ترمیم کے ذریعے پوری سپریم کورٹ کے اختیار واپس لے لئے جائیں سنے گی وہی : جسٹس جمال
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ آئینی بنچ میں زیر سماعت چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں میں وکیل خواجہ احمد حسین نے معاملہ فل کورٹ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دینے کی استدعا کردی۔ کہا یہ بنچ چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستیں نہیں سن سکتا۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کیا آپ اس بنچ پر اعتماد نہیں کررہے؟۔ اگر ہم کیس نہیں سن سکتے تو فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟۔ سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بنچ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت افراسیاب خٹک کے وکیل خواجہ احمد حسین روسٹرم پر آئے اور فل کورٹ کے سامنے معاملہ سماعت کیلئے مقرر کرنے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ 191 اے پر فیصلہ اوریجنل فل کورٹ کی جانب سے ہونا چاہیے اور میں نہیں کہہ رہا کہ یہ بنچ آزاد نہیں۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے آپ نے ہی کہا کہ کیس دوسرے آزاد بنچ کے سامنے جانا چاہیے، کیا ہم ججز بھی اس آزاد بنچ کا حصہ ہوں گے؟۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کیا چیف جسٹس اس آزاد بنچ کا حصہ ہوں گے؟۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ چیف جسٹس بالکل اس بنچ کا حصہ ہوں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا اگر ہم کیس نہیں سن سکتے تو حکم کیسے دے سکتے ہیں؟۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے موقف اپنایا عدالت حکم کیلئے راستہ کیوں مانگ رہی ہے؟۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہر وکیل کا اپنا موقف ہے، ہم آئین پڑھ کر سوال کررہے ہیں۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کچھ وکلاء نے تو کہا ترمیم کو ایک سائیڈ پر رکھ دیں۔ دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے اگر سولہ ججز آتے ہیں تو کیا وہ ریگولر بنچ بن جائے گا؟۔ خواجہ حسین احمد نے کہا جی بالکل وہ آئینی بنچ نہیں رہے گا۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے آرٹیکل 191 اے ون کو 191 اے تھری کے ساتھ ملا کر پڑھیں، ان آرٹیکل میں کوئی قدغن نہیں ہے، یہ پروسیجرل آرٹیکلز ہیں، یہ آرٹیکل بنچز پر تو قدغن لگاتے ہیں، لیکن سپریم کورٹ پر نہیں۔ ہم ان آرٹیکلز کو ایسے پڑھ رہے ہیں جیسے یہ آرٹیکل مکمل طور پر قدغن لگاتے ہیں، قدغن کہاں ہے؟۔ کیا ہم ان کی تشریح یوں کر سکتے ہیں کہ فل کورٹ معاملہ سن سکتا ہے؟۔ خواجہ احمد حسین نے موقف اختیار کیا کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ کے ہاتھ بندھے ہیں تو ایسا نہیں ہے، ایسا کہیں نہیں لکھا کہ ایک آئینی بنچ فل کورٹ کو معاملہ ریفر نہیں کرسکتا۔ جسٹس جمال مندو خیل نے سوال کیا کہ یعنی ہم اس کیس کو کسی ریگولر یبنچ کو نہیں بھجوا سکتے لیکن فل کورٹ کو بھجوا سکتے ہیں؟۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے تو پھر تو وہ ریگولر ہی ہوگیا ناں، انہوں نے کہا تھا سولہ رکنی بنچ ریگولر ہوگا۔ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ آپ کے اختیارات آپ سے چھین نہیں لیے گئے، کل 27ویں ترمیم میں پارلیمنٹ فیصلہ کرتی ہے کہ سپریم کورٹ کے اوپر ایک ایگزیکٹو افسر بیٹھے گا، کیا آپ لوگ اس فیصلے کو دیکھ نہیں سکیں گے؟ بالکل دیکھ سکیں گے۔ آپ کہہ رہے ہیں راستہ دکھائیں، میں کہہ رہا ہوں کہ راستہ موجود ہے۔ میری رائے کے مطابق تو اس ترمیم کو پاس کروانے کا پروسیجر ہی فالو نہیں ہوا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے یہ سوال میرٹ پر دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل سے پوچھا جاسکتا ہے۔ جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیئے آپ اپنی اس درخواست کے ذریعے مرکزی ریلیف مانگ رہے ہیں۔ خواجہ احمد حسین نے کہا میری درخواست میں 26ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا نہیں ہے، یہ معاملہ فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کی استدعا ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا فرض کریں کہ کسی ترمیم کے ذریعے پوری سپریم کورٹ کے اختیارات لے لیے جاتے ہیں پھر کون سنے گا؟ وہی سپریم کورٹ سنے گی، بے شک اختیارات لے لیے جائیں لیکن سنے گی وہی۔ یہ باتیں ہوئی ہیں کہ چونکہ آئینی بنچ چھبیسویں آئینی ترمیم کا نتیجہ ہے تو اس لیے کیس نہیں سن سکتا۔ وکیل احمد حسین نے کہا کہ یہ بنچ سپریم کورٹ کا حصہ ہے لیکن سپریم کورٹ اپنی جگہ موجود ہے، ایسی کوئی قدغن نہیں کہ آپ معاملہ فل کورٹ کو ریفر نہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ حتمی فیصلہ کریں، بس معاملہ فل کورٹ کو ریفر کردیں، آپ کے پاس آرڈر جاری کرنے کا اختیار ہے، اپنے اس اختیار کو کم مت سمجھیں۔ خواجہ احمد حسین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک کیلئے ملتوی کردی۔آج ایڈووکیٹ شاہد جمیل دلائل کا آغاز کریں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ٹنڈو جام ٹول پلازہ ،عوام کو تنگ کرنے کیلیے ای چلان شروع
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹنڈوجام(نمائندہ جسارت)ٹنڈوجام ٹول پلازہ کی انتظامیہ کو عوام کو تنگ کرنے کے لیے ای چلان شروع کر دیاٹول پلازہ کے قریب بڑی تعداد میں دیہات موجود ہیں جنھیں سپریم کورٹ نے ٹول فری قرار دیا تھا لیکن ٹول انتظامیہ زبردستی ان ٹول وصول کر نے پر عوام مشتعل ہو گئی تھی تفصیلات کے مطابق ٹنڈوجام ٹول پلازہ کی انتظامیہ نے نئے سال کی آمد سے قبل ہی ٹنڈوجام کی عوام کو نئے سال کا تحفہ دیتے ہوئے ای چلان کرنے کی کوشخبری سنائی ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے حیدرآباد میرپور خاص ہائے سے شروع کیا جارہا ہے جب کہ اس ہائے پر جو ڈوک جی کمپنی جس نے اس سڑک کا بنایا ہے اس نے ابھی تک اس کا پندرہ سال کے قریب عرصہ گزرنے کے باوجود بائی پاس مکمل نہیں کیا نہ وعدے کے مطابق ایمرجنسی یا حادثے کی صورت میں اسپتال بنانے کا کہا گیا تھا اسے بھی نہیں بنایا گیا ہے جب ٹنڈوجام کے سماجی رہنما اور خود پیپلزپارٹی کے سابق جنرل سیکرٹری تعلقہ حیدرآباد میر شیر محمد تالپور اس ٹول پلازہ کے خلاف سپریم کورٹ گئے تھے کہ ضلع حیدرآباد میں ایک سو پینٹھ کلو میر جو ایک ٹول پلازہ سے دوسرے کا فاصلہ ہوتا اس کا خیال نہیں رکھا گیا اسے حیدرآباد ضلع کی حدود کے اختتام پر بنناتھا لیکن اسے پہلے ٹول پلازہ سے صرف بیس سے پچیس کلومیڑ کے فاصلے پر بنا دیا گیا اور پھر مقامی آباد جس کا منٹ منٹ میں اس پر گزر ہوتا ہے اس سے ٹول لینا طاقت کی بل پر شروع کردیا جس پر سپریم کورٹ نے تین سال قبل ٹول انتظامیہ کو مقامی آباد سے ٹول لینا منع کر دیا اور ٹنڈوجام شہر کے لیے پندہ روپے مقرر کیے لیکن اسی ہفتے ٹول انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو دردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے مقامی آباد سے زبردستی ٹول لینا شروع کردیا اور ٹنڈوجام کے ٹول میں پانچ روپے کا اضافہ کرکے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی جس پر مقامی آباد ی شدید مشتعل ہو کر ٹول پلازہ پر تین گھنٹے دھرنا دیا جس پر انتظامیہ نے مذکرات کرکے اس دھرنے کو ختم کرایا لیکن سہولتوں کے فقدان کے باجود اور یہ جاننے کے باوجود کے ٹول پلازہ ایک دیہی علاقے میں قائم کیا گیا ہے اور اس کے اردگر سینکڑوں دیہات ہیں جو صبح سویر دودھ کی سپلائی کرتے ہیں مارکیٹ سبزیاں پہنچاتے ہیں گھاس جانوروں کے لیے لاتے ہیں ان کا ای چلان والی شرائط پر پورا اترنا ناممکن ہو گا ٹول انتظامیہ اپنے قیام کے دن سے مقامی آبادی کو تنگ کرنے میں مصروف ہے اب اس نے یہ ای چلان کے نام پر مقامی آبادی سے لوٹ مار کا نیا سلسلہ شروع کردیا ہے لیکن افسوسناک بات جس ہائے پر کام ہی مکمل نہیں تو حکومت سندھ نے اس پر ای چلانا لینے کی اجازت کس طرح دی ہے مقامی آباد ی اور عوام سمجھ چکی ہے کہ صرف ٹول انتظامیہ اس علاقے اپنا غلام بنانا چاہتی ہے اسی وجہ وہ عوام کے اس سے پیدا ہونے والے مسائل کے بجائے ابھی تک ٹول پلازہ کی انتظامیہ کی سرپرست بنی ہوئی ہے ٹول انتظامیہ لنک روڑ پر بھی ناکہ لگا کر بیٹھی ہے اور سیشن کورٹ کے فیصلے کو بھی اس نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے یہ پاکستان کا وحد ٹول پلازہ ہے جیسے نہ سپریم کورٹ کے حکم کی پراو ہے اور نہ سیشن کورٹ کی اس کے اپنے قانون اور اپنا حکم ہے جیسے حکومت کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے۔