ٹرمپ کے مشیر جان بولٹن پر خفیہ معلومات اہلخانہ سے شیئر کرنے کا الزام، سرینڈر ہوگئے
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر اور ان کے سخت ناقد جان بولٹن نے خفیہ معلومات کے غلط استعمال کے الزامات پر جمعہ کی صبح خود کو حکام کے حوالے کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میر پیوٹن کا ٹیلیفونک رابطہ، ہنگری میں ملاقات پر اتفاق
جان بولٹن پر جمعرات کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ وہ حالیہ ہفتوں میں ٹرمپ کے 3 اہم ناقدین میں سے تیسرے شخص ہیں جن کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہے۔
بولٹن بغیر کوئی بات کیے گرین بیلٹ، میری لینڈ کی وفاقی عدالت پہنچے اور یو ایس مارشلز سروس کے دفتر میں داخل ہوئے۔ ان کی عدالتی پیشی اسی دن متوقع ہے۔
الزام کیا ہے؟فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ بولٹن نے خفیہ معلومات اپنے اہل خانہ مبینہ طور پر اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ شیئر کیں تاکہ وہ اپنے آئندہ آنے والے کتابی مسودے میں استعمال کی جا سکیں۔
ان معلومات میں انٹیلی جنس بریفنگز، اعلیٰ حکومتی حکام اور غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کے نوٹس شامل ہیں۔
بولٹن کا مؤقفبولٹن نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ میں اپنے قانونی طرز عمل کا دفاع کرنے اور ٹرمپ کے اختیارات کے غلط استعمال کو بے نقاب کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔
مزید پڑھیے: ’مودی ٹرمپ اور امریکا سے خوفزدہ ہیں ‘، راہول گاندھی کی بھارتی وزیرِاعظم پر تنقید
بولٹن کے وکیل ایبے لوئل کا کہنا ہے کہ بولٹن نے کوئی بھی معلومات غیر قانونی طور پر شیئر یا ذخیرہ نہیں کیں۔
ٹرمپ اور سیاسی دباؤصدر ٹرمپ پر یہ الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں کہ انہوں نے اٹارنی جنرل پام بانڈی پر دباؤ ڈال کر نہ صرف بولٹن بلکہ سابق ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز کومی اور نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز کے خلاف بھی کارروائی کی کوشش کی۔
قانونی تفصیلاتبولٹن پر ایسپیناج ایکٹ کے تحت8 الزامات قومی دفاعی معلومات کو منتقل کرنے کے10 الزامات ان معلومات کو محفوظ رکھنے کے عائد کیے گئے ہیں اور ہر الزام پر زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ تاہم سزا کا تعین عدالت کے فیصلے اور دیگر عوامل پر منحصر ہوگا۔
یاد رہے کہ جان بولٹن نے ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں بطور قومی سلامتی کے مشیر خدمات انجام دیں لیکن بعد میں وہ ٹرمپ کے سخت ناقد بن گئے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کے وعدے پر شکر گزار ہیں کہ وہ انسانی المیے کو روکنے کے لیے مؤثر اقدام کریں گے، وزیراعظم شہباز شریف
علاوہ ازیں اپنی کتاب میں انہوں نے ٹرمپ کو صدر کے عہدے کے لیے ناموزوں قرار دیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ٹرمپ کے مشیر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ٹرمپ کے مشیر جان بولٹن بولٹن نے ٹرمپ کے کے مشیر کے لیے
پڑھیں:
ایف بی آئی کے الزامات مسترد، ایرانی سفیر نے فیصلے کو حقائق کے منافی قرار دے دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایرانی سفیر رضا امیر مقدم نے ڈائریکٹر ایف بی آئی کی جانب سے ان کا نام انتہائی مطلوب لسٹ میں ڈالنے کے فیصلے کو حقائق کے منافی قرار دیا اور لگائے گئے الزامات کو مسترد کر دیا۔
نجی نیوز چینل کے مطابق ایک انٹرویو میں ایرانی سفیر رضا امیر مقدم سے نمائندے نے سوال کیا کہ ہم نے ایک بڑی پیش رفت دیکھی کہ ایف بی آئی نے آپ کے نام کے حوالے سے ایک فیصلہ جاری کیا اور اس پر پاکستان نے جو ردعمل دیا، اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
ایرانی سفیر نے جواب دیا کہ ’پاکستان نے اس حوالے سے ایک اچھا اور مضبوط مؤقف اختیار کیا جس پر ہم پاکستانی حکومت اور وزارت خارجہ کے بیان پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘۔
رضا امیر مقدم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ امریکا کی یہ عادت ہے اور ایران میں ہزاروں افراد کے خلاف اس طرح (انتہائی مطلوب) کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اور یہ ایف بی آئی کی جانب سے محض ایک الزام ہے۔
ایک پوچھے گئے سوال کہ ’کیا ایف بی آئی کے الزام سے آپ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے‘؟
ایرانی سفیر نے جواب دیا کہ ایف بی آئی کی جانب سے جس پر الزام لگایا جاتا ہے اس کے بعد جس کے خلاف الزام لگایا جاتا ہے وہ زیادہ مشہور ہوجاتا ہے لیکن اس کی حیثیت خراب نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ 16 جولائی 2025 کو امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم کو اپنی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
ایف بی آئی نے ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ 2007 میں ریٹائرڈ ایف بی آئی ایجنٹ رابرٹ اے باب لیونسن کے اغوا میں ملوث تھے، باب لیونسن ایران کے جزیرہ کِش سے لاپتا ہوگئے تھے۔
رضا امیری مقدم، جنہیں احمد امیرینیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ماضی میں ایران کی وزارتِ انٹیلی جنس و سلامتی (ایم او آئی ایس) کے آپریشنز یونٹ کے سربراہ رہ چکے ہیں، اور اس دوران انہوں نے یورپ بھر میں کام کرنے والے ایجنٹوں کی نگرانی کی، وہ اب اسلام آباد میں ایران کے اعلیٰ سفارتی نمائندے کے طور پر تعینات ہیں۔