سپریم کورٹ بار الیکشن: حتمی نتائج جاری، عاصمہ جہانگیر گروپ کی اکثریت منتخب
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے باضابطہ حتمی نتائج کے مطابق بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے ممبر ایگزیکٹو کمیٹی کی 9 نشستوں پر عاصمہ جہانگیر گروپ کے امیدوار منتخب ہوگئے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات کے آفیشل نتائج جاری کر دیے گئے جس میں عاصمہ جہانگیر گروپ نے میدان مار لیا۔ حتمی نتیجے کے مطابق ایڈووکیٹ ہارون الرشید 1898 ووٹ لیکر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ملک زاہد اسلم اعوان 1915 ووٹ لیکر سیکرٹری بار منتخب ہوگئے۔
بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب سے تینوں نائب صدور بار ایسوسی ایشن عاصمہ جہانگیر گروپ کے منتخب ہوئے جبکہ حامد خان گروپ کے نائب صدر سندھ کی نشست پر ملک خوشحال خان اعوان منتخب ہوئے۔
فنانس سیکرٹری کی نشست پر عاصمہ جہانگیر گروپ کی سائرہ خالد راجپوت 2049 ووٹ لیکر منتخب ہوئیں جبکہ ایڈیشنل سیکرٹری کی نشست پر عاصمہ جہانگیر گروپ کے سردار طارق حسین 1835 ووٹ لے کر منتخب ہوئے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عاصمہ جہانگیر گروپ بار ایسوسی ایشن سپریم کورٹ بار گروپ کے
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے دو ججز کا اہم خط: چیف جسٹس اور جسٹس سرفراز پر تحفظات کا اظہار
سپریم کورٹ کے سینئر ججز، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے ایک تفصیلی خط میں عدالتی ضابطہ اخلاق میں مجوزہ ترامیم اور سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر سنجیدہ اعتراضات اٹھائے ہیں۔ خط چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ارکان کو ارسال کیا گیا ہے۔
اہم نکات:
دونوں ججز نے خط میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی سپریم جوڈیشل کونسل میں شمولیت غیر موزوں ہے، کیونکہ ان کے خلاف ایک اپیل زیرِ التوا ہے۔
اسی طرح، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی کے خلاف بھی ایک مقدمہ عدالت میں زیر غور ہے، اس لیے وہ خود بھی ضابطہ اخلاق میں ترامیم کے عمل سے علیحدہ رہیں تو بہتر ہوگا۔
خط میں الزام عائد کیا گیا کہ اس بار سپریم جوڈیشل کونسل کا آئینی طریقہ کارنظرانداز کیا گیا۔ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی میں شامل تین چیف جسٹسز نے پہلے ترامیم کی منظوری دی، پھر سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی انہی ترامیم کو منظور کیا — جو بقول ججز، آئینی اصولوں کے خلاف ہے۔
ججز کی تشویش:
جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے خبردار کیا کہ:
مجوزہ ترامیم سےعدلیہ کی آزادی کو خطرہ ہے۔
ان سےشفافیت متاثر ہوگی اور اختیارات چند افراد تک محدود ہو جائیں گے۔
ترامیم کو بعض مخصوص ججز کی آواز دبانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خط کے آخر میں دونوں ججز نے لکھا کہ ملک اس وقت جمہوری دباؤ اور آئینی بحران کے دور سے گزر رہا ہے، اور ایسے حالات میں صرف ایک بے خوف، آزاد اور اصولوں پر قائم عدلیہ ہی عوام کے اعتماد کا مرکز بن سکتی ہے۔
یہ خط نہ صرف عدلیہ کے اندرونی معاملات کی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں آئینی عمل، شفافیت اور آزادی کے اصولوں پر ایک نظریاتی اختلاف موجود ہے۔