اسلام آباد:

بانی چیئرمین پی ٹی آئی اور انکی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔

توشہ خانہ ٹو کیس کی جیل سماعت آج منسوخ کرکے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں کی گئی۔ توشہ خانہ ٹو کیس آج استغاثہ کے دلائل کے لئے مقرر تھا۔

کیس کی سماعت اسپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند کے کی، توشہ خانہ ٹو کیس میں شہادت مکمل ہو چکی ہے۔

جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد سے نئی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔ عدالت نے کیس کی سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: توشہ خانہ ٹو کیس کیس کی سماعت

پڑھیں:

پاکستان کا دل اسلام آباد

پاکستان کا دل اسلام آباد WhatsAppFacebookTwitter 0 12 October, 2025 سب نیوز

تحریر ظہیر حیدر جعفری
اسلام آباد، پاکستان کا دل اور چہرہ، ایک ایسا شہر ہے جو اپنے قدرتی حسن، سکون، ترتیب اور وقار کے باعث دنیا کے خوبصورت ترین دارالحکومتوں میں شمار ہوتا ہے۔ مارگلہ کی سبز پہاڑیاں، کشادہ شاہراہیں، نیلے آسمان کے نیچے پھیلے درختوں کے جھرمٹ، اور جدید طرزِ تعمیر کا حسین امتزاج اسلام آباد کو ایک ایسا مقام عطا کرتا ہے جس پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھی فخر کر سکتی ہے۔ مگر افسوس کہ اس شہر کا سکون اکثر ایسی صورتِ حال کی نذر ہو جاتا ہے جو اس کے مکینوں کے لیے زندگی کو مشکل بنا دیتی ہے۔اسلام آباد کے باسی ایک طرف اس کے قدرتی حسن اور پرسکون ماحول سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، تو دوسری طرف انہیں آئے روز احتجاجوں اور دھرنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی جماعتیں جب بھی اپنے مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر نکلتی ہیں، ان کا پہلا ہدف اسلام آباد ہی ہوتا ہے۔ شاید اس لیے کہ یہاں سے حکومت تک براہِ راست پیغام پہنچانا آسان سمجھا جاتا ہے۔ مگر اس احتجاجی سیاست کا سب سے بڑا نقصان انہی شہریوں کو ہوتا ہے جن کا احتجاج یا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔جب بھی اسلام آباد میں دھرنا یا احتجاج شروع ہوتا ہے، شہر کی زندگی تھم جاتی ہے۔ سڑکیں بند، دفاتر اور تعلیمی ادارے متاثر، ٹریفک جام، اور سب سے بڑھ کر کھانے پینے کی اشیا کی قلت۔ دودھ، سبزی، ادویات اور دیگر ضروری سامان کی ترسیل رک جاتی ہے۔ اسپتالوں میں پہنچنا دشوار، اسکول بند، اور ملازمین گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں۔ گویا پورا شہر محصور ہو کر رہ جاتا ہے۔اسلام آباد جیسے منظم اور پرسکون شہر کے لیے یہ کیفیت انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ہر چند ماہ بعد کوئی نہ کوئی جماعت احتجاج کے نام پر شہر کا نظام مفلوج کر دیتی ہے۔ اس دوران نہ صرف شہریوں کو مشکلات پیش آتی ہیں بلکہ سیکیورٹی اداروں پر بھی اضافی دبا بڑھ جاتا ہے۔ کسی بھی وقت حالات بگڑنے کا خدشہ رہتا ہے، جس سے پورا دارالحکومت ایک خوف اور غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔جمہوریت میں احتجاج ہر شہری اور جماعت کا حق ہے، لیکن اس حق کے استعمال کے لیے ایک نظم و ضبط اور قانون کا ہونا بھی ضروری ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں احتجاج کے لیے مخصوص مقامات مختص کیے گئے ہیں، جہاں لوگ اپنی آواز بلند کرتے ہیں مگر پورے شہر کی زندگی کو مفلوج نہیں بناتے۔ اسی تناظر میں یہ ضروری ہے کہ حکومتِ پاکستان اسلام آباد میں بھی احتجاج کے لیے ایک مخصوص مقام مقرر کرے ایسی جگہ جہاں کوئی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت اپنے مطالبات کے لیے دھرنا دے یا احتجاج کرے، مگر شہریوں کی آمدورفت اور روزمرہ زندگی متاثر نہ ہو۔اگر حکومت یہ پالیسی اختیار کرے کہ کسی بھی جماعت کو شہر کے مرکزی راستوں، سرکاری دفاتر یا ریڈ زون میں احتجاج کی اجازت نہ دی جائے، بلکہ انہیں مخصوص احتجاجی زون میں لے جایا جائے، تو نہ صرف امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوگی بلکہ سیکیورٹی اداروں کو بھی اپنے فرائض مثر انداز میں نبھانے میں آسانی ہوگی۔ اس سے شہریوں کو بھی ذہنی سکون ملے گا کہ ان کی زندگی اچانک کسی احتجاج یا دھرنے کے باعث مفلوج نہیں ہوگی۔یہ قدم نہ صرف شہریوں کے لیے سہولت پیدا کرے گا بلکہ حکومت اور احتجاج کرنے والی جماعتوں دونوں کے لیے ایک منصفانہ توازن قائم کرے گا۔ جماعتیں اپنے حقِ احتجاج سے محروم نہیں ہوں گی، اور عوام بھی اپنے روزمرہ معمولات کو بغیر خوف یا رکاوٹ کے جاری رکھ سکیں گے۔اسلام آباد پاکستان کا چہرہ ہے، جہاں غیر ملکی سفارت کار، سیاح، محقق اور صحافی آتے ہیں۔ یہ شہر دنیا کو پاکستان کی ایک مہذب، منظم اور پرامن تصویر دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن جب یہی شہر احتجاج، شور شرابے اور رکاوٹوں کا مرکز بن جاتا ہے تو یہ تصویر مسخ ہو جاتی ہے۔اسلام آباد کے باسی اب اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے شہر کو حقیقی معنوں میں ایک پرامن دارالحکومت بنایا جائے۔ حکومتِ وقت اگر دانشمندی سے منصوبہ بندی کرے، شہریوں کے آرام و سکون کو مقدم رکھے، اور احتجاج کے حق کو منظم انداز میں استعمال کرنے کا طریقہ متعین کرے، تو اسلام آباد ایک بار پھر اپنی اصل شناخت خوبصورتی، نظم اور وقار حاصل کر سکتا ہے۔اسلام آباد قدرت کی حسین نشانی ہے، مگر اس کے وقار کا انحصار ہم سب کے اجتماعی رویے پر ہے۔ جب تک ہم نظم، برداشت اور ذمہ داری کو اپنی اجتماعی زندگی کا حصہ نہیں بناتے، تب تک اسلام آباد کا سکون محض ایک خواب ہی رہے گا ایک ایسا خواب جس کی تعبیر کے لیے حکومت، عوام اور سیاسی جماعتوں سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرکراچی سمیت سندھ بھر میں دفعہ 144نافذ، احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں پر پابندی عائد،نوٹیفکیشن جاری شہید زندہ ہیں، قوم جاگتی رہے ننھی آوازیں، بڑے سوال: بچیوں کا دن، سماج کا امتحان موبائل ۔ علم کا دوست اور جدید دنیا یومِ یکجہتی و قربانی: 8 اکتوبر 2005 – ایک عظیم آزمائش اور عظیم اتحاد کی داستان اب ہم عزت کے قابل ٹھہرے نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • شاہ محمود قریشی پر اسلام آباد میں کتنے مقدمات درج ہیں؟ رپورٹ عدالت میں پیش
  • 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت میں آئینی بینچ اور فل کورٹ پر ججز کے سخت سوالات
  • سپر ٹیکس کیس کی سماعت ایک روز کےلئے ملتوی ، ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ مکالمے
  • توشہ خانہ ٹو کیس کا حتمی مرحلہ: شہادتیں مکمل، آج ہونے والی سماعت منسوخ
  • توشہ خانہ ٹو کیس کی عدالتی سماعت منسوخ کر دی گئی
  • توشہ خانہ ٹوکیس کی جیل سماعت آج منسوخ کردی گئی
  • پاکستان کا دل اسلام آباد
  • عازمینِ حج 27 اکتوبر تک کوائف کی درستگی کروا لیں، وزارت مذہبی امور کی ہدایت