سیز فائر حماس کی فتح، آزاد فلسطینی ریاست کا قیام منزل ہے، فضل احد
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) جماعت اسلامی ضلع کیماڑی کے تحت بلدیہ ٹاؤن، پٹنی ہسپتال کے قریب ”غزہ سولڈیرٹی فیملی پروگرام” کا انعقاد کیا گیا، جس کا عنوان ”غزہ دی لینڈ آف ریزسٹنس” تھا۔ پروگرام میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔اس موقع پر چھوٹے بچوں کے لیے تقاریر، ٹیبلوز اور نظموں کے مقابلے رکھے گئے، جبکہ بچوں نے پینٹنگز کے ذریعے بھی اہل غزہ سے اپنی بھرپور محبت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ پروگرام کے دوران شرکاء نے غزہ کی تاریخی اہمیت، اسرائیلی مظالم اور حماس کی جنگی و سفارت کاری کی حکمت عملیوں پر بھی روشنی ڈالی۔تقریب سے امیر جماعت اسلامی ضلع کیماڑی فضل احد، صدر جماعت اسلامی یوتھ ضلع کیماڑی خالد خان یوسف زئی اور دیگر نے خطاب کیا۔ فضل احد نے اپنے خطاب میں زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں غزہ کی حمایت جاری رکھنی چاہیے۔ انہوں نے سیز فائر کو بلاشبہ اہل غزہ اور حماس کی فتح قرار دیا، مگر ساتھ ہی خبردار کیا کہ اسرائیل ایک ناقابل بھروسہ دشمن ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھوک، پیاس اور مظالم کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے سے گزرنے کے باوجود، آج بلدیہ ٹاؤن میں بھی عارضی سیز فائر کی خوشی محسوس کی جا رہی ہے، کیونکہ پاکستان کی عوام کے دل غزہ کی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں، یہ امت مسلمہ کا رشتہ ہے۔فضل احد نے واضح کیا کہ یہ کوئی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا پروگرام نہیں ہے، بلکہ یہ جماعت اسلامی ہی ہے جس نے پورے ملک کو غزہ کے ایشو پر یکجا کیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اس طرح کے پروگرام جاری رہیں گے تاکہ عوام کو فلسطین کا پیغام اور ان سے محبت کا درس دیا جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ غزہ مجاہدوں اور غازیوں کی سرزمین ہے، یہ پہلے بھی نہیں جھکے تھے اور اب بھی نہیں جھکیں گے، لیکن اس معرکے میں بہت سے منافق اور امت کے غدار بے نقاب ہوئے۔ درحقیقت غزہ کے عوام ہی آزاد ہیں، جبکہ باقی امت مسلمہ کے حکمران اسرائیل کے غلام ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ان غلام حکمرانوں سے نجات بھی فلسطین اور غزہ کی حمایت کے مترادف ہے، اور جماعت اسلامی انہی کے خلاف پاکستان میں برسر پیکار ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی انہوں نے غزہ کی
پڑھیں:
اجتماع عام: عظیم الشان کامیابیوں کے ریکارڈ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251127-03-6
جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام غیر معمولی کامیابیوں کے ساتھ مکمل ہوا، اس اجتماع کو کل پاکستان نہیں بلکہ عالمی اجتماع کہنا چاہیے کیونکہ صرف اجتماع عام میں شرکت کے لیے امریکا، برطانیہ، فرانس، اسپین، آئر لینڈ سمیت دنیا بھر سے تحریک اسلامی سے وابستہ افراد پاکستان پہنچے تھے، ملک کا تو شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں کی نمائندگی اجتماع میں نہ ہو، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، مظفرآباد جیسے شہروں کے ساتھ ساتھ پنجاب، سندھ خیبر پختون خوا، بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت، بلتستان کے انتہائی دور دراز مقامات سے بھی لوگ اجتماع میں شریک تھے، اجتماع ایسا گلدستہ نظر آتا تھا جس میں ہر رنگ اور خوشبو کے پھول شامل تھے، ایسے اجتماعات میں یقینا مردوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے لیکن یہاں خواتین کی حاضری نے بھی ریکارڈ توڑ دیا، پہلی مرتبہ عورتوں کا سیشن بھی رکھا گیا اور اسٹیج ان کے حوالے کر دیا گیا جس میں غیر ملکی نمائندہ خواتین نے بھی حصہ لیا، خواتین رہنماؤں نے انتہائی اعتماد، جوش اور ولولے کے ساتھ سیشن کی کارروائی چلائی اور ثابت کر دیا کہ وہ صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی ہیں، اجتماع سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جماعت اسلامی کی دعوت اب اعلیٰ تعلیم یافتہ، تعلیم یافتہ، تاجر، صنعت کار، اور متوسط طبقے سے آگے بڑھ کر کم تعلیم یافتہ، ہنرمند، ان پڑھ مزدوروں، سبزی فروشوں، ڈرائیوروں، چھابڑی والوں، ٹھیلے والوں تک پھیل چکی ہے کیونکہ ان طبقات کی بڑی تعداد اجتماع میں شریک تھی اور جوش و جذبے سے معمور تھی، پھر اجتماع میں روایتی ہی نہیں ماڈرن نوجوان بھی شامل تھے جوہر کارروائی میں بہت دلچسپی کا اظہار کر رہے تھے۔
اجتماع عام میں کچھ نئے تجربات کیے گئے جو یقینا باہمی مشوروں کے بعد ہی کیے گئے ہوں گے۔ جماعت اسلامی میں ان نئے اقدامات کے بعد ایک نئی بحث شروع ہو گی بلکہ اس کا آغاز ہوچکا ہے، ایک لحاظ سے اسے نئی بحث نہیں کہنا چاہیے کیونکہ جب سے جماعت اسلامی قائم ہوئی ہے اس میں معیار و مقدار پر ہمیشہ غور و فکر اور مشورے ہوتے رہے ہیں معیار برقرار رکھنے کے حامیوں کے پاس اپنے دلائل ہیں اور تعداد بڑھانے کے حامیوں کے پاس اپنے، میرے خیال میں دونوں طرف کے حامیوں کو اسلام کے دور اوّل کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جب دائرہ اسلام میں لوگ جوق در جوق داخل ہونے لگے تو معیار برقرار رکھنے کے اقدامات تو کیے گئے لیکن کسی بھی خوف سے دعوت کو محدود نہیں کیا گیا، اب بھی ایسا ہی کیا جانا چاہیے اپنا معیار برقرار رکھنے کی ہر ممکن جستجو کرنی چاہیے، اس کے لیے نئے طریقے سوچنے چاہئیں لیکن دعوت کو ہرگز محدود نہیں کرنا چاہیے۔ ان شاء اللہ اس بحث کا نتیجہ بھی ہمیشہ کی طرح خیر کی صورت میں ہی ظاہر ہوگا اور سید مودودیؒ کا یہ قافلہ مزید تیز رفتاری سے آگے بڑھے گا۔ اس اجتماع عام کی عظیم الشان کامیابی کا سب سے بڑا پیمانہ یہ ہے کہ مینار پاکستان اور اس کے آس پاس کے تمام مقامات پر بہت بڑے پیمانے پر انتظامات کیے گئے تھے اور اس مقصد کے لیے لاہور شہر کے علاوہ دیگر قریبی شہروں سے بھی شامیانے وغیرہ منگوانے پڑے تھے اس کے باوجود جب کارکنوں کے قافلے وہاں پہنچے تو تمام انتظامات ناکافی پڑ گئے مزید شہروں سے اشیاء منگوائی گئیں حتیٰ کہ پنجاب کے بہت سے بھائی بہنوں نے اپنی اقامت گاہیں دیگر صوبوں سے آنے والوں کے لیے خالی کر دیں اور وہ لاہور میں اپنے رشتہ داروں کے گھروں پر راتیں گزارتے رہے۔
جماعت اسلامی نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی انتہائی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اسٹیج پر ان ممتاز شخصیات کو بھی مدعو کیا تھا جن کا جماعت اسلامی سے تعلق نہیں ہے اسی طرح مشاعرے میں بھی کسی امتیاز کے بغیر شعرائے کرام کو مدعو کیا گیا، تین روز کے دوران تقاریر میں تمام شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کیا گیا قرآن و حدیث کی تعلیم ہو یا عملی تربیت کا میدان، سیاست کی گتھیاں ہوں یا عدالت کی ناانصافیاں، معیشت کی پیچیدگیاں ہوں یا صحت کے مسائل، عصری تعلیم کی مشکلات ہوں یا مدارس دینیہ کے حالات، بلدیاتی نظام کے ساتھ سیاست دانوں کا سوتیلا پن ہو یا قومی و صوبائی خزانوں کی غیر منصفانہ تقسیم، کسانوں کا استحصال ہو یا صنعتی کارکنوں پر ظلم و جبر، تمام شعبوں کی درست منظر کشی کی گئی اور مسائل کے قابل عمل حل تجویز کیے گئے، ہمیں یہ خوش گمانی تو نہیں ہے کہ موجودہ قومی اور صوبائی حکومتیں یا اصل حکمران ان قیمتی مشوروں اور تجاویز سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن یہ امید ضرور ہے کہ پاکستان کے سوچنے سمجھنے والے افراد ان کا مطالعہ کریں گے، انہیں سراہیں گے، ان کی حمایت کریں گے اور جب جماعت اسلامی کے پاس اختیار و اقتدار آئے گا تو وہ ضرور ان پر عمل درآمد کی کوشش کرے گی۔ اس طرح ایک خوشحال اور عادلانہ معاشرے کا ہمارا خواب پورا ہو سکے گا۔
امیر جماعت اسلامی محترم حافظ نعیم الرحمن نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جو لائحہ عمل پیش کیا ہے اس کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے، موجودہ فرسودہ، ظالمانہ، استحصال پر مبنی سسٹم کو جدید عادلانہ اور احسان و ایثار سے مزین نظام سے بدل دینا۔ بظاہر یہ ایک ایسا خواب لگتا ہے جس کی تعبیر ممکن نہ ہو لیکن غور کیجیے جب مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تھی اور جو اہداف مقرر کیے تھے وہ بھی دیوانے کا خواب لگتے تھے، لوگ جماعت اسلامی کا، اس کے نعروں کا، اس کی اصطلاحات تک کا مذاق اڑاتے تھے پھر ایک وقت ایسا ایا کہ یہ نعرے نوجوانوں کے سب سے مقبول نعرے ہو گئے اور ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگے، تعلیمی اداروں جامعات میں کالجوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے فعال یونٹ قائم ہوئے اور اتنے مضبوط ہوئے کہ انہوں نے طلبہ کی قیادت کی، یونین انتخابات میں جمعیت مسلسل کامیاب ہوتی رہی تاآنکہ ایک کوتاہ اندیش آمر جنرل ضیاء الحق نے طلبہ یونینوں پر پابندی لگا دی اور ملک کی قیادت کی نرسری کو تباہ کر دیا ایسی نرسری جہاں ہر شعبہ زندگی کے رہنما تیار ہوتے تھے۔
اسی طرح جب جماعت اسلامی نے مزدور یونینوں کی طرف رخ کیا تو ووٹ کی طاقت سے ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز اور دیگر اداروں میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیے، مزدوروں کے لیے شاندار مراعات حاصل کیں، پھر ایک سیٹھ نواز شریف کو اقتدار دے دیا گیا جس نے مختلف حربوں سے لیبر یونین کو ختم کر کے رکھ دیا آج ہر سطح پر مزدور ظلم و ستم کا شکار ہیں، ان سے 12، 12 گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے اور حکومت کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ بھی نہیں دی جاتی نہ ہی انہیں ملازمت کا تحفظ حاصل ہے۔ خدمت خلق وہ میدان ہے جس میں جماعت اسلامی کی دیانت، مہارت اور اعلیٰ ترین کارکردگی کا دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں، ’’الخدمت‘‘ ہر سال غریبوں کے لیے جاری منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ اس کے عطیہ دہندگان میں اپنے ہی نہیں مخالفین بھی شامل ہیں اور یہ کسی بھی خیراتی ادارے کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔ اسی طرح صحافت میں بھی تحریک اسلامی کامیاب رہی، اعلیٰ معیارات قائم کیے، ووٹ کی طاقت سے متعدد صحافتی اداروں میں کامیابی حاصل کی، حافظ نعیم الرحمن نے جو اہداف مقرر کیے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ وہ بھی ایک دن ضرور حاصل ہوں گے، پارلیمانی شعبے میں بھی جماعت اسلامی کامیابی حاصل کرے گی اور ملک کے طول و عرض میں اسلام کا پھریرا لہرائے گا۔