Express News:
2025-10-18@22:38:54 GMT

پاک افغان سرحدی تنازعہ اور ڈیورنڈ لائن

اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT

پاکستان افغانستان کے سرحدی تنازعے کی کڑیاں قیام پاکستان سے پہلے برطانوی راج تک جاتی ہے۔ صدیوں سے طالع آزما وسطی ایشیا سے افغانستان کے راستے ہندوستان پر حملہ کرتے رہے ہیں اور ہندوستانیوں کی مانگ میں سیندور بھرتے رہے ہیں۔

جب ہندوستان پر برطانوی راج نے قبضہ کر لیا تو برطانیہ کو کمیونزم سے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ پھیلتے پھیلتے ہندوستان تک نہ پہنچ جائے اور ہندوستان کی آزادی کا باعث نہ بن جائے۔ چونکہ یہ خطرہ براستہ افغانستان آسکتا تھا، اس لیے برطانیہ نے افغانستان پر حملہ 1839میں روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے کیا تھا تاکہ افغانستان میں روسی اثر و رسوخ کو محدود کیا جاسکے۔

یہ حملہ برطانوی سلطنت اور روسی سلطنت کے درمیان وسطی ایشیا پر کنٹرول کے لیے جاری رہنے والی کشمکش کا حصہ تھا، جسے ’’دی گریٹ گیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس کے بعد دوسری انگریز افغان جنگ سلطنت برطانیہ اور افغانستان کے مابین 1878 تا 1880 تک لڑی گئی جب مملکت بارکزئی کے حکمران شیر علی خان کی افغانستان میں حکمرانی تھی۔ برطانیہ اور افغانستان میں تیسری جنگ 1919 میں لڑی گئی تھی، جو افغانستان کی مکمل آزادی پر منتج ہوئی۔

اس کالم میں ہم دوسری جنگ کے بعد نومبر 1893 میں دونوں حکومتوں کے مابین ہونے والے معاہدے کو زیر بحث لائیں گے کہ جس کو دنیا ڈیورنڈ لائن یا خط ڈیورنڈ کے نام سے یاد کرتی ہے۔

ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ اس وقت ہوا جب افغانستان کے امیر عبدالرحمن کے بیٹے حبیب اللہ خان نے اسمارکے طہماش خان کی بیٹی کے ساتھ منگنی کر لی اور اس دوران رخصتی کے نام پر امیر عبد الرحمن کے وفاداروں نے جون 1892 میں اسمار کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔

تاریخی شواہد کے مطابق اسمار اس وقت باجوڑ ضلع کا علاقہ تھا۔ بعد میں مورٹمیر ڈیورنڈ نے یہ علاقہ افغانستان کے حوالے کر دیا۔

اس طرح افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان معاہدہ ڈیورنڈ پر دستخط کرنے کے لیے راستہ ہموار ہو گیا۔ یوں نومبر 1893میں دونوں حکومتوں کے مابین مستقل معاہدہ ہوا اور سرحد کا تعین کر دیا گیا جو ڈیورنڈ لائن یا خط ڈیورنڈ کے نام سے موسوم ہے۔

اس کے مطابق واخان کافرستان کا کچھ حصہ نورستان، اسمار، موہ مند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ حصہ افغانستان قرار پایا اور استانیہ، چمن، نوچغائی، بقیہ وزیرستان، بلند خیل، کرم، باجوڑ، سوات، بنیر، دیر، چلاس اور چترال پر افغانستان اپنے دعوے سے معاہدے کے مطابق دستبردار ہوگیا۔

14 اگست 1947کو پاکستان ایک طویل آزادی کی جنگ کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا، چونکہ پاکستان کو آزادی برطانیہ سے ملی اس لیے حکومت پاکستان نے خود کو اس معاہدے کا جائز وارث سمجھتے ہوئے اس کو برقرار رکھا جب کہ افغانستان نے 1947میں ہی اس معاہدے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اور یوں 30 ستمبر 1947کو افغانستان دنیا کا واحد ملک بنا کہ جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

1947 میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور سمندر تک جانے کے لیے ایک ایسی راہداری دینے کا مطالبہ کیا کہ جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہوں بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔ قائداعظم نے اس احمقانہ مطالبے کا جواب تک دینا پسند نہیں کیا۔

اس دوران کئی بار دونوں ممالک کے مابین جھڑپیں بھی ہوئی لیکن کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ افغانستان کا دعویٰ غیر حقیقی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں۔

اس دوران ایک موقعہ ایسا آیا تھا کہ جب سردار داؤد خان افغانستان کے حکمران تھے اور وہ مذہبی شدت پسندوں کی عسکری کارروائیوں سے تنگ آکر 1976 میں پاکستان کے دورے پر آئے تھے اور بھٹو کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کر دی تھی لیکن اس معاہدے میں بھٹوکو اپنا کچھ معمولی سیاسی نقصان نظر آیا اور یوں یہ معاہدہ نہ ہو سکا۔

پاکستان دشمن قوتیں افغانستان کو بھڑکانے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہیں تاکہ ایک دفعہ پھر ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ کیا جاسکے اور ایک متحدہ پختونستان کے لیے کوشش کی جاسکے۔ اسی وجہ سے ایک دفعہ پھر افغانستان اور پاکستان کے درمیان شدید قسم کی جھڑپیں ہو رہی ہیں لیکن اس دفعہ پاکستان نے یہ سخت موقف اختیارکیا ہے کہ افغان سر زمین سے پاکستان کے اندرکسی بھی قسم کی تخریبی کارروائی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

ہم نے اس کالم میں اختصار کے ساتھ پاک افغان سرحدی معاملات پر روشنی ڈالی ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان ہندوستان کے کشیدہ تعلقات کی روشنی میں ہندوستان یقیناً اس تنازعے کو ہوا دینا چاہے گا اور وقت ضرورت ہماری مغربی سرحد میں جنگ کی چنگاری بھڑکا کر اس کو اپنے فائدے میں استعمال کرنا چاہے گا۔

ابھی کچھ دن پہلے ماسکو میں ہونے والی کانفرنس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کی جائے گی کہ جس سے خطے کے امن و امان کا خطرہ لاحق ہوں۔ کانفرنس میں نام تو نہیں لیا گیا تھا مگر اشارہ امریکا کی جانب تھا۔

اس کے بعد افغان عبوری وزیر خارجہ ہندوستان کے دورے پرگئے اور وہاں سے جو اطلاعات آرہی ہے، ان کو صرف اور صرف شرانگیز ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان چاہتا ہے کہ جب بھی وہ کسی جنگی کارروائی کا آغاز کرے تو پاکستان کی فوج کو ایک سے زائد محاذ پر لڑنے پر مجبور کیا جائے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکے اور اس کے لیے افغانوں سے بہتر احسان فراموش قوم کوئی اور ہو نہیں سکتی۔

کہتے ہیں کہ وقت پڑنے پرگدھے کو بھی باپ بنایا جا سکتا ہے۔ ہندو ویسے بھی گائے کو ماتا مانتے ہیں اور افغانوں کے ذریعے گدھے کو باپ بنا کر انھوں نے جوڑی مکمل کر دی ہے۔

پاکستانی فوج اچھا کر رہی ہے کہ ایک دفعہ ہی افغانوں کو سبق سکھا دے تاکہ مستقبل میں ان کو کسی کارروائی کی ہمت نہ ہوں۔ ہندوستان بہت کائیاں ہے اور ہمیں بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔

اس وقت افغانستان بار بار جنگ بندی کی درخواست کر رہا ہے، اگر ہو سکے تو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ہمیں ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ بھی مستقل طور پر حل کر لینا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان کے افغانستان ا ڈیورنڈ لائن کے مابین کہ افغان کے لیے

پڑھیں:

بلاول ہاؤس لاہور سے سیکورٹی ہٹانے کا تنازعہ کیا ہے؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان اتحادی تنازعات مزید گہرے ہو گئے ہیں، جہاں پنجاب حکومت پر بلاول ہاؤس بحریہ ٹاؤن لاہور سے پولیس سیکیورٹی واپس لینے کا الزام لگایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بلاول ہاؤس سیکیورٹی تنازع: محافظ جیالوں کو اسلحہ لائسنس فراہم کیا جائے، رانا ثناءاللہ

ذرائع کے مطابق صوبائی حکام کی مشاورت کے بعد تمام پولیس اہلکاروں کو واپس بلا لیا گیا، جو پچھلے دو دنوں سے غائب ہیں۔ یہ اقدام اتحادیوں کے درمیان صوبائی حقوق، سیلاب امداد کی تقسیم اور پاور شیئرنگ جیسے مسائل پر جاری جھگڑوں کی وجہ سے سیاسی انتقام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

گیلانی خاندان کی سیکورٹی بھی واپس

اس سے قبل ملتان میں سابق وزیر اعظم اور موجودہ سینیٹ چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی رہائش گاہ سے اور ان کے بیٹوں سے بھی سیکیورٹی ہٹائی جا چکی ہے۔

پارٹی کے لاہور صدر اسلم گل نے اسے ن لیگ کی ’چھوٹی حرکت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی واپس لینا کم ظرفی ہے، جبکہ سینیئر رہنما اسلم گل نے طنزاً کہا کہ پیپلز پارٹی جدوجہد والی جماعت ہے، اسے سیکیورٹی کی ضرورت نہیں۔

لاہور کے جنرل سیکرٹری رانا جمیل منج، سینئر نائب صدر چوہدری ریاض اور ندیم ملک سمیت دیگر جیالوں نے بلاول ہاؤس کی بیرونی سیکورٹی خود سنبھال لی اور اعلان کیا کہ ہمیں پنجاب پولیس کی سیکیورٹی کی ضرورت نہیں، ہم خود دیکھ لیں گے۔

پنجاب حکومت کی تردید اور وضاحت

بلاول ہاؤس سے سیکیورٹی واپس لینے کے حوالے سے پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب اور وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے ان الزامات کو جھوٹا اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور کہا کہ بلاول ہاؤس کی سیکیورٹی معمول کے مطابق موجود ہے۔

دوسری جانب لاہور پولیس کے ترجمان نے بھی خبر کو حقائق کے منافی قرار دیا، وضاحت کی کہ چند اہلکار ریسٹ پر تھے جن کی جگہ متبادل تعینات کر دیے گئے ہیں، اور معمول کی تبدیلی کو سیاسی رنگ دینا بے بنیاد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے ایسی کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔

اتحادیوں میں بڑھتی دوری

یہ تنازعہ وفاقی اور صوبائی سطح پر جاری اختلافات کی ایک کڑی ہے، جہاں پیپلز پارٹی کو لگتا ہے کہ ن لیگ اتحادی معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

حالیہ دنوں میں سیلابی امداد اور دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر جیسے فیصلوں پر مشاورت کی کمی نے کشیدگی بڑھا دی ہے۔

قیادت کی ملاقات اور ممکنہ نتائج

پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں کہا کہ ن لیگ معاہدوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ گزشتہ رات وزیر اعظم شہباز شریف نے آصف زرداری سے ایک اہم ملاقات کی۔

یہ بھی پڑھیں:رائیونڈ: بلاول ہاؤس کی سیکیورٹی کا معاملہ، جیالوں نے جوابی حکمت عملی طے کرلی

ذرائع کے مطابق صدر زرداری نے پیپلز پارٹی کی شکایات اور تحفظات وزیرِ اعظم کے سامنے رکھے، جن میں خاص طور پر پنجاب حکومت کے رویے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی اور پنجاب حکومت کے بارے میں قیادت سے بات کرنے کا وعدہ کیا۔

اس سے پہلے صدر آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو ثالثی کے لیے بھیجا تھا اور کہا تھا کہ اس معاملے کو دیکھا جائے۔

پیپلز پارٹی پنجاب اور وفاق نے حالیہ جاری مسلم لیگ (ن) سے کشیدگی کے حوالے سے کہا تھا کہ وہ وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن میں جا سکتی ہے۔

سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس

پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکرٹری حسن مرتضیٰ نے کہا کہ 18 اکتوبر کو پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوگا، جس میں یہ تمام صورتحال قیادت کے سامنے رکھی جائے گی کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو کس طرح تنگ کیا جا رہا ہے۔

سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں اہم فیصلے کیے جائیں گے اور اگر تنازعات حل نہ ہوئے تو پارلیمانی کارروائیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلاول بھٹو بلاول ہاؤس پیپلز پارٹی حسن مرتضیٰ صدر زرداری وزیراعظم

متعلقہ مضامین

  • پاک، افغان تنازع
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ملائشین ہم منصب کو پاک افغان سرحدی صورتِحال سے آگاہ کر دیا
  • افغانستان کے لیے پاکستان لائف لائن، جنگ کے سبب افغانستان کو کتنا بڑا معاشی نقصان ہورہا ہے؟
  • داعش خراسان کے تاجک، کرغیز، ازبک اور قازق زبانوں میں دہشت گردوں کی بھرتی کے لئے آن لائن اشتہارات
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں کمی، مذاکرات پر اتفاق
  • پاکستان کے ساتھ تجارت کھولو‘ افغانی تاجر اپنی حکومت پہ برس پڑے
  • ڈیورنڈ لائن: پاک افغان تعلقات میں تناؤ سے عبارت مشترکہ سرحد
  • سرحدی کشیدگی: افغان طالبان اور بھارتی میڈیا کا اے آئی ویڈیوز کے ذریعے پاکستان مخالف پروپیگنڈا
  • بلاول ہاؤس لاہور سے سیکورٹی ہٹانے کا تنازعہ کیا ہے؟