سرینگر میں حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ ریاستی حیثیت کی بحالی کے بعد کشمیریوں کو درپیش تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر زور دیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کا اپنا وعدہ پورا کریں۔ ذرائع کے مطابق عمر عبداللہ نے سرینگر میں حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کو امید تھی کہ ان کی حکومت کے پہلے سال میں ہی مودی حکومت ریاستی حیثیت کی بحالی کا کا اپنا وعدہ پورا کرے گی تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ ریاستی حیثیت کی بحالی کے بعد کشمیریوں کو درپیش تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ پر زور دیا کہ وہ اس سلسلے میں بھارتی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں کشمیری عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کریں۔ عمر عبداللہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے پہلے ہی اسمبلی اجلاس میں منظور کردہ ایک قرارداد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ کشمیریوں کا بنیادی مطالبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے بارہا کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت "مناسب وقت” پر بحال کی جائے گا، تاہم اس سلسلے میں کوئی ٹائم لائن مقرر نہیں کی گئی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کشمیر کی ریاستی حیثیت عمر عبداللہ انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

کش حیثیت  میں گورنر  راج کی بات ہوئی  : اسد قیصر  یہ مارشل  لانہیں  آئین  میں ہے  اعظم  تارڑ  قومی  اسمبلی  میں گرماگرمی

اسلام آباد (خبر نگار+ خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) اپوزیشن رہنما اسد قیصر نے قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا ہے کہ احتجاج کا پارلیمانی روایات ہیں جب میں سپیکر تھا تو نوید قمر ڈائس کے قریب آئے تھے۔ ہم نے بہت برداشت کیا ہے آپ کا معترف ہوں، محمود اچکزئی نے ہمیشہ آئین و قانون کی بات کی ہے۔ محمود اچکزئی کے جمہوریت اور آئین کیلئے کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ بیرسٹر عقیل نے کہا خیبر پی کے میں گورنر راج کا سوچا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کسی کیپسٹی (حیثیت) میں یہ بات کی؟ خیبر پی کے کو این ایف سی کا شیئر نہیں دیا جا رہا، ہم نے قومی جرگہ کیا ساری جماعتیں شریک ہوئیں، اس قومی جرگے میں متفقہ قرارداد پاس ہوئی، بتائیں ایک شق پر بھی عمل کیا جا رہا ہے؟ بیرسٹر گوہر نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے کہا ضمانت دیتے ہیں پارلیمنٹ پر حملہ آور نہیں ہونگے۔ بیرسٹر گوہر نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پی کے میں مجھے گورنر راج لگتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ خیبر پی کے گورنر راج کا متحمل نہیں ہو سکتا، کوشش کریں گے خیبر پی کے میں دہشتگردی کا خاتمہ ہو، وزیراعلیٰ خیبر پی کے کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا وقت دیا جانا چاہئے۔ گورنر راج نہیں لگے گا، گورنر راج  نہیں لگے گا، صوبہ آئین اور قانون کے مطابق چلے گا۔ بانی پی ٹی آئی سے ملااقات کو ایک ماہ گزر گیا،ملاقات بہت ضروری ہے، ایوان میں سپیکر نے کہا گوہر صاحب میرے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں۔ محمود اچکزئی ہمارے اپوزیشن لیڈر ہیں۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ تاریخ نے ثابت کر دیا کہ پی ٹی آئی کا حکومت چھوڑنے کا فیصلہ غلط تھا ، اگر وہ ایوانوں میں ہوتے تو شائد یہ حالات نہ ہوتے۔ وہ  قومی اسمبلی میں اظہار خیال کر رہے تھے۔ وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پارلیمان کی عزت، تکریم اور حرمت سب کو عزیز ہے، کہا گیا کہ ہمیں دیوار کے ساتھ مت لگائیں ۔ پی ٹی آئی نے سپیس خود چھوڑی، عوام کا خیر خواہ بننے کی بجائے اقتدار کو ترجیح دی۔ انہوں نے کہا کہ جوغلطیاں جس طرف سے ہوئیں تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرتی۔ انہوں نے وزیراعظم کی بات دوہرائی کہ  پاکستان رہے گا تو ہم سب رہیں گے اور بانی پی ٹی آئی بھی سیاست کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک لے جایا گیا، بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا، اجتجاج ہوا لیکن کسی دائرے میں رہتے ہوئے ہوا۔ محمد نواز شریف کو دو مرتبہ نااہل کیا گیا لیکن ہم نے حملے نہیں کیے۔ گورنر راج کوئی مارشل لاء کی شکل نہیں بلکہ آئین  میں دیا گیا ہے، آئین کے آرٹیکل 232-234 تک حالات ہوتے ہیں تو گورنر راج آئینی   عمل ہو گا، غیر آئینی عمل یہ ہے کہ پولیس کے گاڑیاں، فائر بریگیڈ کی گاڑیاں، سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے وفاق پر حملہ کرنا غیر آئینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیلیں ہم نے بھی کاٹی ہیں، ہماری قیادت کی بے توقیری کی گئی۔ ہسپتالوں سے گرفتاریاں ہوئیں لیکن اس طرح نہیں کیا گیا جو اب ہو رہا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ضروری سمجھتے ہیں کہ گزشتہ روز ایک رکنِ اسمبلی کی جانب سے دئیے گئے کچھ غیر ذمہ دارانہ بیانات کا تذکرہ ایوان کے سامنے رکھا جائے، سپیکر نے کہا کہ سب سے پہلے، مذکورہ رکن نے ایوان کے اندر آکر اپوزیشن لابی میں یہ اعلان کیا کہ وہ ایوان کی کارروائی میں مداخلت کرنے کے لیے چیئر تک جائیں گے۔ سپیکر نے نشاندہی کی کہ کل پھر اسی رکن نے ایک اور غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز بیان دیا کہ وہ عوام کو استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور سینٹ کی کارروائی روکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2014 ء میں بھی ہم نے ایسے حالات کا سامنا کیا تھا اور اس وقت بھی پارلیمنٹ نے آئین اور جمہوریت کے تحفظ  کے لیے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ آج بھی ہم پوری طرح تیار ہیں کہ ایسی کسی بھی کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، بطور کسٹوڈین آف دی ہائوس پارلیمنٹ کا تحفظ کرنا ان کی آئینی ذمہ داری ہے اور ایوان و ریاست کے خلاف بیانات نہ صرف انتہائی نامناسب ہیں بلکہ جمہوری عمل کو کمزور کرنے کی کوشش ہیں۔ انہوں نے کہا ایسی سوچ اور بیانات کو ہمیں سب نے مل کر روکنا ہے تاکہ پارلیمنٹ کی بالادستی، آئینی نظام اور جمہوری روایات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں رکنِ قومی اسمبلی بیرسٹر گوہر علی خان کی تقریر پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ تمام  ارکانِ پارلیمنٹ بخوبی جانتے ہیں کہ میرے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ میں جتنی کوشش کرتا ہوں، وہ سب کے سامنے ہے اور کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم، وزیرِ قانون اور میں متعدد بار واضح کر چکے ہیں کہ معاملات مذاکرات سے ہی حل ہوں گے۔ محاذ آرائی سے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان عوام کا گھر ہے اور اس کے وقار کا ہر حال میں تحفظ کیا جائے گا۔ سردار ایاز صادق نے مزید کہا کہ میں نے اس روز آپ کے قائد کو مذاکرات کی پیشکش کی، مگر انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور افغانستان سے بات کریں، آپ سے بات نہیں کرنی۔ اس کے باوجود میں نے آپ کو مائیک دیا، آپ نے خود کہا کہ ہم بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے آپ کو اپنے چیمبر مدعو کیا، کیا میرا کردار منفی تھا میں نے تو حکومت کو بھی آپ کے سامنے بٹھایا تاکہ بات چیت کا تسلسل قائم رہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سیاسی مکالمے کا گھر ہے جہاں ہر اختلاف قانون و آئین کے اندر رہتے ہوئے حل ہوتا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اپوزیشن اراکین کی جانب سے اظہار خیال پر ردعمل میں ماضی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2014 ء میں جب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری تھا تو مجھے ایک چٹ موصول ہوئی تھی جس میں تنبیہ کی گئی تھی کہ اگر ارکان ایوان سے باہر نہ گئے تو کزن برادر حملہ آور اندر آ کر خدانخواستہ جانی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ میں اس وقت بھی اسی کرسی پر بیٹھا تھا اور ہم سب نے اجتماعی طور پر فیصلہ کیا تھا کہ ہم ایوان سے نہیں جائیں گے۔ 

متعلقہ مضامین

  • ہیلتھ کارڈ کا اجرا، طلبہ یونین کی بحالی، آزاد کشمیر کابینہ نے اہم فیصلوں کی منظوری دے دی
  • اپوزیشن پارٹیوں کا مودی حکومت کے خلاف دوسرے دن بھی زبردست احتجاج
  • مقبوضہ کشمیر ، جے کے ایل ایف لیڈر سمیت 2 کشمیری گرفتار
  • آئی جی بی ایس ایف کی بریفنگ کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی کی پردہ پوشی ہے
  • کش حیثیت  میں گورنر  راج کی بات ہوئی  : اسد قیصر  یہ مارشل  لانہیں  آئین  میں ہے  اعظم  تارڑ  قومی  اسمبلی  میں گرماگرمی
  • عمر عبداللہ کی حکموت ناکام ہوچکی ہے انہیں مستعفی ہونا ہی بہتر ہے، سید رفیق شاہ
  • مقبوضہ کشمیر میں این آئی اے کے چھاپے، تلاشی کی کارروائیاں
  • مقبوضہ کشمیر میں مساجد اور مدارس کے خلاف کارروائیاں تیز، مذہبی آزادی کو خطرہ لاحق
  • وادی کشمیر میں انہدامی کارروائی انسانیت کے بحران کا پیش خیمہ ہے، پی ڈی پی
  • مقبوضہ کشمیر سے مسلم تشخص کا خاتمہ