Express News:
2025-10-24@23:55:15 GMT

افغان پالیسی حقائق پر استوار کریں

اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT

قیامِ پاکستان سے لے کر افغانستان کا ایک تاریخی کردار رہا ہے۔ہمارے اس ہمسایہ ملک نے کبھی پاکستان کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے موقع پر وہ واحد ووٹ جو پاکستان کی مخالفت میں پڑا،وہ افغانستان کا ہی تھا۔ مخالفت کے اس ووٹ سے پاکستان کے بارے میں افغان سوچ کا پتہ چلتا ہے۔

1950میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر جناب مولوی تمیز الدین نے لندن میں برٹش پارلیمنٹ کے نئے اجلاس کے موقع پر اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ افغان حکومت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شورش پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔

اس موقع پر انھوں نے قبائلی علاقوں کے سرداروں اور ملکوں کی بے حد تعریف کی کہ وہ افغان حکومت کے جھانسے میں نہیں آ رہے۔دو سپر پاورز کے افغانستان پر حملے کی وجہ سے جب افغانستان کے وجود کو خطرہ درپیش ہوا تو پاکستان،افغانستان کے ساتھ کھڑا ہوا۔۔افسوس کی بات ہے کہ افغانوں کو جب بھی موقع ملا وہ پاکستان کے خلاف صف آرا ہوتے ہوئے ہندوستان کے اشاروں پر ناچنے لگے۔

موجودہ افغان قیادت میں سے اکثریت پاکستان کے مدرسوں میں پڑھتی رہی۔ان کے خاندانوں نے ایک لمبا عرصہ پاکستان میں قیام کیا اور کچھ تو اب بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔افغانوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہ ہوئی۔اس سب کے باوجود طالبان قیادت اور افغان عوام پاکستان سے نفرت کا اظہار کرنے سے ذرا برابر بھی نہیں چوکتے۔ افغان وزیرِ خارجہ امیر متقی کا خاندان پاکستان میں ہے۔اس کا ایک بھائی اپنی فیملی کے ساتھ کوئٹہ میں ایک مدرسہ چلا رہا ہے۔امیر متقی کا دوسرا بھائی گوجرانوالہ میں کاروبار کرتا ہے۔

خود وزیرِ خارجہ امیر متقی نے کراچی بنارس کالونی میں ایک بڑی جائیداد بنائی ہے۔یہ بھی شنید ہے کہ اس کے دونوں بھائیوں نے امیر متقی کا کالا دھن سفید کیا ہے۔افغان وزیرِ دفاع ملا یعقوب بھی تیس چالس سال کوئٹہ کے نواح میں مقیم رہے ہیں۔ 

ایک تہذیب یافتہ،اچھی نیچر والا انسان اگر کسی کے ہاں ایک دن پناہ لے لے تو زندگی بھر احسان مند رہتا ہے لیکن افغان چھیالس سال تک پاکستان میںپناہ گزین رہ کر بھی پاکستان کے دشمن اور ہندوستان کی محبت سے سرشار رہے۔افغانوں کو جو مراعات مملکتِ خداداد پاکستان نے دیں وہ کبھی کسی دوسرے ملک میں غیر ملکیوں کو نہیں ملیں۔کیا وقت نہیں آ گیا کہ پاکستان اپنی گذشتہ فلاڈ افغان پالیسی کو ناکام سمجھتے ہوئے اس پر نظر ثانی کرے اور حقائق کی روشنی میں ایک ایسی واضح پالیسی اپنائی جائے ۔ساتھ ہی پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہنے والوں کو جلد از جلد پاکستان چھوڑنے کا پابند کیا جائے۔

 دوحہ میں ترکی اور قطر کے تعاون سے ہونے والے مذاکرات میں جنگ بندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے۔اصل میں کیا ہوا پاکستان کے عوام نہیں جانتے کیونکہ کسی بھی پاکستانی حکومت نے کبھی عوام کو صحیح صورتحال سے آگاہ رکھنا مناسب نہیں جانا۔خدا کرے کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر امن ہو جائے اور افغان طالبان حکومت پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیاں بند کر دے لیکن ایسا ہونا مشکل ہے۔

تحریکِ طالبان پاکستان،افغان طالبان کے شانہ بشانہ امریکا اور نیٹو افواج کے خلاف بر سرِپیکار رہے ہیں۔ٹی ٹی پی کے کارپردازوں نے افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہوتی ہے۔دونوں طالبان گروپوں کی آپس میں آئیڈیالوجیکل وابستگی،ہم آہنگی ہے ۔افغان طالبان اور ٹی ٹی پی،پاکستانی مدرسوں میں ایک ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔افغان طالبان،تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف اس لیے بھی کوئی کاروائی نہیں کرتے کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ داعش یا آئی ایس آئی ایس سے نہ جا ملیں۔پہلے ہی ٹی ٹی پی کے چند جنگجو گروپ ایسا کر چکے ہیں۔

15اگست2021کو جب افغان طالبان بر سرِاقتدار آئے تو پاکستان کو اندیشہ تھا کہ افغان طالبان،پاکستان کے امن کو نقصان پہنچائیں گے۔ اس وقت کابل میں پاکستانی سفیر جناب منصور نے اس اندیشے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہم نے طالبان قیادت سے اس خدشے کا اظہار کیا تھا۔

افغان طالبان نے پاکستان کو یقین دلوایا کہ فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔وقت نے ثابت کیا کہ افغان احسان فراموش اور وعدہ خلاف ہیں۔اس کا اندازہ اس بات سے لگتا ہے کہ افغان طالبان کے دوسرے دور میں اب تک پاکستان اور افغانستان کے مابین اختلافات دور کرنے کے لیے 200 سے زائد بارڈر فلیگ اسٹاف میٹنگ ہو چکی ہیں، پاکستان کی طرف سے افغانستان کو 800سفارتی احتجاجی مراسلے تھمائے جا چکے ہیں۔180ڈیمارش جاری کیے گئے ہیں۔پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی نے 200میموز ایشو کیے ہیں۔ہمارے وزیرِ خارجہ 5مرتبہ کابل جا چکے ہیں۔چین نے درمیان میں پڑ کر تین مرتبہ کوشش کر دیکھی ہے کہ افغان طالبان حکومتِ پاکستان سے تعاون کریں لیکن یہ ساری کوششیں رائیگاں ہی گئی ہیں۔

خطے کا بڑا ملک ہندوستان اس وقت مشکل میں ہے۔اس کی اپنی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کی وجہ سے سارے ساؤتھ ریجن میں کوئی ملک بھی اس کا دوست نہیں رہا۔ہندوستان باقی ممالک کو تو کسی خاطر میں نہیں لاتا لیکن پاکستان سے ڈرتا ہے۔پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے ہندوستان نے پچھلے دو اڑھائی سال میں افغان طالبان حکومت پر بہت انویسٹ کیا ہے۔ہندوستان چاہتا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کی جانب سے خطرہ رہے تاکہ پاکستان کو مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں کی فکر رہے۔

افغانستان میں ہندوستانی را کے نیٹ ورک کو ایرانی چاہ بہار بندرگاہ سے بہت سپورٹ مل رہی تھی لیکن ایرانی شاید سمجھ گئے ہیں اور اب انڈیا کو اس بندرگاہ کو مضموم مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنے دے رہے۔انڈیا اب افغانستان کی پاکستان کے خلاف صرف فنڈنگ کرسکتا اور ایڈ وائزر بھیج سکتا ہے،باقی کچھ زیادہ نہیں کرسکتا۔مئی 2025میں پاکستان کے ہاتھوں ہزیمت اُٹھانے کی وجہ سے ہندوستان کی شدید ترین خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو نیچا دکھائے لیکن ان شاء اﷲ اپنے زخم ہی چاٹتا رہے گا اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔اگر افغان حکومت انڈیا کی گود میں نہ بیٹھے تو یہ پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

افغان طالبان کو اقتدار سنبھالے چار سال ہو گئے ہیں ۔ ابھی تک افغانستان میں نہ تو انتخابات ہوئے ہیں اور نہ ہی لویہ جرگہ منعقد ہوا ہے،اس لیے موجودہ افغان حکومت کو افغان عوام کی نمایندہ حکومت نہیں کہا جا سکتا۔قطر میں مذاکرات میں سیز فائر کو جاری رکھنے اور 25اکتوبر کو استنبول میں ملنے پر اتفاق ہوا ہے۔

دورانِ مذاکرات افغان انٹیلی جنس چیف نے تلخی سے بات کی لیکن ملا یعقوب نے تسلیم کیا کہ وہ اور ان کی فیملی ایک لمبا عرصہ کوئٹہ پاکستان میں مقیم رہے۔جب ان کو پاکستانی وفد نے وڈیوز دکھائیں جن میں کابل میں ہندوستانی سفارتی مشن سے کرنسی بھرے صندوق افغان اتھارٹیز کے سپرد ہوتے دیکھا جا سکتا ہے تو افغان لہجے میں نرمی آ گئی۔یہ بات عیاں ہے کہ افغانوں کو جہاں سے پیسہ اور فائدہ نظر آتا ہے ادھر لپکتے ہیں۔ٹی ٹی پی ان کے ہاتھ میں پاکستان کو بلیک میل کرنے کا ایک بہانہ اور ہتھیار ہے۔

وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ یہ ہتھیار نہ رہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ بہت لمبے عرصے بعد پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت افغانستان کے مسئلے پر صاف ذہن کے ساتھ یکسو نظر آتی ہے اور دراندازی ختم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اب ایک ہارڈ ریاست کے طور پربرتاؤکرے گا اور مزید Exploit نہیں ہو گا۔ افغانستان کے حملے کے جواب میں پاکستان کے جوابی حملے نے افغان طالبان کے اوسان خطا کر دئے اور سندور2بھی ناکام ہو گیا۔ طاقت کا مظاہرہ امن لاتاہے ۔شاید افغانستان کے متعلق یہی صحیح اپروچ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف افغان طالبان کے افغانستان کے میں پاکستان بھی پاکستان پاکستان میں افغان حکومت ہے کہ افغان کہ پاکستان پاکستان سے پاکستان کو پاکستان کی اور افغان کی وجہ سے ٹی ٹی پی رہے ہیں میں ایک کے لیے

پڑھیں:

کابل کو شدت پسندوں کو روکنا ہوگا تبھی جنگ بندی برقرار رہ سکے گی، وزیردفاع

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان طے پانے والی جنگ بندی کا انحصار اس بات پر ہے کہ حاکم طالبان انتظامیہ افغانستان میں موجود ایسے شدت پسند عناصر کو روکے جو سرحد پار کر کے پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف کی خفیہ ملاقات، فیلڈ مارشل کی امریکا میں کھڑے ہو کر بھارت کو وارننگ

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ دونوں ہمسایہ ممالک نے دوحہ میں جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، مگر اس معاہدے کی بنیاد یہی شرط ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے کسی بھی قسم کی دراندازی نہ ہو۔ اگر افغانستان کی طرف سے کچھ بھی آئے گا تو وہ معاہدے کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ سب کچھ اسی شق پر منحصر ہے۔

انہوں نے کہا کہ تیز رفتار سرحدی جھڑپوں اور فضائی کارروائیوں کے بعد یہ معاہدہ طے پایا، جو پچھلے برسوں میں حاکم طالبان کے اقتدار کے بعد ہونے والی بدترین کشیدگی ہے، وزیر دفاع نے کہا کہ تحریکِ طالبانِ پاکستان سمیت مختلف جماعتیں افغانستان سے کارروائیاں کر رہی ہیں، اور اسلام آباد کا مطالبہ تھا کہ کابل انہیں پناہ گاہیں نہ دے۔

یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کے لیے کسی قسم کی لچک قابلِ برداشت نہیں، وزیردفاع کا افغانستان کو واضح پیغام

وزارتِ دفاع افغانستان اور طالبان حکومت کی جانب سے فوری طور پر اس حوالے سے رائے نہیں موصول ہوئی۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دوحا مذاکرات میں فیصلہ ہوا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف دشمنانہ کارروائیاں نہیں کریں گے اور کسی بھی ایسے گروپ کی حمایت نہیں کی جائے گی جو پاکستان کے خلاف سرگرم ہو،تاہم ان بیانات کو مشترکہ اعلامیہ قرار نہیں دیا گیا۔

وزیر دفاع نے خبردار کیا کہ کابل ‘نو گو ایریا’ نہیں ہے اور جہاں بھی شدت پسند ہوں، پاکستانی افواج کارروائی کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جواب میں فضائی کارروائیاں بھی کی ہیں اور جہاں دشمن ہیں وہاں انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: جن افغانوں کو ہم نے پناہ دی آج وہی بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کیخلاف پروپیگینڈا کررہے ہیں، خواجہ آصف

اگلے مذاکراتی مرحلے کا انعقاد 25 اکتوبر کو استنبول میں متوقع ہے جس کا مقصد معاہدے کے نفاذ اور اس کے نفاذ کے طریقہ کار تیار کرنا ہے۔ میزبان ممالک قطر اور ترکی نے کہا ہے کہ فالو اپ اجلاس معاہدے کی پائیداری اور اس کے نفاذ کی جانچ پڑتال کے لیے ضروری ہیں۔

معاہدے کے تحت واضح طور پر کہا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے کسی قسم کی دراندازی نہیں ہو گی اور اگر یہ شرط برقرار رہی تو جنگ بندی برقرار رکھی جا سکے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news افغانستان پاکستان جنگ بندی خواجہ آصف وزیردفاع

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان جنگ بندی کا مستقبل؟
  • پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور کل ہو گا
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کل ہونگے، افغان طالبان ہمارے خدشات دور کریں، دفتر خارجہ
  • پاکستان، افغانستان اور مستقبل کے امکانات
  • پاک افغان جنگ بندی، مضمرات
  • بھارت اور افغان طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے
  • افغان وزیر خارجہ کے دورے کے بعد بھارت کا کابل میں سفارت خانہ بحال
  • کابل کو شدت پسندوں کو روکنا ہوگا تبھی جنگ بندی برقرار رہ سکے گی، وزیردفاع
  • افغان دہشت گردی کا مؤثر جواب