دنیا بھر میں پاکستان کے معدنی ذخائر کی عالمی اہمیت کا اعتراف کیا جا رہا ہے جب کہ امریکی جریدے فارن پالیسی نے اسے تسلیم کیا ہے۔

امریکی جریدہ فارن پالیسی کے مطابق؛  پاکستان کے معدنی ذخائر 2 لاکھ 30 ہزار مربع میل پر محیط  ہیں،  یہ معدنی ذخائر  اعلیٰ عالمی معیار اور برطانیہ کے رقبے سے دوگنا ہیں،  معدنی شعبے میں بین الاقوامی سرمایہ کاری،  باہمی معاہدوں سے پاکستان اور سرمایہ کار ممالک دونوں کو معاشی، تکنیکی اور سماجی فوائد حاصل ہوں گے۔

امریکی جریدے کے مطابقپاکستان میں معدنی وسائل سے استفادہ حاصل کرنے کے لئیے قومی معدنی پالیسی 2025 مرتب کی گئی ہے، قومی معدنی پالیسی کے 2025ء کے ثمرات پاکستان بالخصوص بلوچستان کے عوام تک پہنچیں گے۔

صوبوں کے دیہی علاقوں میں انفراسٹرکچر، روزگار اور سماجی ترقی کو فروغ دینے پر خصوصی توجہ دی جائیگی، بلوچستان کے گریجویٹس ریکوڈک پروگرام کے تحت بیرونِ ملک تربیت کے لیے بھیجے گئے ہیں۔

معدنی ذخائر کے مؤثر استعمال سے پاکستان میں سماجی اور معاشی ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، قومی معدنی پالیسی کے تحت پاکستان اپنے قدرتی وسائل کے پائیدار استعمال سے طویل المدتی ترقی اور قومی خودکفالت کی راہ پر گامزن ہے۔

بین الاقوامی تعاون اور ٹیکنالوجی شیئرنگ سے معدنیات کے شعبے میں مزید پیش رفت کی توقع ہے، اس تناظر میں پاکستان کے معدنی وسائل کی اہمیت عالمی سطح پر مسلم ہے۔

پاکستان کے معدنی ذخائر کی عالمی اہمیت، امریکی جریدے فارن پالیسی کا اعتراف

دنیا بھر میں پاکستان کے معدنی ذخائر کی عالمی اہمیت کا اعتراف کیا جا رہا ہے

امریکی جریدہ فارن پالیسی کے مطابق؛
پاکستان کے معدنی ذخائر 2 لاکھ 30 ہزار مربع میل پر محیط ہیں

یہ معدنی ذخائر برطانیہ کے رقبے…

— PTV News (@PTVNewsOfficial) October 21, 2025

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے معدنی ذخائر کی عالمی اہمیت امریکی جریدے فارن پالیسی پالیسی کے کا اعتراف

پڑھیں:

امریکہ حقیقی دہشتگرد ہے

اسلام ٹائمز: اب وقت آچکا ہے کہ عالمی برادری انصاف، مساوات اور اصولوں پر مبنی عالمی نظام کی بحالی کے لیے متحد ہو۔ حقیقی امن اسی وقت ممکن ہے، جب طاقتور قومیں اپنے مفادات کے بجائے انسانیت کو ترجیح دیں۔ یہی بات ہمیں حالیہ دنوں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے تازہ ترین خطاب میں ملتی ہے کہ جس میں انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر کوئی قوم ترقی کے راستے پر گامزن ہے تو امریکہ اسے برداشت کیوں نہیں کرتا۔؟ امریکہ کو دوسری قوموں کی ترقی اور پیشرفت سے کیا مسئلہ ہے۔؟ امریکہ کو کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ دوسری قوموں پر اپنے فیصلے صادر کرے اور انکے معاملات میں دخل اندازی کرے۔؟ یہی وقت ہے کہ قوموں کو بیدار ہونا پڑے گا، تاکہ ظلم کے اس نظام اور دنیا کی اس دہشتگرد حکومت کو لگام دی جائے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

دنیا کی موجودہ سیاست میں اگر کسی کو طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے تو وہ امریکہ ہے۔ حالانکہ اب یہ تاثر زائل ہو رہا ہے اور طاقت مغرب سے مشرق کی جانب تیزی سے سفر کر رہی ہے۔ نئے نئے اتحاد اور فورمز اس بات کی دلیل ہیں کہ گلوبل سائوتھ اپنی جگہ بنا رہا ہے اور اس قابل ہونے کی جدوجہد میں ہے کہ دنیا کے بیشتر مسائل کو صرف ایک امریکہ جیسی اقلیت کے سپرد نہ کیا جائے۔ پہلی جنگ عظیم میں اسی امریکی حکومت نے جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لئے اسلحہ فروخت کیا اور بعد ازاں دوسری جنگ عظیم کے دوران خود ہی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگ میں وارد ہوا اور انسانیت کی دھجیاں بکھیر کر دکھ دیں، یعنی ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسا دیئے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک امریکہ خود کو "عالمی امن کا محافظ" قرار دیتا آیا ہے، لیکن عملی طور پر اس کی خارجہ پالیسی کے کئی پہلو ایسے ہیں، جنہوں نے عالمی امن کو کمزور اور انتشار کو فروغ دیا ہے۔

مقالہ کا موضوع جیسا کہ امریکہ حقیقی دہشت گرد رکھا گیا ہے، یہ عنوان حال ہی میں ایران کے سپریم لیڈ ر آیت اللہ خامنہ ای کی تازہ ترین تقریر سے لیا گیا ہے، جس میں انہوں نے غزہ میں جاری نسل کشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا غزہ کے بچے اور خواتین جن کو امریکی ایماء پر غاصب صیہونی حکومت قتل کر رہی ہے، دہشت گرد ہیں؟ یا یہ کہ امریکی حکومت ایک حقیقی دہشتگرد ہے۔ راقم بھی اس بات سے سو فیصد متفق ہے کہ اگر دنیا میں دہشت گردی کو پروان چڑھانے والی کوئی حکومت ہے تو وہ صرف اور صرف امریکی حکومت ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی حکومت نے اپنے آپ کو ایک عالمی طاقت کے عنوان سے پیش کیا۔ یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہو رہا تھا کہ جب دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ تباہ ہوچکا تھا، امریکہ نے اپنے اقتصادی اور عسکری وسائل کے بل بوتے پر دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ مارشل پلان کے ذریعے یورپ کی تعمیرِ نو میں کردار ادا کیا، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ عالمی اداروں جیسے اقوامِ متحدہ، عالمی بینک اور آئی ایم ایف میں اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ یہ وہ بنیاد تھی، جس پر بعد میں امریکہ نے اپنی بالادستی پر مبنی خارجہ پالیسی استوار کی۔

امریکی حکومت کی دہشتگردانہ پالیسیوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں دو سو سالہ تاریخ میں دہشتگردی ہی ملتی ہے۔ اس عنوان سے راقم پہلے ہی کئی مقالہ جات تحریر کرچکا ہے۔ اگر ہم صرف گذشتہ سات سے آٹھ دہائیوں کی بات کریں تو اس میں بھی امریکی تاریخ دہشت گردی کی سیاہ تاریخ ہے۔ امریکہ نے پچھلے 70 برسوں میں متعدد ممالک میں براہِ راست یا بالواسطہ مداخلت کی۔ ویتنام (1955ء سے 1975ء) تک جہاں لاکھوں افراد لقمۂ اجل بنے۔ ویت نام کی جنگ سرد جنگ کے دور میں شروع ہوئی، جب امریکہ نے کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جنوبی ویت نام کی حمایت کی۔ امریکہ نے بمباری، کیمیائی ہتھیاروں (Agent Orange)، اور زمینی فوج کے ذریعے ایک طویل اور خونریز جنگ چھیڑی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً 30 لاکھ افراد مارے گئے، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی۔ امریکہ کو بالآخر 1975ء میں شرمناک شکست کے بعد پسپا ہونا پڑا، جس نے اس کی عسکری برتری کے تاثر کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہ جنگ اس بات کی علامت بن گئی کہ طاقت کے زور پر نظریات کو نہیں بدلا جا سکتا۔

سنہ 2003ء میں عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کے نام پر جنگ مسلط کی گئی، جن کی موجودگی کبھی ثابت نہ ہوسکی۔ امریکہ نے 2003ء میں عراق پر یہ کہہ کر حملہ کیا کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (Weapons of Mass Destruction) موجود ہیں۔ بعد میں یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا، لیکن اس وقت تک عراق کی ریاستی ساخت تباہ ہوچکی تھی۔ بغداد، فلوجہ اور دیگر شہروں پر شدید بمباری ہوئی، لاکھوں شہری قتل کر دیئے گئے۔ امریکی حملے کے بعد فرقہ واریت کو ہوا ملی، جس نے داعش جیسے گروہوں کو جنم دیا۔ عراق آج بھی اس جنگ کے بعد مکمل طور پر سنبھل نہیں سکا۔ اس مہم نے عالمی برادری میں امریکہ کے اس تشخص کو تقویت پہنچائی کہ امریکی حکومت خود ایک دہشتگرد حکومت ہے۔ جو انسانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی پروا ہ نہیں کرتی ہے۔

سنہ 2001ء سے لے کر سنہ2021ء تک افغانستان میں بھی امریکی دہشتگردی جاری رہی۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک پورا ملک تباہ کرکے رکھ دیا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، مقصد القاعدہ کا خاتمہ اور طالبان حکومت کی برطرفی بتایا گیا۔ بیس سال تک جاری رہنے والی اس جنگ نے افغانستان کو کھنڈر میں بدل دیا۔ لاکھوں شہری مارے گئے، معیشت تباہ ہوگئی اور مہاجرین کی سب سے بڑی لہر پیدا ہوئی۔ امریکی افواج کے جانے کے بعد 2021ء میں طالبان دوبارہ اقتدار میں آگئے، جس سے ثابت ہوا کہ دو دہائیوں کی جنگ نہ جمہوریت لا سکی، نہ استحکام۔ اس جنگ نے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے (خصوصاً پاکستان اور ایران) پر گہرے اثرات ڈالے اور دہشت گردی، بدامنی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ یہ سب امریکی دہشتگردانہ پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔

فلسطین وہ خطہ ہے، جہاں امریکہ کی پالیسی نے سب سے زیادہ کھلا تضاد دکھایا ہے۔ امریکہ ہمیشہ انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، مگر اسرائیل کی ہر جارحیت پر خاموش رہتا ہے۔ 1948ء سے اب تک امریکہ نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے خلاف درجنوں قراردادوں کو ویٹو کیا، جس سے انصاف کے راستے بند ہوئے۔ غزہ میں ہونے والی نسل کشی، محاصرے اور بمباری کے باوجود امریکہ مسلسل اسرائیل کو عسکری و مالی مدد فراہم کرتا ہے۔ امریکی میڈیا اور پالیسی بیانیہ اسرائیل کو دفاعی قوت اور فلسطینی عوام کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرتا ہے، جو کہ ایک واضح دوہرا معیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے انسانی حقوق کے ادارے، حتیٰ کہ امریکی دانشور بھی، آج امریکہ کی فلسطین پالیسی کو منافقت پر مبنی قرار دیتے ہیں۔

یہ امریکی حکومت ہے کہ جس نے آج سے چار ماہ قبل ہی ایران پر براہ راست حملہ کیا اور ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ یہ سب کھلی جارحیت اور دہشتگردی کی مثالیں ہیں۔ لیبیا اور شام میں بھی امریکی مداخلت نے خطے کو غیر مستحکم کر دیا۔ ان تمام جنگوں میں امریکی بیانیہ ہمیشہ جمہوریت، آزادی اور تحفظ کا رہا، مگر عملی نتیجہ انسانی المیے، مہاجرت اور دہشت گردی کی نئی لہروں کی صورت میں نکلا۔ امریکہ خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن اس کے اقدامات اکثر دوہرے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی کھلی حمایت غزہ میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر خاموشی، سعودی عرب، مصر اور دیگر مطلق العنان حکومتوں کے ساتھ قریبی تعلقات، یہ تمام عوامل اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکی پالیسی اصولوں کے بجائے مفادات پر مبنی ہے۔ یہی امریکہ ہے کہ جس نے یمن پر بھی حملہ کیا۔ ویٹو پاور کا استعمال کرکے چھ مرتبہ غزہ جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی حکومت امریکی حکومت ہے۔

امریکہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہاں تک کہ لاطینی امریکہ کے ممالک کے خلاف بھی امریکی حکومت اپنی دہشتگردانہ پالیسیوں سے باز نہیں آتی ہے۔ وینزویلا جیسے ممالک کے خلاف پالیسیوں میں بھی یہی رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ عالمی برادری انصاف، مساوات اور اصولوں پر مبنی عالمی نظام کی بحالی کے لیے متحد ہو۔ حقیقی امن اسی وقت ممکن ہے، جب طاقتور قومیں اپنے مفادات کے بجائے انسانیت کو ترجیح دیں۔ یہی بات ہمیں حالیہ دنوں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے تازہ ترین خطاب میں ملتی ہے کہ جس میں انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر کوئی قوم ترقی کے راستے پر گامزن ہے تو امریکہ اسے برداشت کیوں نہیں کرتا۔؟ امریکہ کو دوسری قوموں کی ترقی اور پیشرفت سے کیا مسئلہ ہے۔؟ امریکہ کو کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ دوسری قوموں پر اپنے فیصلے صادر کرے اور ان کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔؟ یہی وقت ہے کہ قوموں کو بیدار ہونا پڑے گا، تاکہ ظلم کے اس نظام اور دنیا کی اس دہشتگرد حکومت کو لگام دی جائے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے معدنی ذخائر اعلی عالمی معیار کے ہیں جو 2لاکھ مربع میل سے زائد پر پھیلے ہیں، امریکی جریدے کا اعتراف
  • آئی ایم ایف کا پاکستان میں معاشی اصلاحات کے تسلسل اور مالی بہتری کا اعتراف
  • امریکہ حقیقی دہشتگرد ہے
  • پاکستان کے معدنی ذخائر عالمی معیار کے، سرمایہ کاری سے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی: امریکی جریدہ فارن پالیسی
  • پاکستان کے معدنی ذخائر اعلیٰ عالمی معیار کے ہیں جو  2 لاکھ 30 ہزار مربع میل پر محیط ہیں، امریکی جریدے کا اعتراف
  • پاکستان کے معدنی ذخائر دنیا کے بہترین معیار کے قرار، امریکی جریدے کی رپورٹ
  • معاندانہ امریکی پالیسی کیخلاف ایرانی سپریم لیڈر کے اصولی موقف کی عالمی سطح پر پذیرائی
  • ٹر مپ ماضی میں مودی کے قریب اب فیلڈ مارشل کے گرویدہ : امریکی چینل 
  • پاکستان اور چین کا دیگر شعبوں کی طرح خلائی تحقیق میں تعاون مثالی اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے، شہباز شریف