کراچی کی بگڑتی صورتحال کی ذمہ دار پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہے، علامہ مبشر حسن
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
اپنے بیان میں رہنما ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ پیپلز پارٹی صوبائی سطح پر اور ایم کیو ایم شہری حکومتوں میں ہونے کے باوجود کارکردگی دکھانے میں مکمل ناکام رہیں، جس کا خمیازہ آج کراچی کے شہری بھگت رہے ہیں، شہر کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے شفاف حکمتِ عملی اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ مبشر حسن کا کہنا تھا کہ شہرِ قائد کی بگڑتی ہوئی صورتحال صفائی، ٹریفک کے مسائل، پانی کی کمی اور بدانتظامی کی ذمہ داری پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر عائد ہوتی ہے، دونوں جماعتوں نے دہائیوں تک اقتدار اور اختیارات رکھنے کے باوجود کراچی کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا اور یہ جماعتیں شہری مسائل کے حل میں یکسر ناکام ہیں اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ادا کر رہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے مگر اس کے باوجود شہری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، جس کے سبب عوام میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں ٹوٹی سڑکیں، کچرے کے ڈھیر، پانی و سیوریج کا شدید بحران، ٹرانسپورٹ کی تباہ حالی اور انتظامی ناکامی اس بات کا ثبوت ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں جماعتوں نے کراچی کو صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا مگر عوامی مسائل پر کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا، شہر کے گورنر و وزیراعلیٰ روبن ہُڈ بننے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب عوام کو جعلی میئر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جن کی کارکردگی علاقائی کونسلر کے برابر نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی صوبائی سطح پر اور ایم کیو ایم شہری حکومتوں میں ہونے کے باوجود کارکردگی دکھانے میں مکمل ناکام رہیں، جس کا خمیازہ آج کراچی کے شہری بھگت رہے ہیں، شہر کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے شفاف حکمتِ عملی اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، اگر یہی طرزِ حکمرانی جاری رہا تو شہر کے حالات مزید سنگین ہوجائیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اور ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے باوجود انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان آدھی مدت کے اقتدار کے معاہدے کی حقیقت کیا ہے؟
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ حکومت کی تشکیل کے وقت مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہاف ٹرم پر معاہدہ ہوا تھا، لیکن وہ خود اس مذاکرات کا حصہ نہیں تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ اس پر اتفاق ہوا ہے، جس میں وزیرِاعظم، اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین کی مدت نصف نصف طے کرنے کی بات ہوئی۔ حکومت میں شیئرنگ کے یہ اصول اب بھی لیڈرشپ کے درمیان برقرار ہیں اور یہ مکمل طور پر قیادت کا اندرونی معاملہ ہے، وزیراعظم اور اسپیکر کی مدت پر بھی ہاف ٹرم کے لیے اتفاق ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:ن لیگ اور پی پی میں آدھی آدھی مدت کے لیے حکومت کا فارمولا طے ہے، یوسف رضا گیلانی
وی نیوز نے مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا حکومت کی تشکیل کے وقت ایسا معاہدہ ہوا تھا اور کیا اب اس معاہدے پر عمل درآمد ہو سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمر زمان قائرہ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات کے نتیجے میں اتحادی حکومت کے قیام سے قبل مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا تھا جس کی کاپی دونوں جماعتوں سمیت میڈیا پر بھی موجود ہے اس معاہدے پر تحریری طور پر وزیراعظم کی تبدیلی یا ڈھائی ڈھائی سال کی ٹرم کی بات تحریری طور پر نہیں تھی البتہ یہ کیا کر رہی ہے جس وقت حکومت کو دیکھا کہ تشکیل ہو رہی تھی اس وقت یہ بات زیر بحث ضرور آئی تھی اور یہ تجویز بھی تھی کہ ڈھائی سال شہباز شریف اور ڈھائی سال وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں گے البتہ اس کو تحریری شکل نہیں دی گئی اور نہ ہی اس وقت اس تجویز پر کوئی خاص بحث یا غور جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ن لیگ اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے، صہیب بھرتھ کا ندیم افضل چن کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ
سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حکومت کی تشکیل کے وقت ایسا کوئی فارمولا طے پایا گیا تھا، اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ شہباز شریف کی جگہ بلاول وزیراعظم ہوں گے، تو کیا اس صورت میں آصف زرداری ہی صدر رہیں گے، بلوچستان کا وزیر اعلیٰ PPP کا ہی رہے گا، یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینٹ ہی رہیں گے؟ اگر ایسا فیصلہ ہوا تھا تو اس بارے میں پہلے بات کیوں نہیں ہوئی؟
ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ اتنا بڑا اہم معاہدے ہوا ہو اور ڈیڑھ سال کے عرصے کے بعد اس پر ایک رہنما نے گفتگو کی ہو جبکہ میڈیا یا سینیئر صحافیوں سے معاہدہ اتنا عرصے تک خفیہ رکھا گیا ہو۔
یہ بھی پڑھیں:پیپلز پارٹی قابلِ اعتماد اتحادی، سیاست مکالمے سے آگے بڑھتی ہے، عطا اللہ تارڑ
سینیئر تجزیہ کار احمد ولید نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بڑی بریکنگ خبر ہوگی کہ اگر دونوں پارٹیوں کے درمیان ہاف ٹرم مدت کا معاہدہ طے پایا تھا اب اگر یوسف رضا گیلانی کہہ رہی ہیں کہ ایسا معاہدہ ہوا تھا تو اب تک تو اس کی تیاریاں نظر آنا شروع ہو جاتی لیکن ابھی ایسا کوئی چانس نہیں لگ رہا، اب تو مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں بھی اتحادیوں کے ساتھ اور پیپلز پارٹی کے بغیر سادہ اکثریت حاصل ہو چکی ہے تو پیپلز پارٹی کے لیے اب اپنی بات منوانا کافی مشکل ہوگا۔
ان کے مطابق اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مانتے ہیں کہ ملک میں ہائبرڈ نظام چل رہا ہے اور ہائبرڈ نظام کے پیچھے جو طاقتیں ہیں ان کی بھی کوئی اس پاور شیئرنگ فارمولے پر رائے ہوگی جو کہ ابھی سامنے نہیں آرہی ہے، ابھی موجودہ حکومت ہے اس میں ایسا کچھ نظر نہیں آرہا کہ یہ حکومت جانے والی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معیشت بڑے مشکلوں سے سنبھلی ہے اور کچھ سرمایہ کاری بیرون ملک سے ائی ہے اگر اس وقت حکومت تبدیل ہو جاتی ہے تو سرمایہ داروں کا اعتماد بھی متاثر ہوگا تو اس لیے میرے خیال میں کوئی ایسی تبدیلی یا پاور شیرنگ والے فارمولے پر عمل نہیں ہونے والا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد ولید انصار عباسی پیپلز پارٹی قمر الزمان قائرہ مسلم لیگ ن