امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل پہنچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیر کے روز اسرائیل پہنچ گئے، ایک ایسے وقت میں جب حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا عمل شروع کیا ہے، اور غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ چند روز قبل ہی طے پایا تھا۔
صدر ٹرمپ کا طیارہ ایئر فورس ون جب بین گوریان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترا تو ان کا استقبال اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ اور وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے کیا۔
اس سے قبل ایئر فورس ون نے تل ابیب کے ’ہاسٹیجز اسکوائر‘ کے اوپر پرواز کی، جہاں ہزاروں شہری یرغمالیوں کی رہائی کی خوشی میں جمع تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام اسرائیل کے لیے امریکی یکجہتی کا علامتی اظہار تھا۔
صدر ٹرمپ نے واشنگٹن سے اسرائیل روانگی کے دوران طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنگ ختم ہو چکی ہے، اب وقت امن قائم کرنے کا ہے۔
صدر ٹرمپ پیر کو اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) سے خطاب کریں گے، جبکہ اسرائیلی صدر ہرزوگ کے مطابق، انہیں اسرائیل کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے بھی نوازا جائے گا۔
امریکی صدر بعد ازاں مصر جائیں گے، جہاں وہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے ہمراہ غزہ امن کانفرنس کی مشترکہ صدارت کریں گے۔ یہ اجلاس شرم الشیخ میں منعقد ہوگا جس میں جنگ بندی کے استحکام اور غزہ کی تعمیرِ نو کے حوالے سے حکمتِ عملی پر غور کیا جائے گا۔
ٹرمپ کے ہمراہ امریکی خصوصی ایلچی جیرڈ کشنر، اسٹیو وٹکوف اور ایوانکا ٹرمپ بھی موجود تھیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
غزہ جنگ بندی کے بعد امارات اور اسرائیل کے امن ریلوے منصوبے پر کام تیز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ میں جنگ بندی کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست میں ایک اور بڑی پیش رفت سامنے آگئی ہے جہاں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے مبینہ طور پر امن ریلوے کے نام سے جاری ریلوے راہداری منصوبے کی تعمیر پر غیر معمولی تیزی سے کام شروع کردیا ہے، اس منصوبے کو خطے میں تجارتی راستوں کے نئے دور کا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ راہداری دراصل ایک بڑے اسٹریٹیجک ریلوے نیٹ ورک کا حصہ ہے جس میں نہ صرف ریل کی پٹڑیاں شامل ہوں گی بلکہ ساتھ ساتھ مواصلاتی کیبلز، پائپ لائنز اور توانائی کی ترسیلی لائنوں کا وسیع انفراسٹرکچر بھی بچھایا جائے گا۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ متعدد مقامات پر انفراسٹرکچر فائنل مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جبکہ کئی حصے مکمل بھی کرلیے گئے ہیں، منصوبے کی رفتار بڑھانے کی ایک بڑی وجہ بحیرہ احمر میں حوثی لڑاکوں کے حملے ہیں، جن کی وجہ سے اسرائیل آنے والے تجارتی جہازوں کو بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے اسرائیل نے بھارت، عرب ریاستوں اور یورپ تک ایک متبادل زمینی و بحری راستہ ترتیب دیا ہے۔
اس نئے روٹ کے مطابق بھارتی بندرگاہ مندرا سے سامان پہلے متحدہ عرب امارات پہنچے گا، جہاں سے اسے سعودی عرب اور اردن کے راستے ٹرکوں کے ذریعے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ منتقل کیا جائے گا، بعد ازاں یہ اشیا یورپی اور امریکی منڈیوں تک برآمد ہوں گی۔
رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیرِ ٹرانسپورٹ میری ریگیو ایک خفیہ دورے پر ابوظہبی پہنچیں جہاں اسرائیلی وزارتِ ٹرانسپورٹ کے تکنیکی ماہرین نے بھی منصوبے کا براہِ راست جائزہ لیا۔ اسرائیلی میڈیا نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ فرانس اور ترکیہ ایک متبادل تجارتی راہداری تشکیل دینے پر غور کر رہے ہیں جو اردن سے شام اور پھر لبنان کی بندرگاہ تک جائے گی۔ اگر یہ راستہ فعال ہوگیا تو اسرائیل خطے کی بڑی معاشی دوڑ سے باہر ہوسکتا ہے۔
امارات، سعودی عرب اور بھارت پہلے ہی اس منصوبے پر عملی پیشرفت کر چکے ہیں جبکہ اسرائیل نے غزہ جنگ کے دوران سفارتی روابط منجمد کرکے اپنے لیے مشکلات بڑھا دی تھیں۔ اب اسرائیل دوبارہ اس منصوبے میں جگہ بنانے کے لیے کوشاں ہے، کیونکہ راہداری اس کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔
دونوں ملکوں نے ٹرانزٹ اور کنیکٹیویٹی امور کی نگرانی کے لیے ایک مشترکہ انتظامی ادارہ قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے، تاہم اس کی پیش رفت خفیہ رکھی جارہی ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جلدی خراب ہونے والی اشیا چند گھنٹوں میں اسرائیل پہنچ سکیں گی بشرطیکہ سعودی عرب اور امارات رستہ کھلا رکھیں۔