اسرائیل کے ناجائز قبضے کو قانونی حیثیت دینا سنگین جرم سمجھتے ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ یونٹس کیلیے شعبہ تنظیم سازی کیجانب سے دیئے گئے نَو نکاتی پروگرام پر عمل درآمد کو لازمی قرار دیا گیا ہے تاکہ تنظیمی سرگرمیوں میں مؤثریت لائی جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے ہمارا موقف وہی ہے جو قائداعظم محمد علی جناح کا تھا۔ ہم اسرائیل کو ناجائز ریاست سمجھتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے گوٹھ شاہنواز مری میں پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر صوبائی آرگنائزنگ کمیٹی کے اراکین آغا منور جعفری، اصغر علی سیٹھار اور مولانا منور حسین سولنگی بھی ان کے ہمراہ تھے، جبکہ مجلس وحدت مسلمین ضلع بے نظیر آباد کے صدر مولانا سجاد علی محسنی کی قیادت میں تعلقہ رہنما ڈاکٹر عبدالعزیز، یونٹ صدر مشتاق حسین مری اور دیگر تنظیمی ذمہ داران بطور میزبان موجود تھے۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے شہداء کے پاکیزہ لہو کی برکت سے آج مسئلۂ فلسطین پوری دنیا کا سب سے بڑا اور بنیادی انسانی مسئلہ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کا اسرائیل کے بارے میں وہی مؤقف ہے جو بانیی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کا تھا۔ ہم اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست سمجھتے ہیں اور دو ریاستی حل کے نام پر غاصب اسرائیل کے ناجائز قبضے کو قانونی حیثیت دینے کو سنگین جرم سمجھتے ہیں۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ صوبہ سندھ میں تنظیمی فعالیت میں مزید بہتری لائی جائے گی۔ تعلقہ کابینہ کو مضبوط اور یونٹس کو فعال بنایا جائے گا۔ یونٹس کے لیے شعبہ تنظیم سازی کی جانب سے دیئے گئے نَو نکاتی پروگرام پر عمل درآمد کو لازمی قرار دیا گیا ہے تاکہ تنظیمی سرگرمیوں میں مؤثریت لائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین قوم کی امیدوں کا مرکز بن چکی ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، مظلوم فلسطینیوں کی حمایت، عالمی استکباری قوتوں (امریکہ و اسرائیل) کے خلاف دوٹوک موقف اور وطنِ عزیز پاکستان کی خودمختاری، ترقی و سربلندی مجلس وحدت مسلمین کے ویژن کا بنیادی حصہ ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ مقصود اسرائیل کے سمجھتے ہیں نے کہا کہ ڈومکی نے
پڑھیں:
سیاسی پیشرفت کے باوجود مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال بدستور سنگین ہے، پاکستان
نیویارک:اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ اور مسئلہ فلسطین پر بریفنگ کے دوران اپنے بیان میں کہا کہ مقبوضہ فلسطین میں سیاسی پیشرفت کے باوجود صورتحال بدستور نہایت سنگین ہے اور جنگ بندی کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
عاصم افتخار نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ صدرِ محترم ہم نائب خصوصی کوآرڈی نیٹر برائے مشرق وسطیٰ امن عمل جناب رامیز الاکبروف کے جامع بریفنگ پر اُن کے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں سے دنیا نے غزہ میں ایک تباہ کن جنگ کو کرب اور حیرت کے ساتھ دیکھا ہے، ایسی جنگ جس نے محصور، محاصرے میں جکڑے، بارہا بمباری کا شکار اور بھوک سے نڈھال فلسطینی عوام پر ناقابلِ بیان مصیبتیں ڈھا دی ہیں۔
70 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ تقریباً پوری سماجی و معاشی ڈھانچہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ جنگ بندی کے مطالبات کو مسلسل نظرانداز کیا گیا، اور احتساب کی پکاروں کا جواب مکمل استثنیٰ کے ساتھ دیا گیا۔
پاکستان کے سفیر کا کہنا تھا کہ اس ہولناک منظرنامے کے بیچ، اور اسرائیلی جارحیت کے لگاتار حملوں کے باوجود، دو اہم پیش رفتیں سامنے آئیں، پہلی یہ کہ فلسطینی مسئلے کے پرامن حل اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے جولائی میں اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا، جس کے بعد 12 ستمبر کو نیویارک اعلامیہ منظور کیا گیا، اور اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران 22 ستمبر کو اس کانفرنس کے دوبارہ آغاز کا فیصلہ کیا گیا۔
اس اعلامیے میں ایک آزاد ریاستِ فلسطین کے قیام کے لیے ٹھوس، وقت مقررہ اور ناقابلِ واپسی اقدامات اٹھانے کا عزم ظاہر کیا گیا، جو عالمی برادری کی بھرپور خواہش کا مظہر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر دوسرا فیصلہ کن موڑ آیا جو سیاسی روابط اور مسلسل سفارت کاری کا نتیجہ تھا، شرم الشیخ امن سربراہ اجلاس خطے اور عالمی شراکت دار ایک مشترکہ مقصد کے گرد جمع ہوئے، جنگ بندی کو برقرار رکھنا، انسانی تباہی کا ازالہ کرنا، اور فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے ایک قابلِ اعتماد سیاسی راستے کی بنیاد رکھنا۔
عاصم افتخار نے کہا کہ اسی عمل نے گزشتہ ہفتے اس کونسل کی جانب سے قرارداد 2803 کی منظوری کی راہ ہموار کی۔ اور یہ سب کچھ 23 ستمبر کو 8 عرب اسلامی ممالک کے صدر ٹرمپ کے ساتھ اجلاس سے شروع ہوا۔ اس اہم گروپ کا حصہ ہونے کے ناطے پاکستان نے صدر ٹرمپ کی اس پہل اور ذاتی کاوشوں کا خیرمقدم کیا، نیز جنگ کے خاتمے، غزہ کی تعمیرِ نو، بے دخلی کی روک تھام، جامع امن کے فروغ اور مغربی کنارے کے الحاق کو روکنے سے متعلق تجاویز کی حمایت کی۔ ا
ان کا کہنا تھا کہ س تمام عرصے میں پاکستان نے تعمیری کردار ادا کیا ہے، جو فلسطینی عوام اور ان کے ناقابلِ تنسیخ حقوق کے لیے ہماری اصولی اور دیرینہ حمایت کا تسلسل ہے۔ لیکن اب بھی اسرائیلی فضائی حملوں میں شہریوں سمیت بچوں کے شہید اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
مستقل مندوب نے کہا کہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد سے تین سو سے زائد فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں یہ ایک کڑوی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے زبانی طور پر اعلان کردہ امن نے زمینی سطح پر ابھی تک مکمل تحفظ اور استحکام فراہم نہیں کیا۔ جانیں اب بھی ضائع ہو رہی ہیں، گھر اب بھی مسمار ہو رہے ہیں، اور خاندان اب بھی خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔
عاصم افتخار نے کہا کہ مغربی کنارہ بھی کسی لحاظ سے کم تباہ کن صورتحال کا شکار نہیں ہے۔ اسرائیلی آبادکاروں اور فوجی جارحیت میں بے مثال اضافہ ہوا ہے، اور اکتوبر وہ مہینہ ثابت ہوا جس میں 2006 میں اقوامِ متحدہ کی نگرانی کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ آبادکارانہ حملے ریکارڈ کیے گئے۔ ب
ندشوں، چھاپوں اور بڑھتے ہوئے خوف و ہراس کے ماحول میں پورے کے پورے دیہات بے گھر کر دیے گئے ہیں، خصوصاً شمالی مغربی کنارے میں۔ فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت دی جانی چاہیے، اور کمیونٹی کو مستقل خوف کے بغیر معمول کے مطابق چلنے کے قابل ہونا چاہیے۔
پاکستانی سفیر نے کا کہنا تھا کہ صدرِ محترم امن کی کوششوں میں حقیقی پیش رفت کیلیے چند اہم ترجیحات کو آگے بڑھانا ناگزیر ہے۔
اول، قرارداد 2803 پر نیک نیتی کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے، تاکہ شرم الشیخ سربراہ اجلاس سے پیدا ہونے والی رفتار برقرار رہے، خصوصاً فلسطینیوں کی قیادت میں اور ان کی ملکیت میں حکمرانی، تعمیرِ نو اور ادارہ جاتی صلاحیت کو آگے بڑھایا جائے۔
فلسطینی اتھارٹی کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے؛ امن فلسطینی عوام کو نظرانداز کر کے نہیں بنایا جا سکتا۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں قرارداد 2803 کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں مزید وضاحت سامنے آئے گی۔
عاصم افتخار نے کہا کہ میں ایک بار پھر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ اور دیگر عرب-اسلامی ممالک کے ساتھ پاکستان نے اس عمل میں شمولیت اس لیے اختیار کی کہ یہ فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے ایک واضح راستہ فراہم کرتا ہے۔
دوم، جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد یقینی بنایا جائے، اور کسی بھی یکطرفہ اقدام کے لیے زیرو ٹالرنس برقرار رکھی جائے تاکہ جنگ کا مستقل خاتمہ اور غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلا ممکن ہو سکے۔ ہم غزہ بھر میں اسرائیلی قابض افواج کے حملوں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
سوم، انسانی امداد تک بلا تعطل رسائی کی ضمانت دی جائے۔ سردیوں کے قریب آتے ہی غزہ کی تھکی ہوئی، بے گھر اور شدید زخمی و صدمہ زدہ آبادی کو مکمل تحفظ اور بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے۔
انسانی امداد میں رکاوٹ بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے اور اسے فوراً ختم ہونا چاہیے۔ • چہارم، غزہ کی بحالی اور تعمیرِ نو کا عمل بغیر کسی تاخیر کے شروع ہونا چاہیے۔
پنجم، کسی بھی حالت میں نہ الحاق کیا جائے اور نہ ہی جبراً بے دخلی ہو۔ غزہ کی جغرافیائی وحدت اور اس کا مغربی کنارے کے ساتھ تسلسل ایک قابلِ عمل، خودمختار اور آزاد ریاستِ فلسطین کے لیے ناگزیر ہے۔
ششم، اسرائیل کی غیر قانونی آبادکاری کے پھیلاؤ کو اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی آبادیاتی یا قانونی حیثیت تبدیل کرنے کی ہر کوشش کو فوراً روکا جائے—اس میں الحرام الشریف کی تاریخی حیثیت کو تبدیل کرنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔
ہفتم، بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں پر احتساب یقینی بنایا جائے۔ کیونکہ انصاف کے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں۔ • ہشتم، تشدد کے اس چکر کو توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیلی قبضہ تمام عرب علاقوں سے ختم ہو جن میں فلسطین، شام اور لبنان شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی اُفق ضروری ہے ایک ایسا معتبر، وقت کا پابند سیاسی عمل جو متعلقہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر مبنی ہو اور جس کا مقصد ایک خودمختار، آزاد اور جغرافیائی طور پر مربوط ریاستِ فلسطین کا قیام ہو، جو 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر قائم ہو اور القدس الشریف اس کا دارالحکومت ہو۔
دو ریاستی حل پر بین الاقوامی کانفرنس، اس کا نیویارک اعلامیہ اور امن منصوبہ ایک دوسرے کے تکمیلی ہیں اور انہیں ایک متحد، ہم آہنگ اور مشترکہ عمل کے ذریعے ان وعدوں کی تکمیل کو آگے بڑھانا چاہیے جن کا مقصد ایک مشترکہ اور حتمی ہدف بین الاقوامی قانونی جواز کے مطابق ریاستِ فلسطین کا قیام کو حقیقت بنانا ہے۔
پائیدار امن اور استحکام کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں یہ لازم ہے، اور ہمیں اس کوشش میں کامیابی کو یقینی بنانا ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جناب صدر پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی غیر متزلزل یکجہتی کا اعادہ کرتا ہے۔ ناقابلِ تصور مصائب کے باوجود ان کی ثابت قدمی عالمی برادری کی طرف سے اسی درجے کے عزم اور یقین کی متقاضی ہے۔
پاکستان کے سفیر عاصم افختار نے کہا کہ یہ یقینی طور پر ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ اب کیے گئے وعدوں کو ٹھوس عملی اقدامات میں بدلنا ہوگا۔ پاکستان عزت، انصاف، حقِ خود ارادیت، اور ایک آزاد ریاست کے قیام کی جدوجہد میں فلسطین کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔