چمن اسپن بولدک بارڈر تجارت کے لیے کھول دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چمن : پاکستان اور افغانستان کے درمیان اسپن بولدک بارڈر کراسنگ دوبارہ کھول دی گئی ہے،میڈیا رپورٹ کے مطابق فی الحال سرحد صرف تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھولی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چند حساس معاملات کے باعث عام شہریوں کی پیدل آمدورفت کی اجازت تاحال نہیں دی گئی، سرحد کے دونوں جانب ٹریڈ کراسنگ اور کلیئرنس سے متعلقہ حکام اپنی ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں۔
پیر کو صرف خالی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ افغان ڈرائیورز کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق منگل کو انہی شرائط پر طورخم بارڈر بھی کھولا جائے گا، جس سے متعلق افغان ایمبیسی اسلام آباد کو مراسلہ ارسال کر دیا گیا ہے جبکہ دیگر تین کراسنگ پوائنٹس غلام خان، انگور اڈہ اور خرلاچی فی الحال غیر فعال رہنے کا امکان ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ازبکستان نے چار سال بعد افغانستان کے ساتھ واحد زمینی سرحدی گزرگاہ دوبارہ کھول دی
تاشقند: ازبکستان نے چار سال بعد افغانستان کے ساتھ واحد زمینی سرحدی گزرگاہ دوبارہ کھول دی ہے، جو طالبان کے سنہ 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عام مسافروں کے لیے بند تھی۔
ازبک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق "ترمذ-ہیراتان پل" پر واقع کراسنگ پوائنٹ اب مکمل طور پر فعال ہے اور دونوں ممالک کے شہری محفوظ طریقے سے آمدورفت کر سکتے ہیں۔
چیمبر نے بتایا کہ ویزا نظام برقرار رہے گا، تاہم سرحد کی بندش کے باعث مسافروں کو مزار شریف پہنچنے کے لیے تاجکستان کا طویل راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا، جو ازبک سرحد سے صرف 75 کلومیٹر دور ہے۔
گزرگاہ کی بحالی سے تجارتی کمپنیوں کے کام میں نمایاں آسانی پیدا ہوگی اور افغانستان کے ساتھ برآمدات میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
اگرچہ اگست 2021 سے عام شہریوں کے لیے آمدورفت پر پابندی تھی، لیکن محدود پیمانے پر تجارتی سامان کا لین دین جاری رہا۔ افغان شہری بغیر ویزا کے ایریٹم فری ٹریڈ زون کا بھی رخ کر سکتے تھے۔ ازبک چیمبر نے تصدیق کی کہ سرحد 23 نومبر سے دوبارہ کھولی جا چکی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان سرحد دریائے آمو دریا کے کنارے واقع ہے جبکہ واحد سرحدی گزرگاہ دوستی کے پل پر قائم ہے، جہاں سے 1989 میں سوویت افواج نے افغانستان سے انخلا کیا تھا۔
وسطی ایشیائی ممالک افغانستان کے راستے سمندری بندرگاہوں تک رسائی کے لیے بڑے ریلوے اور تجارتی منصوبے شروع کر رہے ہیں، جو طالبان حکومت کے لیے معاشی استحکام کا سبب بن رہے ہیں۔