Jasarat News:
2025-12-08@11:59:11 GMT

ٹماٹر مہنگے ہوگئے ہیں!

اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

روزانہ کا سامان لینے بازار گیا تو جب سبزی والے نے ٹماٹر کی قیمت بتائی تو پہلے تو سماعت کا ثقل لگا اور اوسان خطا ہو گئے کہ ٹماٹر آٹھ سو روپے کلو؟ یقین نہیں آیا تو دوبار سہ بارہ پوچھا لیکن جب جواب وہی آیا تو چار و ناچار یقین کرنا پڑا۔ یہ منہ اور مسور کی دال تو سنا تھا اب یہ منہ اور ٹماٹر کا سواد کا اور اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو پھر عوام صرف ہوا خوری ہی کر پائے گی۔ منافع خوروں نے ہر چیز ٹرائی کر لی تھی۔ یہ ٹماٹر ان کے ذوق تسکین سے اوجھل تھے وہ بھی ہماری چکن کڑاہی کے شوق کی بناء پر ان کی نظروں میں آگئے اور بالآخر بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ان کے مشق ستم کا نشانہ بن گئی۔ ہماری بیگم چکن میں بہ وزن جس قدر ٹماٹر ڈالتی ہیں اب قیمتاً وہ دونوں ہم وزن ہو گئے ہیں۔ اندھیر نگری چوپٹ راج۔ ٹکے سیر کھاجہ ٹکے سیر بھاجی۔ ہمارا حساب کتاب ویسے بھی کمزور ہے۔ بیگم اکثر یہی کہتی ہیں کہ سبزی والا ہم سے زیادہ پیسے وصول کر لیتا ہے۔ ساری قیمتیں حکومت اگر یکساں کر دے تو یہ دھڑکا بھی جاتا رہے گا۔

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

لٹنے کے لیے عوام کے پاس اب بچا بھی کیا ہے؟ ایک عزت سادات تھی وہ کسی طرح بیرون ملک برآمد کرکے بچا پا رہے ہیں باقی تو آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا والا حال ہے۔ سر چھپاتے ہیں تو پاؤں ننگا ہوتا ہے اور پاؤں چھپاتے ہیں تو سر کھل جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غریب ترین آدمی کو بھی جینے کے لیے فی کس پینتیس ہزار روپے ماہانہ چاہیے اور ہم سوچ رہے ہیں کہ اتنی آمدنی پاکستان میں آخر کتنے لوگوں کی ہے؟ ہم خود بوڑھے ہوچکے ہیں لیکن اپنے بڑے بوڑھوں سے سنا کرتے تھے کہ کبھی سستا زمانہ بھی ہوا کرتا تھا۔ سارا مہینہ اہل دہل سے کھا کر بھی بہت سارا بچ رہتا تھا جسے الماری میں رکھ کر آرام سے پاؤں پسار کر سو جاتے تھے کہ چوری چکاری کا ڈر بھی نہیں تھا۔ اب تو حالت یہ ہے کہ عوام ٹیکس بھی دے۔ چالان بھی بھرے۔ رشوت بھی دے۔ بھتا بھی دے۔ دن دہاڑے مال و متاع بھی لٹوائے اور اغواء برائے تاوان کے لیے بھی تیار رہے۔ سیاست دانوں اور سرکاری عمال سے جو کچھ بچ جاتا ہے وہ انہیں کے پالے ہوئے غنڈے لوٹ مار کر کے لے جاتے ہیں۔ ملک میں قانون نام کی کوئی چیز اگر ہوتی ہے وہ مملکت خدا داد میں نہیں ہوتی ہے۔ سرکار آخر اپنی سیکورٹی کے لیے اتنا لمبا چوڑا انتظام کیوں کرتی ہے؟ اور سرکاری بھی کیا ہے؟ سیاسی پارٹیوں کا ایک جتھا ہے جو کہ بوٹ پالش کے ذریعے اقتدار میں آتے ہیں اور مال مفت دل بے رحم کا حال احوال کرتے ہیں۔ الیکشن قریب آتے ہیں تو شراکت کی ہنڈیا چوراہے پر پھوٹتی ہے۔ جوتیوں میں دال بٹتی ہے۔ اور جب چناؤ جیت جاتے ہیں تو پھر ان کے پیٹ مل جاتے ہیں۔

ہماری حکومت عوام سے کس طرح پیسے ہتھیانے اس کے لیے پارلیمنٹ میں نئے نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں اور جو طریقے ایجاد نہیں ہو پاتے ہیں وہ آئی ایم ایف انہیں سجھا دیتی ہے۔ حکمرانوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں، بس جی یہی چاہتا ہے کہ کوئی اس کڑاہی میں آگ لگا دے۔ ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے زیادہ ہیں کہ آئی ایم ایف انہیں کم کرنے کا حکم صادر فرما چکی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ حکومت سنی ان سنی کیے بیٹھی ہے۔ اور کیوں نہ کرے جیسے مرد میں جب تک پانچوں شرعی عیب نہ ہوں مرد تسلیم نہیں کیا جاتا ہے اسی طرح ہماری حکومت کے تو پانچوں ستونوں میں پانچوں شرعی عیب بدرجہ اتم موجود ہیں اور اسی لیے انہیں حکومت تسلیم کیا جاتا ہے۔ ملی بھگت کے بغیر ان کا گزارا نہیں ہے۔ دن میں غریبوں کا خون نچوڑ کر کماتے ہیں اور رات میں اُڑاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو دل میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ کیا واقعی مسلمانوں کا ملک ہے اور اسلام کے نام پر بنا تھا؟ حکمران سے لے کر عوام تک بے ایمانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے کیا دیں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس ملک میں نہ حالات سدھریں گے اور نہ انقلاب آئے گا کیونکہ عوام و خواص دونوں بے ایمان ہیں اور ایماندار موقع کی تاک میں ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ سنیما کے ٹکٹ بلیک کرنے والے، منشیات کا کاروبار والے، زمینوں پر قبضہ کرنے والے، بینکوں سے قرضہ لے کر ہڑپ کر جانے والے، اغواء برائے تاوان کرنے والے، رشوتیں لے کر ملازمت کے جھانسے دینے والے، سپاری لے کر قتل کرنے والے، اسمگلنگ کرنے والے اور گینگ چلانے والے زمام حکومت سنبھالے بیٹھے ہوں تو اس ملک میں بہتری کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟ معدودے چند شریف شرفا ٹکر ٹکر حالات کو دیکھ رہے ہیں کہ علامہ اقبال نے کیا اسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور کیا قائد اعظم یہی پاکستان بنانا چاہتے تھے؟ جب پرانی نسل کنفیوز ہے تو نئی نسل کو کیا بتائے کہ پاکستان کے کیا خدو خال کینوس پر بنائے گئے تھے اور حقیقت میں کیا بن گیا ہے۔

آدھے سے زیادہ پاکستان گنوا کر بھی ہم سمجھ نہیں پائے ہیں کہ آخر ہماری منزل ہے کیا؟ وہی صورتحال جو مشرقی پاکستان میں تھی اب سارے پاکستان میں ہے۔ کمزور اور چھوٹے صوبوں میں اب بھی غدار جنم لے رہے ہیں اور ان کی سرکوبی کی جا رہی ہے۔ حکومت کی ترجیحات ہیں کیا یہ کسی کو سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ ملک سیلاب اور قدرتی آفات سے بے حال ہے۔ کارخانے دار حالات سے تنگ اگر کارخانے بند کر رہا ہے۔ لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں۔ آدھی آبادی خط غربت کے نیچے آ چکی ہے۔ لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں یا بھاگنا چاہتے ہیں۔ لیکن ٹیلی وژن دیکھو تو معاشی پالیسی ایسی کامیاب ہے کہ ملک میں ہر طرف خوش حالی ہی خوش حالی ہے۔ زراعت میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے۔ کارخانوں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ بینکوں کو سرمایہ کاری کے لیے قرضے دینے سے فرصت نہیں ہے۔ ملک چاند پر پہنچ گیا ہے۔ خارجہ پالیسی ایسی تیر بہدف ہے کہ ہر طرف ہماری واہ واہ اور آؤ بھگت ہو رہی ہے۔ دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیے گئے ہیں۔ انصاف کا بول بالا ہے۔ لڑکیاں بالیاں سونا اچھالتی ہوئی بلا خوف و خطر ادھر سے ادھر اٹکھیلیاں کرتی پھرتی ہیں۔ جرائم کی شرح تقریباً صفر ہے اور اسکولوں اور کالجوں کا ایسا جال بچھا ہوا ہے کہ کوئی بچہ تعلیم سے رہ نہ جائے اور صحت کی وہ سہولتیں ہیں کہ کوئی علاج سے محروم نہیں۔ ہمارا تو سوال صرف یہ ہے کہ ہم آخر کس کو دھوکا دے رہے ہیں؟ جب بچے بچے تک کو پتا ہے کہ بادشاہ بھی ننگا ہے۔ مصاحب بھی ننگے ہیں اور سرکاری عمال بھی ننگے ہیں۔ ملک سے میرٹ کا نظام ختم کرکے جب اقربا پروری کا نظام لاگو کر دیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمتوں کو بیچ کر مال بنایا جاتا ہے۔ انصاف کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ بین الاقوامی معاملات میں ہم نے برائے فروخت کا بورڈ آویزاں کیا ہوا ہے۔ اصولی سیاست کو مصلحت پر قربان کر دیتے ہیں۔ ظلم کو حکمت عملی کا نام دیا جاتا ہے۔ قرآن کی آیات کا استعمال کرکے ہم اپنی غلط کاریوں کو عین دیں ثابت کرتے ہیں تو پھر ہم کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیا آسمان سے پتھر برسنے کا یا زمین کے آگ اگلنے گا یا پھر دریاؤں اور سمندروں کے بپھرنے کا؟

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

سید اقبال ہاشمی سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستان میں کرنے والے جاتے ہیں ملک میں ہیں اور جاتا ہے رہے ہیں ہیں کہ کے لیے ہیں تو گیا ہے

پڑھیں:

ڈھکن تو سب ہٹائے جائیں گے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251208-03-7
مظفراعجاز
پہلے اہل ِ نظر اور سخن فہم لوگ نظام کی خرابی پر کہا کرتے تھے کہ ’’ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا؟ لیکن اب سب بدل گیا ہے جب سے گلشن کی جگہ کنکریٹ کے شہری گلشنوں نے لی ہے اور باغ اُجاڑنے کا کام اُلوؤں کی جگہ بلدیاتی اداروں نے لے لیا ہے، اب ہر ادارے پر ایک اُلو کی جگہ ڈھکن رکھا ہوا ہے، اور ان ڈھکنوں کو جب تک زور لگا کر ہلایا نہیں جاتا یہ کوئی حرکت نہیں کرتے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے، یہ کام بھی ننھے ابراہیم ہی کو کرنا پڑا۔ پھر گٹر کا ڈھکن نہیں تھا، پھر ایک معصوم جان گئی، اب سب ملزم اور مجرم کی تلاش میں ہیں، مئیر صاحب نے ایک دو دن ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا پھر ابراہیم کے گھر جاکر معافی بھی مانگ لی، یہ تو انہوں نے اچھا کیا، لیکن کیا نظام کی اصلاح کے حوالے سے کچھ کرنے کا عزم کیا ہے، اپنے مخالف کے ٹائون کو فنڈ دینے کا ارادہ کیا ہے، مخالفین کی یونین کونسل کو یا مخالف کونسلر کو فنڈز دینے کا فیصلہ کیا ہے، اور فیصلہ بھی کیوں فیصلہ تو قانون کے مطابق موجود ہے کہ ہر یوسی، ہر ٹائون، ہر کونسلر کو فنڈز دیے جائیں، یہ دیتے نہیں، پھر معاملات کیسے چلیں گے۔ بچہ جان سے گیا اور ایک دن سے کم وقت میں ہزاروں ڈھکن لا کر حاضر کر دیے گئے، بلکہ لگا بھی دیے گئے۔ ایک ہی دن میں ہزاروں۔

ڈھکن!!! کمال سے بھی بڑا کمال، واٹر بورڈ والے تو کہتے تھے کہ دستیاب نہیں ہیں فنڈز نہیں ہیں اب ایک جھٹکے میں اتنے ڈھکن؟ اور الزام دوسروں پر۔ اور تو اور خود کے ایم سی کے ذمے دار نے اس اسٹور والے کو ذمے دار قرار دے دیا جس کے سامنے حادثہ پیش آیا، شہری ذمے داریوں کے حوالے سے تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اچل ذمے دار تو کے ایم سی، واٹر بورڈ اور ریڈ لائن منصوبے والے ہیں، کم از کم وہ تو یہ بات نہ کریں، ہاں اسٹور والوں کو بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور استعداد کا تو علم ہے پھر تو خود ہی لگا دینا چاہیے تھا، ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ کیس داخل دفتر ہی ہوجائے گا اور نہ ہوا تو بھی کسی کو سزا نہیں ہوگی، سزا تو معصوم ابراہیم کو، اس کے ماں باپ کو اور شہریوں کو بار بار ملتی ہے۔

گزشتہ کئی برس سے ہم توجہ دلاتے رہے ہیں کہ کراچی کا شہری نظام جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے، شہر کے اختیارات کی تقسیم ہی ایسی کی گئی ہے کہ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں اور کئی کئی چکر کے بعد پتا چلتا ہے کہ آپ غلط جگہ پہنچے ہیں، یہ علاقہ کے ایم سی کے کنٹرول میں نہیں ہے یہاں کنٹونمنٹ کا سکہ چلتا ہے، اور اس کا دفتر کہیں دور ہے۔ شہر کا بہت بڑا حصہ کنٹونمنٹ کے کنٹرول میں ہے وہی وہاں سے ٹیکس وصول کرتا ہے، ایک اور بڑا حصہ ڈی ایچ اے کے پاس ہے اور وہاں ڈی ایچ اے کے قوانین چلتے ہیں، باقی بچا کھچا کے ایم سی کے پاس ہے، یہ باتیں تو کے ایم سی یا بلدیہ عظمیٰ کراچی سے تعلق رکھنے والے ذمے داران بتاتے رہتے ہیں، لیکن اس کے آگے کی کہانی بڑی دردناک ہے، شہری تینوں میں سے کسی بھی علاقے میں رہتے ہوں وہ شہری ہیں اور کم وبیش سب ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن جب ان کے مسائل حل کرنے کا وقت آتا ہے تو انہیں تھانے کی طرح حدود کے تعین کے چکر میں ڈال دیا جاتا ہے، یہ سڑک کے ایم سی کی ہے، گٹر کی خرابی واٹر بورڈ ٹھیک کرتا ہے لیکن علاقہ کنٹونمنٹ کا ہے اس لیے اجازت اس کی درکار ہوگی، اور اجازت سائل کو لینی ہوگی، یہ معاملہ صرف ان تین اداروں کی حدود کا نہیں ہے، کے ایم سی کے اندر بھی یہی چل رہا ہے، یہ کام ٹائون کرتا ہے، وہ کام یوسی کی ذمے داری ہے، اور فلاں کام کے ایم سی کا ہے، بجٹ اوپر سے آنا چاہیے، لیکن ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچی جاتی ہے، ٹائون والے یوسی کو اس کا فنڈ اس لیے نہیں دیتے کہ وہ دوسری پارٹی کے پاس ہے، اور کے ایم سی دوسری پارٹی کے ٹائون کو فنڈ نہیں دیتی، سارا دباؤ یوسی پر ہوتا ہے اور اس کو کے ایم سی اور ٹائون فنڈز نہیں دیتے، اور یوسی کے کونسلرز ہی میدان میں ہوتے ہیں انہی سے شکایات کی جاتی ہیں ان ہی کو مسائل حل کرانے ہوتے ہیں۔ یہ یوسی والے ہر وقت نشانے پر رہتے ہیں۔ دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی بلدیاتی اکائی کا ذمے دار اپنے علاقے کا گورنر، وزیراعلیٰ وغیرہ کی طرح ہوتا ہے اس پر ذمے داریاں ہوتی ہیں تو اسے بجٹ اور اختیار بھی ملتا ہے، اور یہ نیچے بھی جاتا ہے، لیکن پاکستان، اور اس کے سب سے بڑے شہر کراچی کا حال ہی نرالا ہے، اور اب تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کراچی کو تباہ کرنے میں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی وغیرہ سے زیادہ ان کا ہاتھ ہے جنہوں نے ان دونوں پارٹیوں کو شہر پر مسلط کیا، یہ خود تو ڈی ایچ اے یا کنٹونمنٹ کے جزائر میں رہتے ہیں یا اسلام آباد میں، انہیں یہاں کی صورتحال کا حقیقی ادراک ہی نہیں ہوتا، سارا کام محض رپورٹس پر چلتا ہے۔

تین سالہ ابراہیم کی موت نے اس سارے نظام کا ڈھکن کھول دیا ہے اور ایک ایک ادارے پر رکھا ڈھکن بے نقاب ہوگیا ہے۔ کراچی کے اداروں کا کنٹرول صوبائی حکومت کو دینے والے کردار بھی سامنے ہیں اور ان محکموں کی کارکردگی بھی، ایک دن میں جو ہزاروں ڈھکن ابراہیم کی موت کے بعد جادو سے حاضر ہوگئے وہ پہلے کیوں روک کر رکھے ہوئے تھے، واٹر کارپوریشن والے اس کا جواب نہیں دے سکیں گے، اور دے بھی نہیں سکتے کیونکہ اس کا جواب سب جانتے ہیں، جن افسروں کو لوگ ڈی جی، سی ای او اور چیئرمین کے ناموں سے جانتے ہیں ان کی اوقات اس سسٹم کے سامنے چپراسی سے زیادہ نہیں، اور عوام کے سامنے افسر بنے پھرنے والے یہ لوگ ایک خاص مقام پر اپنی بے عزتی کروانے میں کامیابی سمجھتے ہیں، بلکہ ان عہدوں پر ان ہی راستوں سے پہنچتے ہیں، گٹر کے ڈھکنوں کا معاملہ تو اتنا سنگین ہوگیا کہ اسسٹنٹ کمشنر، ڈی سی اور دیگر افسران بھی سرگرم نظر آئے۔ یا نظر آنے کی کوشش کرنے لگے، اس کی وجہ عوام کا غصہ، تھا وہ سیاسی دباؤ سے اتنا متاثر نہیں ہوتے، لیکن سوشل میڈیا اور عوام کے غصے نے اسے بھی متحرک کردیا جس کی ذمے داری گٹر کے ڈھکن نہیں ہیں۔ حکمراں طبقے کی کیفیت تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شہلا رضا دو عشرے قبل اپنے دوبچوں سے اسی گٹر اور نالے والے واٹر بورڈ کی وجہ سے محروم ہوچکی تھیں لیکن سترہ برس کے مکمل کنٹرول کے باوجود ان کی پارٹی یہ نظام ٹھیک نہ کرسکی۔ خود موجودہ ڈپٹی مئیر کے علاقے میں یکے بعد دیگرے دوبچے گٹر میں گرکر جاں بحق ہوئے لیکن کچھ نہ کیا جاسکا۔ تو اب کیا ہوگا۔ کیا شہر کا بیڑا غرق کروانے والے واپسی کا سفر شروع کرنے پر تیار ہیں؟ اگر تیار ہیں تو خود شروع کردیں ورنہ جلد یا بدیر ڈھکن تو سب ہی اٹھائے جائیں گے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • مسلم لیگ ن کے رہنما عابد شیرعلی بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوگئے
  • ہم نے اپنے لیڈر کو پاکستان سے بڑا نہیں مانا،خالد مقبول
  • ڈھکن تو سب ہٹائے جائیں گے
  • پشاور رنگ روڈ پرپی ٹی آئی کارکنان کی گاڑی کو حادثہ؛ ایک جاں بحق، 3زخمی ہوگئے
  • صدر ٹرمپ کو امن ایوارڈ دینے کے بعد فیفا کی سیاسی غیر جانبداری پر سوالات کھڑے ہوگئے
  • رائے ونڈ روڈ پر برات سے واپس آنے والی مزدا بس منی ٹرک سے ٹکرا گئی
  • کراچی کے بعد حیدرآباد میں بھی خونی ڈمپر شہریوں کو کچلنے لگے
  • بھارت کوجنگ کی دعوت دینے والے ہرگز ملک کے خیر خواہ نہیں:غزالہ انجم 
  • فلسطینیوں کی جبری بیدخلی کسی صورت قابلِ قبول نہیں؛ مسلم ممالک یک زباں ہوگئے
  • گوجر خان، شادی کی تقریب میں فائرنگ سے 2افراد جاں بحق