پی ایچ ایف کے خود ساختہ عہدیداروں کو گھر جانا ہوگا، شہلا رضا
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
کراچی:
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن قومی اسمبلی شہلا رضا نے کہا ہے کہ 22 اکتوبر کو وفاقی وزارت بین الصوبائی رابطہ کے اجلاس میں قومی ہاکی کے حوالے سے اہم فیصلہ متوقع ہے، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے نئے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل اہم موڑ ہے اور خوساختہ عہدیداروں کو گھر جانا ہوگا۔
کے ایچ اے اسپورٹس کمپلیکس پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی اسپیشل کمیٹی کی رکن شہلا رضا نے کہا کہ پی ایچ ایف کے حوالے سے ہمارے تمام اعتراضات قبول کر لیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ایچ ایف کے خود ساختہ عہدیداروں کو واپس گھروں کو جانا ہوگا۔
قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ہمارے مؤقف کو تسلیم کر لیا ہے، خود کو فیڈریشن کا صدر کہلوانے والے طارق بگٹی نامزد امیدوار تھے لیکن انہوں نے انتخابات کرانے کی ذمہ داری سے انحراف کرتے ہوئے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور مدت مکمل ہو جانے کے باوجود خود کو غیر قانونی طور پر منتخب کرایا۔
انہوں نے کہا کہ پی ایچ ایف کے حوالے سے پی ایس بی بہت شش و پنج میں تھا، قومی اسمبلی کی جانب سے قائم کردہ اسپیشل کمیٹی میں تمام اعتراضات کو قبول کرلیا گیا ہے، 22 اکتوبر کو وزارت بین الصوبائی کے اجلاس میں ہاکی کے حوالے سے اہم فیصلہ سامنے آنے کی توقع ہے۔
شہلا رضا نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فیڈریشن کو دیے جانے والے 13 کروڑ روپے اور اس سے پہلے ادا کیے جانے والے ڈیڑھ ارب روپے کی رقم کا حساب حاصل کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قومی اسمبلی کے حوالے سے شہلا رضا نے کہا
پڑھیں:
حسینہ واجد کے انتقام کا نشانہ بننے والے افسران کو فراہمی انصاف کا فیصلہ
بنگلادیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت سابقہ انتظامیہ کے دور میں امتیازی سلوک، زیادتی اور ناانصافی کا شکار ہونے والے فوج، نیوی اور فضائیہ کے افسران کے ساتھ انصاف کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ افسران دیگر محروم سرکاری ملازمین کی طرح انصاف کے مستحق ہیں اور ان کے حقوق بحال کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:شیخ حسینہ واجد کی حوالگی، بھارت نے بنگلہ دیش کی درخواست پر غور شروع کردیا
یہ بیان اس موقع پر دیا گیا جب ایک کمیٹی نے ریٹائر اور برطرف افسران کی شکایات پر مشتمل رپورٹ پیش کی، جو 2009 سے 4 اگست 2024 تک خدمات انجام دے چکے تھے۔
ان شکایات میں امتیازی سلوک، غلط برطرفی، اور سیاسی بنیادوں پر کارروائی کے الزامات شامل تھے۔ پروفیسر یونس نے کہا کہ جب میں نے آپ کو یہ کام سونپا تھا، تو مجھے لگا کہ چند معمولی خلاف ورزیاں سامنے آئیں گی، لیکن جو تفصیلی جائزہ آپ نے پیش کیا، وہ واقعی تشویشناک ہے اور ہماری توقع سے کہیں زیادہ ہے۔
کمیٹی کی تشکیل اور کام
کمیٹی کی قیادت ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالحفیظ نے کی، جو چیف ایڈوائزر کے خصوصی معاون برائے دفاع اور قومی ہم آہنگی ہیں۔ دیگر ارکان میں میجر جنرل (ریٹائرڈ) محمد شمس الحق، میجر جنرل (ریٹائرڈ) شیخ پاشا حبیب الدین، ریئر ایڈمرل (ریٹائرڈ) محمد شفیع الاسلام اور ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) محمد شفقات علی شامل تھے۔
کمیٹی کو مجموعی طور پر 733 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 145 کیسز کی سفارشات کے لیے اہل قرار دی گئیں۔ کمیٹی نے سرکاری ریکارڈ، درخواست دہندگان کی فراہم کردہ اضافی معلومات اور افسران کے ساتھ براہِ راست انٹرویوز کی بنیاد پر سفارشات تیار کیں۔ بعض صورتوں میں سابقہ کمانڈروں اور اعلیٰ افسران سے بھی رابطہ کیا گیا تاکہ زیادتی کے الزامات کی تصدیق کی جا سکے۔
سنگین نتائج
تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ چھ افسران کو ان کے اہل خانہ کی سیاسی وابستگی یا مشتبہ انتہا پسند روابط کی بنیاد پر ایک سے آٹھ سال تک غیر قانونی طور پر قید کیا گیا۔ ایک ریٹائرڈ افسر کو غلط طور پر انتہا پسند قرار دینے کے بعد قتل کیا گیا، اور اس کی بیوی اور ایک سالہ بچہ بغیر مقدمے کے چھ سال تک قید میں رہے۔
یہ بھی پڑھیں:حسینہ واجد کے بینک لاکرز سے برآمد ہونے والا 10 کلو سونا ضبط
کئی افسران جنہوں نے 2009 کے بی ڈی آر بغاوت کے دوران حکومت کی خاموشی پر تنقید کی، کو نشانہ بنایا گیا، جن میں 5 کو فرضی مقدمے میں تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ 5 افسران کو 1/11 کی عبوری حکومت کے دوران ڈی جی ایف آئی میں خدمات کے دوران بغیر الزامات یا جھوٹے الزامات پر برطرف کیا گیا۔ 4 جونیئر افسران (لیفٹیننٹ) کو مذہبی اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کی وجہ سے برطرف کیا گیا، جسے غلط طور پر کسی گروپ یا انتہا پسند نظریے سے وابستگی قرار دیا گیا۔
کمیٹی کی سفارشات
کمیٹی نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں جو سفارشات پیش کیں، ان کے مطابق بری فوج کے 114 افسران کے لیے مختلف نوعیت کے ریلیف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، جن میں ریٹائرمنٹ فوائد کی بحالی، سروس اور پری ریٹائرمنٹ پروموشنز، مالی بقایا جات کی ادائیگی اور جہاں ممکن ہو چار افسران کی سروس میں بحالی شامل ہے۔
اسی طرح بنگلہ دیش نیوی کے 19 اور فضائیہ کے 12 افسران کے لیے بھی ریلیف کی سفارش کی گئی ہے، جن میں ریٹائرمنٹ فوائد، ترقیوں کی بحالی اور مالی واجبات کی ادائیگی شامل ہیں۔
کمیٹی کے اجلاس میں محمد اشرف الدین اور چیف ایڈوائزر کے ملٹری سیکریٹری میجر جنرل ابول حسن محمد طارق بھی موجود تھے۔ یہ اقدام سابقہ حکومت کے دور میں مسلح افواج کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی تحقیقات اور متاثرہ افسران کو انصاف فراہم کرنے کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بنگلہ دیش بنگلہ دیش آرمی بنگلہ دیش فضائیہ بنگلہ دیش نیوی حسینہ واجد ڈاکٹریونس