اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اکتوبر 2025ء) تحریک لبیک پاکستان نے چند روز قبل بظاہر فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے احتجاج کا آغاز کیا تھا۔ تاہم حکومت کی جانب سے اس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ انتہا پسند گروہوں سے متعلق ریاستی پالیسی میں تبدیلی کی علامت ہے؟

تحریک لبیک پاکستان کا یہ مارچ دس اکتوبر کو لاہور سے شروع ہوا اور اس دوران ان کا اسلام آباد کے ریڈ زون میں امریکی سفارتخانے کے قریب پہنچنے کا منصوبہ تھا تاکہ اسرائیلی اقدامات کے خلاف مظاہرہ کیا جا سکے۔

حکومت کا مؤقف تھا کہ ایسے احتجاج کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان پہلے ہی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کر چکا ہے۔

تین دن بعد، جب مذہبی جماعت نے احتجاج ختم کرنے سے انکار کر دیا اور اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی جانب مارچ پر اصرار کیا، تو سیکیورٹی فورسز نے سخت کریک ڈاؤن شروع کیا۔

(جاری ہے)

سرکاری اطلاعات کے مطابق اس کریک ڈاؤن کے دوران تصادم میں کم از کم چار افراد، جن میں ایک پولیس افسر اور تین عام شہری شامل ہیں۔

رپورٹس کے مطابق مذہبی جماعت کے سربراہ سعد رضوی کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔

کیا حکومتی ایکشن درست فیصلہ ہے؟

مختلف سیکیورٹی تجزیہ کار اگرچہ اس بات سے متفق ہیں کہ انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی ضروری ہے، تاہم وہ حکام کے طرزِ عمل پر اختلاف رکھتے ہیں۔ کچھ کا ماننا ہے کہ اس وقت کارروائی کی ضرورت نہیں تھی اور معاملہ کسی اور طریقے سے حل کیا جا سکتا تھا، جبکہ دیگر کے مطابق یہ ایک نایاب موقع ہے جب ریاست نے مذہبی بنیادوں پر کیے جانے والے احتجاج کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔

سیکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے سے یہ مخصوص مذہبی گروہ ریاست اور ملک میں موجود اقلیتوں کے خلاف سرگرم ہو چکا تھا۔ ان کے مطابق، ''ٹی ایل پی ایک انتہا پسند جماعت ہے اور اس سے سختی سے نمٹا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ریاست نے واقعی فیصلہ کر لیا ہے کہ ایسے عناصر کی حمایت نہیں کرے گی، تو اسے اس مؤقف پر قائم رہنا چاہیے اور ماضی کی طرح انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا خیال دوبارہ نہیں لانا چاہیے۔

کچھ ماہرین اگرچہ اس بات سے متفق ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان ایک انتہا پسند جماعت ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ واحد گروہ نہیں جو ایسے رجحانات رکھتا ہے۔ پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو خود کو دوسروں کے عقائد پر سوال اٹھانے کا مجاز سمجھتے ہیں اور خود کو بہتر مسلمان قرار دیتے ہیں یہی ذہنیت عدم برداشت کو بڑھاوا دیتی ہے۔

معروف دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''کسی کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں کے عقائد پر سوال اٹھائے یا خود کو یہ سمجھ لے کہ وہی یہ طے کرنے کا مجاز ہے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔

ملک میں یہ رویہ ناقابلِ قبول ہے کہ انتہا پسند گروہ سب کی نیتوں پر شک کریں اور خود کو درست قرار دیں۔‘‘

تاہم ان کا کہنا تھا، ''نظریاتی جنگ کو نظریاتی بنیادوں پر ہی لڑنا ہوگا، یہی اس مسئلے کا طویل المدتی حل ہے۔ حکام کو اب کھل کر یہ بحث کرنی چاہیے کہ آخر کس بنیاد پر کوئی خود کو بہتر مسلمان سمجھ کر دوسروں پر برتری جتاتا ہے، اس سوچ پر کھلے عام بات اور بحث ہونی چاہیے۔

‘‘

کارروائی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں اسے ٹالا جا سکتا تھا کیونکہ پاکستان پہلے ہی کئی محاذوں پر مشکلات کا شکار ہے۔ حکومت چاہتی تو چند لوگوں کو پُرامن احتجاج کی اجازت دے کر معاملہ سنبھال سکتی تھی۔

تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ اگرچہ یہ فیصلہ کن کارروائی مذہبی گروہوں کے حوالے سے ریاستی پالیسی میں تبدیلی کی علامت ہے، مگر اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ آیا حکومت طویل المدت بنیادوں پر اپنے اس مؤقف پر قائم رہتی ہے یا نہیں۔

ٹی ایل پی کا دعوی

مذہبی جماعت کا دعویٰ ہے کہ اس کارروائی میں ان کے درجنوں کارکن مارے گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے، تاہم یہ معلومات آزاد ذرائع سے تصدیق شدہ نہیں ہیں۔ مریدکے کے مقامی رہائشیوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پولیس کا کریک ڈاؤن انتہائی سخت تھا اور انہوں نے مختلف مقامات پر کئی زخمیوں کو زمین پر پڑا دیکھا، تاہم ہلاکتوں کی درست تعداد معلوم نہیں ہو سکی۔

ایک مقامی شہری غیاث احمد نے بتایا، ''سکیورٹی فورسز نے ان لوگوں کو بھی گرفتار کر لیا جو ویڈیوز یا تصاویر بنانے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن جو مناظر ہم نے دیکھے وہ بہت ڈرانے والے تھے۔‘‘

اس وقت لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت بڑے شہروں میں سیکیورٹی ہائی الرٹ پر ہے۔ موٹرویز اور شاہراہیں کریک ڈاؤن کے بعد کھول دی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں مظاہرین منتشر ہو گئے، تاہم اسلام آباد میں سڑکیں جزوی طور پر کھلی ہیں اور مرکزی علاقوں میں اب بھی کنٹینرز لگے ہوئے ہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انتہا پسند اسلام آباد کریک ڈاؤن کے مطابق کے خلاف کا کہنا اور اس خود کو

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کی منفرد پالیسی

وفاقی وزیر سرمایہ کاری بورڈ نے کہا ہے کہ ریاستی ادارے نقصان میں ہیں اور پیپلز پارٹی کی پالیسی کے باعث نجکاری کا عمل آگے نہیں بڑھ رہا۔ پیپلز پارٹی نجکاری کے خلاف ہے اگر پی پی کو ناراض کیا جائے گا تو حکومت نہیں رہے گی۔

وفاقی وزیر کے اس بیان سے نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کی نجکاری میں رکاوٹ اور تاخیر کی وجوہات سامنے آگئی ہیں اور واضح ہو گیا ہے کہ موجودہ حکومت جس میں پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ پی پی موجودہ حکومت میں شامل نہیں ہے اور اس کی صرف حمایت کرتی ہے اور وہ حکومت کی نجکاری پالیسی کی بھی مخالف ہے اور اپنے منشور کے خلاف وہ مسلم لیگ (ن) کے کسی فیصلے کی کبھی حمایت نہیں کرے گی اور اپنی ہی پالیسی پر چلے گی اور وہ حکومت کا فیصلہ ماننے کی پابند نہیں ہے۔

 2008میں جب پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو ساتھ ملا کر اپنی حکومت بنائی تھی جس کے بعد صدارتی انتخاب جنرل پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد ہوا تھا، اس میں وزارت عظمیٰ کے ساتھ ملک کی صدارت بھی اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر (ن) لیگ نے اختلاف کیا تھا اور وہ دونوں بڑے عہدے پی پی کو دینے کی حامی نہیں تھی اور شاید یہ عہدہ خود لینا چاہتی تھی مگر ایم کیو ایم نے آصف زرداری کو بطور صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا جن کے مقابلے میں (ن) لیگ نے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا مگر آصف زرداری خود کو صدر مملکت منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے جس کے بعد انھوں نے میاں نواز شریف سے ججز بحالی کا جو معاہدہ کیا تھا، انھوں نے ججز کی بحالی سے انکار کر دیا تھا ۔

ججز بحالی نہ ہونے پر (ن) لیگ حکومت سے الگ ہوگئی تھی اور نواز شریف نے بحالی نہ ہونے پر تحریک کا اعلان کر کے لانگ مارچ شروع کر دیا تھا۔ کامیاب لانگ مارچ ابھی گجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ حالات کے باعث بعض قوتوں کو مداخلت کرنا پڑی اور وزیر اعظم گیلانی نے رات گئے ججز بحالی کا اعلان کیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں میاں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کیا تھا، اس پر عمل کرتے ہوئے پی پی حکومت سے شدید اختلاف کے باوجود پہلی بار پی پی حکومت کے خلاف تحریک نہیں چلائی تھی اور پی پی حکومت نے پہلی بار مدت پوری کی تھی۔

پنجاب میں شہباز حکومت تھی جو صدر زرداری نے گورنر راج لگا کر ختم بھی کی تھی مگر عدالت عالیہ نے (ن) لیگی حکومت بحال کر دی تھی۔

2013 میں پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد دھرنے کے موقع پر نواز شریف کی حکومت کا ساتھ دیا تھا جس سے جمہوریت مستحکم ہوئی اور (ن) لیگی حکومت نے بھی پہلی بار اپنی مقررہ مدت پوری کی تھی اور (ن) لیگ اور پی پی کے شدید مخالف بانی تحریک انصاف 2018 میں اقتدار میں لائے گئے مگر اپنی غلط پالیسی کے باعث وہ اپریل 2022 میں انھیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برطرف کر دیا تھاجو ملک میں پہلی آئینی برطرفی تھی۔ 2008 کے بعد سے باہمی سیاسی مخالفت کے باوجود پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے اپنے اختلافات کو انتہا تک نہیں پہنچایا مگر 2017 میں پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ضرور ختم کرائی تھی اور چیئرمین سینیٹ مسلم لیگ کا نہیں آنے دیا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری کی پالیسی کے باعث سندھ میں (ن) لیگ کو شدید نقصان بھی نواز شریف حکومت میں ہوا مگر دونوں پارٹیوں نے اپنی اپنی پالیسیوں پر عمل جاری رکھا اور باہمی اختلاف کو سیاسی دشمنی میں تبدیل نہیں ہونے دیا۔ آصف زرداری نے اپنی مفاہمانہ پالیسی کے تحت سندھ میں پیپلز پارٹی کو جو انتخابی کامیابی دلائی وہ نیا ریکارڈ ہے۔ بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی پیپلز پارٹی کو اتنی کامیابی نہیں ملی تھی جس کی وجہ سے سندھ میں 17 سال سے پی پی کی حکومت ہے۔

بھٹو حکومت میں ملک بھر میں ہزاروں چھوٹے بڑے نجی ادارے قومی تحویل میں لے کر قومی خزانے پر بوجھ بڑھایا گیا تھا جن میں جھوٹے چھوٹے چاول صاف کرنے کے کارخانے بھی شامل تھے جس سے بے حد کرپشن ہوئی تھی۔ پی پی کا موقف ہے کہ اس کے منشور میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنا شامل ہے جس کے تحت وہ اپنے لوگوں کو اندھا دھند نوازتی ہے جس سے ہر سرکاری ادارے میں مقررہ تعداد سے زیادہ لوگ ملازمت حاصل کر لیتے ہیں جس کی ایک واضح مثال سندھ کے بلدیاتی ادارے ہیں جہاں یوسی تک میں اضافی عملہ موجود ہے اور ان کا بجٹ تنخواہوں میں خرچ ہو جاتا ہے اور تعمیری کاموں کے لیے رقم نہیں بچتی تو ترقیاتی کام کہاں سے ہوں اس کی پی پی کبھی فکر نہیں کرتی وہ صرف روزگار دینے پر یقین رکھتی ہے جب کہ (ن) لیگ کی پالیسی پی پی سے یکسر مختلف ہے۔

بے نظیر کی شہادت کے بعد پی پی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا تھا جس کا بجٹ پی پی پی نے (ن) لیگی حکومت سے ہر بار بڑھوایا جب کہ اس پروگرام سے غریبوں کو کم اور سرکاری افسروں و ملازموں کو زیادہ فائدہ ہوا اور کرپٹ افسروں نے اپنی بیگمات تک کو اس پروگرام سے مالی فائدہ پہنچایا اور زبردست کرپشن ہوئی۔اسٹیل ملز سالوں سے بند ہے۔ پی آئی اے اور دیگر ریاستی اداروں میں بے انتہا فاضل عملے نے ان اداروں کو مالی طور پر تباہ کر دیا ہے۔

(ن) لیگی حکومت نقصان میں جانے والے ریاستی اداروں کی نجکاری چاہتی ہے جو پیپلز پارٹی نہیں ہونے دے رہی بلکہ دباؤ ڈال کر (ن) لیگی حکومت سے ایسے فیصلے کرا لیتی ہے جو اس کے منشور کے بھی خلاف ہے مگر مجبور ہے کیونکہ ماضی کے مقابلے میں (ن) لیگی حکومت پی پی کی حمایت سے قائم ہے جو پی پی کو ناراض کرنے کی متحمل نہیں ہو رہی اور اقتدار میں رہنے کے لیے پی پی کی مکمل محتاج ہے اور سیاسی و ذاتی مفاد کے لیے دونوں بڑی پارٹیوں کو قومی مفاد کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے ذاتی اور پارٹی کے سیاسی مفاد کو سب سے زیادہ ترجیح دیتی ہے اور اسی لیے نقصان میں جانے والے ریاستی اداروں کی نجکاری نہیں ہونے دے رہی جو قومی خزانے پر سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں مگر پی پی اپنے سیاسی مفاد کے لیے اپنی پالیسی پر چل رہی ہے اور اسے قومی نقصان کی کوئی فکر نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر میں کریک ڈاؤن
  • امیگریشن پالیسی سخت کرنے کیلئے سفارتکار حکومتی سطح پر دباؤ ڈالیں، امریکی وزیر خارجہ
  • پیپلز پارٹی کی منفرد پالیسی
  • میانوالی میں بھی تبدیلی آ گئی: وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز
  • زندگی میں شادی صرف ایک شریک حیات کے ساتھ ہونی چاہیے، پوپ لیو کا نیا فرمان جاری
  • عام شہریوں پر حملہ کرنا ہماری پالیسی نہیں،وزیر دفاع
  • اداروں میں تعاون کے بغیر نظام میں تبدیلی ممکن نہیں، اسپیکر قومی اسمبلی
  • محکمہ ایکسائز کا امپورٹڈ اور جعلی سگریٹس فروخت کرنے والوں کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن
  • حیدرآباد، رات 12 بجے کے بعد کھلے رہنے والے شادی ہالز کے خلاف کریک ڈاؤن، دو ہالز سیل
  • تبدیلی ٔ نظام اور عوام