ہانیہ عامر پاکستان کیلئے اقوام متحدہ کی خیرسگالی سفیر مقرر
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
ویب ڈیسک : ہانیہ عامر کو بہترین اداکاری کے لیے جانا جاتا ہے تاہم اب انہیں پاکستان کی خواتین کے لیے عملی دنیا میں کردار ادا کرنے کا موقع دیا گیا ہے اور اقوام متحدہ نے انہیں پاکستان کے لیے خواتین کی خیرسگالی کی سفیر مقرر کردیا ہے۔
انسٹا گرام پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین پاکستان نے کہا کہ یواین ویمن پاکستان ہانیہ عامر کو بطور خیرسگالی سفیر خوش آمدید کہتا ہے۔ نامور اداکارہ ہانیہ عامر اپنا پلیٹ فارم پاکستان بھر کی خواتین اور لڑکیوں کی توانا آواز، آگاہی پھیلانے اور حوصلہ افزائی کے لیے استعمال کریں گی۔
مکہ مکرمہ میں تاریخی ’’کنگ سلمان گیٹ‘‘ منصوبے کا اعلان
بیان میں کہا گیا کہ ہم مل کر ایک ایسے مستقبل کے لیے کام کریں گے جہاں ہر خاتون اور لڑکی تشدد، امتیازی سلوک اور غیرمساویانہ رویوں سے آزاد ہو کراپنی بھرپور صلاحیتوں کا اظہار کرے۔
ہانیہ عامر یہ اعزاز حاصل کرنے والی دوسری پاکستانی ہیں، اس سے قبل 2015 میں منیبہ مزاری کو اقوام متحدہ خواتین کی خیرسگالی کی سفیر مقرر کیا گیا تھا جبکہ جنوبی ایشیا میں تیسری خاتون اور مجموعی طور پر چوتھی شخصیت ہے جہاں مبینہ مزاری کے علاوہ سابق بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا اور بالی ووڈ کے فلمساز اور اداکار فرحان اختر بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا ''فتنہ الخوارج''کے خلاف کامیاب آپریشن پر پاک فوج کو خراج تحسین
View this post on InstagramA post shared by UN Women Pakistan (@unwomenpakistan)
عالمی سطح پر خواتین کی خیرسگالی سفیروں میں ہالی ووڈ کی مشہور اداکارائیں ایماواٹسن، نیکول کڈمین اور اینی ہیتھوے کو یہ اعزاز دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے دیگر اداروں میں بھی پاکستان کے متعدد شخصیات کو خیرسگالی کا سفیر مقرر کیا گیا ہے، جس میں مشہور اداکار فواد خان اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام، شہزاد رائے کو اقوام متحدہ کے انسداد منشیات و جرائم کا خیرسگالی سفیر بنایا جاچکا ہے۔پاکستان کی اداکارہ ماہرہ خان اور صبا قمر بھی اس خیرسگالی سفرا کی فہرست میں شامل ہیں جنہیں بالترتیب اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین اور بچوں کا ادارہ یونیسیف کا سفیر مقرر کیا گیا تھا۔
قومی انسدادِ پولیو مہم تیسرے روز بھی کامیابی سے جاری
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کے خیرسگالی سفیر کی خیرسگالی ہانیہ عامر سفیر مقرر کے لیے
پڑھیں:
غزہ کی بابت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251201-03-5
(2)
مفتی منیب الرحمن
(8) اس قرارداد کے ذریعے مجلس ِ امن اور بین الاقوامی سول اور سلامتی کے اداروں کی بااختیار موجودگی 31 دسمبر 2027ء تک رہے گی، نیز مصر، اسرائیل اور رکن ممالک کے تعاون اور کونسل کی منظوری سے بین الاقوامی استحکام فورس کی مدت میں توسیع کی جا سکے گی۔ (9) یہ قرارداد تمام رکن ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ مجلس ِ امن کے ساتھ مل کر کام کریں اور اس امر کا تعیّن کریں کہ بین الاقوامی استحکام فورس اور دیگر تنظیموں کو اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے افرادی قوت، سازو سامان، تمام ذرائع اور مالی وسائل دستیاب ہوں اور انہیں فنی ماہرین کی اعانت بھی حاصل ہو، نیز ان کی دستاویزات کو مکمل منظوری حاصل ہو۔ (10) یہ قرارداد مجلس ِ امن سے درخواست کرتی ہے کہ ہر چھے ماہ بعد مندرجہ بالا امور پر پیش رفت کی رپورٹ سلامتی کونسل میں جمع کرتی رہے۔ (11) یہ قرارداد مندرجہ بالا امور کو باضابطہ کنٹرول کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔
یہ قرارداد امریکا کی پیش کردہ ہے اور اسرائیل کے حق میں ہے، اس میں اسرائیل کے مفادات کا پورا تحفظ کیا گیا ہے۔ پندرہ میں سے پاکستان سمیت تیرہ ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیا، چین اور روس نے اس کی مخالفت کی اور نہ اس کا حصہ بنے۔ اگر وہ مخالفت کرتے تو قرارداد ویٹو ہو جاتی۔ اقوام متحدہ میں روس کے سفیر نے وضاحت کی: ’’یہ قراداد واشنگٹن کے وعدوں کی بنیاد پر امریکی اقدام کی توثیق ہے اور غزہ پر مجلس ِ امن کو مکمل کنٹرول دیتی ہے، جبکہ اس کی ساخت، اراکین اور شرائط کے بارے میں کچھ نہیں معلوم، یہ دو ریاستی حل سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس میں فلسطینی انتظامیہ کو غزہ کا کنٹرول منتقل کرنے اور اسرائیلی افواج کے انخلا کے لیے واضح طور پر کسی وقت کا تعین نہیں ہے، اسے مبہم رکھا گیا ہے‘‘۔ چین نے بھی جنگ بندی کی حمایت کی، لیکن قرارداد کی یکطرفہ نوعیت پر تنقید کی، چین کے سفیر نے اس قراداد کو فلسطین کی خودمختاری اور ملکیت سے خالی قرار دیا اور کہا کہ اس میں فلسطینی آواز بہت کم سنائی دیتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل امریکا کے ہاتھوں یرغمال ہے، اس کی مرضی کے بغیر کوئی قرارداد منظور نہیں ہو سکتی حتیٰ کہ ماضی قریب میں امریکا جنگ بندی کی چھے قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے۔ جن ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیا، انہوں نے یہی سوچا ہو گا کہ کم از کم فلسطینیوں کی نسل کشی تو رک جائے گی، حالانکہ اس کے حملے تو وقتاً فوقتاً اب بھی جاری ہیں۔ اس قرارداد میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی، صرف قرارداد کی شق نمبر 2 میں فلسطینی ریاست کے لیے کمزور ترین الفاظ میں ایک لالی پاپ تھما دیا گیا ہے۔ وہ الفاظ یہ ہیں: ’’آخر کار فلسطینی خودمختاری اور ریاست کے قیام کے لیے حالات بااعتماد طریقے سے سازگار ہو جائیں گے‘‘۔ اس میں آزاد فلسطینی ریاست کی کوئی صریح ضمانت ہے اور نہ اس کے لیے کسی مدت کا تعین ہے۔ اس میں پاکستان کا ذکر نہیں ہے، بلکہ امریکا، قطر، سعودی عرب، مصر اور ترکیے کا ذکر ہے اور اس میں بڑا کردار اسرائیل اور مصر کو دیا گیا ہے، جبکہ مصر سمیت پڑوسی ممالک حماس کو ناپسند کرتے ہیں۔
اس قضیے کا اصل فریق حماس ہے، لیکن اُسے ادنیٰ درجے میں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا، بلکہ اُسے اشارتاً دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور اُسے غیر مسلّح کرنے کی شرط بھی اس قرارداد میں شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ حماس نے اس قرارداد کو ردّ کیا ہے۔ مزید یہ کہ اُسے بین الاقوامی استحکام فورس کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہوں گے اور یہ بہت بڑی قربانیوں کے باوجود حماس کی اہانت کے مترادف ہے۔ اس قرارداد کی شق 3 کی ذیلی شق 1 میں کہا گیا ہے: ’’عبوری حکومتی انتظامیہ کا قیام، جسے غزہ پٹی میں رہنے والے فلسطینی فنی ماہرین اور فلسطینیوں کی غیر سیاسی معاون اور نگراں باصلاحیت کمیٹی کا تعاون حاصل ہو، نیز اسے عرب لیگ کی بھی حمایت حاصل ہو، یہ غزہ کے روز مرہ انتظامی معاملات، سول سروس اور انتظامیہ کے امور کی نگرانی کرے گی‘‘۔ اس کی رو سے عبوری حکومتی انتظامیہ میں فلسطینی فنی ماہرین اور فلسطینیوں کی غیر سیاسی معاون اور قابل ِ اعتماد نگراں کمیٹی کا تعاون حاصل کرنے کی بات تو کی ہے، لیکن انہیں بھی مجلس ِ امن اور بین الاقوامی استحکام فورس کے تابع رہنا ہوگا۔ نیز اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ ISF میں کون سے ممالک شامل ہوں گے اور ان افواج کی قیادت کس کے پاس ہو گی، بلکہ شق 7 سے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ISF مصر اور اسرائیل کی مرضی سے کام کر سکے گی۔ اگرچہ اس قرارداد میں صراحتاً تو شامل نہیں ہے، لیکن ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ مجوّزہ مجلس ِ امن کے سربراہ ہوں گے۔ اس قرارداد میں آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کو اختیارات کی منتقلی کا کوئی معیّن وقت نہیں دیا گیا بلکہ سلامتی کونسل کی منظوری سے مجلس ِ امن کے کنٹرول میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
اسرائیل کا اس قرارداد کو تسلیم کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اس کے مفاد میں ہے اور وہ اس کی دفعات کی من پسند تشریح کرتا رہے گا۔ اس نے آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے تصور کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا، نیز کسی مرحلے پر فلسطینیوں کو اقتدار کی منتقلی کی مبہم سی بات توکی گئی ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ فلسطینیوں کی وہ مقتدرہ کس طرح وجود میں آئے گی جسے اقتدار منتقل کیا جا سکے گا، کیونکہ اس منصوبے میں بین الاقوامی نگرانی میں آزادانہ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ جس میں حماس کو بھی برابر کی سطح پر حصہ لینے کا حق حاصل ہو۔ اسی طرح وقف فنڈ کی بات تو کی گئی ہے اور امریکا نے اُس کی سربراہی کا حق اپنے ہاتھ میں رکھا ہے، لیکن بحالی کے فنڈ میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوئی بات کی ہے اور نہ عطیہ دہندگان کا کوئی اقرار نامہ شامل ہے۔ ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو متوجہ کرنے کی بات کی ہے، لیکن یہ عالمی مالیاتی ادارے آسان شرائط پر قرض فراہم کرتے ہیں اور اس کے لیے اس پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ ان کے قرض کی واپسی کی ضمانت کیا ہو گی۔ اس قرارداد میں ایسی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ بین الاقوامی فلاحی ادارے آزادانہ طور پر غزہ کی پٹی میں اپنا نیٹ ورک قائم کر کے اپنی نگرانی میں بحالی کا کام کر سکیں گے۔ اس سے پہلے بعض مسلم ممالک نے غزہ کی تعمیر میں حصہ لیا تھا اور وہاں پر اسپتال اور تعلیمی ادارے بنائے تھے اور دیگر شعبوں میں مدد فراہم کی تھی، اب بھی مسلم ممالک اور فلاحی تنظیمیں مدد فراہم کرنا چاہیں گے، لیکن ان ابہامات کے ہوتے ہوئے مسلم ممالک یا آزاد فلاحی تنظیمیں کھل کر مدد نہیں کر سکیں گے، کیونکہ کوئی بھی ملک یا فلاحی ادارہ اسرائیل کی شرائط پر اپنی امداد ان کے مقاصد کی تکمیل کے لیے فراہم نہیں کرے گا۔
اسرائیل نے غزہ کے سارے ڈھانچے کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسرائیل پر کم ازکم وقت میں اس کی بحالی کے مصارف ڈالے جاتے، کیونکہ ساری تباہی اسی کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ مزید ستم یہ ہے کہ تمام تر تباہی کا ذمے دار ہونے اور جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کے باوجود اس قرارداد میں اشارتاً بھی اس کو مجرم نہیں گردانا گیا، بلکہ اس کو ایک مظلوم کے طور پر پیش کیا گیا ہے جبکہ پچھتر ہزار شہدا اور ڈھائی لاکھ زخمیوں کی قربانی دینے والے فریق (حماس) کو اشارتاً دہشت گرد اور امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ امر غنیمت ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے معاہدۂ ابراہیمی میں شامل ہونے کے لیے فلسطینی ریاست کے قیام کو لازمی شرط قرار دیا ہے، لہٰذا وقتی طور پر انہوں نے اپنا دامن بچا لیا ہے۔ سعودی ولی عہد کے امریکا میں ہونے والے استقبال سے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکا نے اپنے بہت سے مفادات ان سے وابستہ کر رکھے ہیں۔