع اسٹڈی رپورٹ تیار کرائی جائے۔

 ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کو سامنے رکھ کر توازن کے ساتھ اقدامات تجویز کیے جائیں ،ہمارے ہاں پالیسیوں کے تسلسل کو بھی اہمیت نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے سرمایہ کار تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔

 جب تک مقامی سرمایہ کار مطمئن نہیں ہوں گے بیرون ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت سے سرمایہ کار ایسے ہیں جو بیرون ممالک سے جوائنٹ ونچر کے ذریعے سرمایہ کاری لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن پالیسیوں کے فقدان اور مختلف محکموں کی رکاوٹ انہیں اس سے باز رکھے ہوئے ہے بلکہ یہ سرمایہ کار بیرون ممالک منتقل ہو رہے ہیں یا اس کی منصوبہ بندی میں لگے ہوئے ہیں۔

پیاف کے عہدیداروں نے مزید کہا کہ حکومت سرمایہ کاروں اور برآمد کنندگان کےلیے مکمل طو رپر الگ سے بااختیار کونسل تشکیل دے جس میں نجی شعبے کو بھی نمائندگی دی جائے تاکہ پالیسیوں کے سو فیصد نتائج برآمد ہو سکیں۔

ویب ڈیسک Faiz alam babar

متعلقہ مضامین

  • مغربی افریقی ملک گنی بساؤ میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا
  • کراچی میں شاندار ثقافتی میلہ سجنے کو تیار، کون سے فنکار پرفارم کریں گے؟
  • اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے میں نیا آپریشن شروع کر دیا
  • پاکستان نیشنل کونسل آرٹس میں روس–پاکستان ثقافتی ہم آہنگی کا شاندار مظاہرہ
  • سرمایہ کار بیرون ممالک منتقل ہو رہے ہیں،پیاف
  • جنوبی کوریا کے نیشنل میوزیم میں پہلی مستقل اسلامی آرٹ گیلری کا افتتاح
  • اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے میں نیا آپریشن شروع کر دیا
  • اسرائیل مغربی کنارے سے ہزاروں فلسطینیوں کو بے گھر کر رہا ہے، ہیومین رائٹس واچ
  • ضلع بدین کے صحافی ہمیشہ ذمے دارانہ صحافت کرتے آئے ہیں
  • بلوچستان کے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کے رہائشیوں کے لیے خوشخبری