ایران میں حکومت کی تبدیلی کا خواب
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: سیترینووِچ اس وقت صہیونی تحقیقی ادارے آبا اِیبان انسٹی ٹیوٹ میں سینئر ریسرچ افسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی فارسی (برطانوی حکومت کے زیرِ انتظام میڈیا) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی قیادت نے ایران کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے اور یہ سمجھ لیا تھا کہ چند فضائی حملے ایرانی حکومت کو گرا سکتے ہیں، ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے اسرائیل میں کوئی حقیقت پسند نہیں۔ خصوصی رپورٹ:
ایران اور اسرائیل کی جنگ کے بعد اپنے تجزیئے میں خود سابقہ اعلیٰ اسرائیلی سیکورٹی عہدیدار نے کہا ہے کہ اسرائیل 12 روزہ جنگ میں شکست کھا چکا ہے اور ایران میں حکومت کی تبدیلی محض خواب ہے۔ اسرائیلی فوج کے انٹیلی جنس مرکز کے سابق سربراہ برائے تحقیق و تجزیہ میجر (ریٹائرڈ) ڈینی سیترینووِچ نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل 12 روزہ جنگ میں ایران کے خلاف شکست سے دوچار ہوا۔ انہوں نے بیرونِ ملک مقیم ایرانی اپوزوزیشن اور ایران میں حکومت کی تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کے متعلق مکمل مایوسی کا اظہار کیا۔
سیترینووِچ اس وقت صہیونی تحقیقی ادارے آبا اِیبان انسٹی ٹیوٹ میں سینئر ریسرچ افسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی فارسی (برطانوی حکومت کے زیرِ انتظام میڈیا) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی قیادت نے ایران کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے اور یہ سمجھ لیا تھا کہ چند فضائی حملے ایرانی حکومت کو گرا سکتے ہیں، ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے اسرائیل میں کوئی حقیقت پسند نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 12 روزہ جنگ کے دوران ہم نے سمجھا کہ صرف فضائی بمباری سے ایران کی حکومت کو بدلا جا سکتا ہے، مگر نتیجہ بالکل الٹا نکلا، ایران نے اسی جنگ کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس سابقہ اسرائیلی انٹیلی جنس عہدیدار نے مزید کہا کہ ایران میں کوئی حقیقی اپوزیشن موجود نہیں اور بیرون ملک مقیم مخالفین بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں، میں رضا پہلوی کو ایسا شخص نہیں سمجھتا جو ایران واپس جا کر حالات پر قابو پا سکے۔
صہیونی تحقیقی ادارے کا دعویٰ:
انہوں نے ایک تو یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ 12 روزہ جنگ نے واضح کر دیا کہ ہم باہر سے ایران کی حکومت کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ دوسرا ان کا کہنا ہے کہ اتنے فاصلے سے 950 ایرانی میزائل بھی اسرائیل پر گرے۔ اسی تناظر میں اسرائیلی ادارہ انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز (INSS)” کی مبینہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں اسرائیل کو متعدد محاذوں پر بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سال کی جنگوں میں 1,986 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں 919 فوجی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں غزہ محاذ پر ہوئیں، جہاں 1,724 افراد مارے گئے۔
55 اسرائیلی گرفتار یا لاپتہ ہوئے، جن میں سے 13 کی لاشیں اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ 30,135 اسرائیلی زخمی ہوئے، اور 164,500 افراد کو اپنے گھروں سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا، جن میں سے 74,600 غزہ کے اطراف کے رہائشی تھے۔ غزہ سے اسرائیل کی سمت 51 ڈرون داغے گئے، اور اسرائیلی فوج نے جنگ کے دوران 3 لاکھ ریزرو فوجی بلائے۔ مجموعی طور پر 37,500 راکٹ اور میزائل اسرائیل پر فائر کیے گئے، جن میں سے 10,200 صرف غزہ سے تھے۔
مغربی کنارا اور بیت المقدس: 76 اسرائیلی ہلاک اور 565 زخمی ہوئے، جن میں 32 فوجی شامل تھے۔ اسرائیلی فوج نے 129 فضائی حملے کیے اور جنین و طولکرم کے کیمپوں کو تباہ کیا یا خالی کروایا۔ مجموعی طور پر 15,456 گرفتاریاں ہوئیں اور 10,496 آپریشنز کیے گئے، جن میں ہزاروں پتھراؤ اور آتش گیر بموں کے واقعات شامل تھے۔
ایرانی محاذ: رپورٹ کے مطابق جون 2025 کی مختصر جھڑپوں کے دوران 950 ایرانی میزائلوں کے نتیجے میں 33 اسرائیلی ہلاک اور 3,550 زخمی ہوئے۔
لبنانی محاذ: حزب اللہ کی راکٹ اور ڈرون حملوں میں 132 اسرائیلی مارے گئے، 17,300 راکٹ اور 593 ڈرون فائر کیے گئے، جبکہ 68,500 شمالی اسرائیلی باشندے بے گھر ہوئے۔
یمنی محاذ: یمن کی جانب سے داغے گئے 500 میزائل و ڈرون میں سے 70 میزائل اور کئی ڈرون اسرائیل کے اندر گرے، جن کے نتیجے میں کم از کم ایک اسرائیلی ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان حملوں سے ایلات بندرگاہ کی 80 فیصد سرگرمیاں متاثر ہوئیں، جس کے جواب میں اسرائیل نے 19 حملے یمن پر کیے اور 90 اہداف کو نشانہ بنایا۔
یہ رپورٹ مجموعی طور پر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اسرائیل متعدد محاذوں پر بیک وقت دباؤ کا شکار ہے، اور اندرونی طور پر بھی اس کے سیکورٹی ماہرین اعتراف کر رہے ہیں کہ ایران کے خلاف جنگی یا نفسیاتی حکمتِ عملی ناکام ہو چکی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی ہلاک کہ اسرائیل زخمی ہوئے ایران میں ایران کے حکومت کو انہوں نے
پڑھیں:
غزہ امن منصوبہ کے حوالے سے بزرگ عالم دین علامہ عابد الحسینی کا خصوصی انٹرویو
اسلام ٹائمز کے ساتھ اپنی خصوصی گفتگو کے دوران سابق سینیٹر نے کہا کہ اسرائیل پر دنیا کا کوئی قانون لاگو نہیں، کیونکہ اسے دنیا کی بااثر طاقتوں کی فل سپورٹ حاصل ہے۔ انکی شہہ پر وہ ہر قانون کو چیلنج کرتا ہے۔ چنانچہ جنگ بندی کے بعد جب انکے قیدی رہا ہوگئے تو اس نے بے گناہ شہریوں پر پھر سے بمباری شروع کی۔ حالانکہ عام شہریوں پر بمباری کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، مگر اسرائیل کو اس قانون سے مکمل چھوٹ حاصل ہے۔ چنانچہ جب وہ دیکھتا ہے کہ اسے ڈانٹنے او روکنے والا کوئی نہیں تو وہ اپنی پالیسی کے تحت سو جرائم اور زیادتیاں کرے گا۔ علامہ سید عابد الحسینی کا شمار ملک کے بزرگ، جید اور برجستہ علماء میں کیا جاتا ہے۔ سیاسی طور پر نہ صرف علاقائی بلکہ ملکی سطح پر فعال کردار کے حامل رہے ہیں۔ 1984ء سے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ جبکہ 1988ء کے بعد تحریک جعفریہ پاکستان میں صوبائی صدر اور مرکزی سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک جعفریہ پاکستان کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 20 مارچ 1997ء میں تحریک جعفریہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، اسی دوران شورائ وحدت اسلامی کے مرکزی سیکریٹری جنرل چنے گئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کرم نیز ملکی سطح پر حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے غزہ میں اسرائیلی بربریت اور غزہ کی اس المناک صورتحال میں دو ارب مسلمانوں کے مشکوک کردار کے حوالے سے انکے ساتھ خصوصی گفتگو کی ہے، جسے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: علامہ عابد الحسینی صاحب سے پہلا سوال یہ ہے کہ غزہ امن معاہدے کے حوالے سے اپنا موقف پیش کریں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: شروع ہی میں جس دن صلح کا متن منظر عام پر آیا، میں نے اپنے ایک بیان میں اس پر اپنا موقف پیش کیا تھا کہ یہ صلح اسرائیل کے مفادات کے لئے کی گئی ہے۔ عربوں اور دیگر اسلامی ممالک خصوصاً ایران سے اسرائیل کی حفاظت اور دفاع کی ضمانت لی گئی ہے اور یہ کہ اسرائیل اپنے قیدی چھڑوانے کے بعد اسے کون پابند کرسکتا ہے۔ اگر آپ امریکہ یا ٹرمپ سے یہ توقع رکھتے ہیں تو یہ خام خیالی ہے، کیونکہ وہی مجرم، وہی منصف۔ چنانچہ عرض کروں کہ یہ صلح یا اسرائیل کے نام پر کوئی بھی صلح خصوصاً جس میں خود دنیا کا سب سے بڑا دہشتگرد امریکہ ثالث ہو، کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اسلام ٹائمز: حماس کو غیر مسلح کرنا، اسی طرح حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے پر مبنی اسرئیل کے مطالبے کے علاقے پر کیا مثبت یا منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: اسرائیل کی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسی کا سب کو علم ہے۔ اپنے ناجائز آغاز ہی سے اس نے ارد گرد ریاستوں پر جارحیت اور قبضہ کیا ہے۔ اردن، مصر، لبنان اور شام کی سرحدیں انکے ساتھ لگی ہیں۔ ان میں کسی کو بھی معاف نہیں کیا ہے۔ حالانکہ کوئی بھی ملک یا قوم جب خود کو دشمن سے غیر محفوظ تصور محسوس کرتی ہے، تو اس کے مقابلے کیلئے تیاری کرتی ہے۔ حتی کہ اگر کوئی اپنے دشمن کو ایٹمی ہتھیار سے مسلح پاتا ہے تو مقابلے میں وہ بھی اسی طرح تیاری کرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اسرائیل کے ارد گرد موجود اس کی اور امریکہ کی نوکر سلطنتیں خود ناامیدی کی زندگی بسر کرتی ہیں، جبکہ اسرائیل کے ظلم سے نجات اور چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے کچھ گروپوں نے مزاحمت شروع کی۔
ان کی پالیسی کبھی بھی جارحانہ نہیں رہی ہے، بلکہ وہ صرف اپنے جائز حقوق مانگتے ہیں۔ اپنی سرزمین واگزار کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اپنے قیدی چھڑوانے کی بات کرتی ہیں۔ مگر مغربی دنیا، امریکہ اور اسرائیل تو کیا خود عرب دنیا بھی انہیں دہشتگرد قرار دے رہی ہے اور انہیں غیر مسلح کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں اپنا اسلحہ جمع کرتی ہیں یا نہیں۔ یہ فیصلہ تو وہی کریں گے۔ تاہم اگر یہ تنظیمیں درمیان سے چلی گئیں تو پوری امت مسلمہ خصوصاً عالم عرب اسرائیل کے سامنے بالکل بے بس ہو جائے گا اور پھر وہ جو بھی مطالبہ کرے، یہ لوگ بلا چوں و چرا تسلیم کرلیں گے۔
اسلام ٹائمز: مغربی کنارے پر قبضے کے حوالے سے اسرائیل کے نئے اعلان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: جیسے پہلے ہی عرض کر دیا کہ اسرائیل پر دنیا کا کوئی قانون لاگو نہیں، کیونکہ اسے دنیا کی بااثر طاقتوں کی فل سپورٹ حاصل ہے۔ ان کی شہہ پر وہ ہر قانون کو چیلنج کرتا ہے۔ چنانچہ جنگ بندی کے بعد جب ان کے قیدی رہا ہوگئے تو اس نے بے گناہ شہریوں پر پھر سے بمباری شروع کر دی۔ حالانکہ عام شہریوں پر بمباری کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، مگر اسرائیل کو اس قانون سے مکمل چھوٹ حاصل ہے۔ چنانچہ جب وہ دیکھتا ہے کہ اسے ڈانٹنے او روکنے والا کوئی نہیں تو وہ اپنی پالیسی کے تحت سو جرائم اور زیادتیوں کرے گا۔ تاکہ لوگ جب جارحیت روکنے کا مطالبہ کریں گے، تو یہ پچاس کو روک کر ان کا منہ بند کرے گا۔ چنانچہ مغربی کنارہ پر قبضہ بھی اسی پالیسی کا حصہ ہے کہ جب ثالثین یا فریق مقابل جب مطالبہ کرے تو ان کا کوئی ایک مطالبہ منظور کرکے ان پر احسان جتانے کے علاوہ اپنا مقصد بھی نکالیں گے۔
اسلام ٹائمز: امن معاہدے کے بعد حماس کا مستقبل آپکو کیسے نظر آرہا ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: عربوں کی یہ حالت رہی کہ وہ حماس کے مقابلے میں اسرائیل اور امریکہ کو سپورٹ کر رہے ہیں اور اس حالت میں جبکہ عربوں اور ترکیہ کی سازش سے اسرائیل کے سرحدوں تک ایران کی رسائی کو ختم کر دیا جاچکا ہے، وہاں پر موجود مزاحمتی قوتوں کے لئے کمک اور تعاون کی واحد امید ختم ہوچکی ہے۔ تو ایسی صورتحال میں حماس کا مستقبل نہایت تاریک نظر آرہا ہے اور اس صورتحال کی تمام تر ذمہ داری عرب ممالک پر عاید ہوتی ہے۔
اسلام ٹائمز: اسرائیل اور حماس کے مابین ہونیوالی موجودہ صلح پر ایران مکمل طور پر خاموش ہے، اسکی کیا وجہ ہوسکتی ہے، جبکہ آپ اس صلح کو اسرائیلی فتح قرار دے رہے ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: ایران نے حماس اور فلسطین کی خاطر اپنا مال و دولت، اپنے فوجی اور سیاسی رہنماء قربان کیے۔ اس کی خاطر جنگ میں کود گیا۔ اس دوران فلسطین کے ساتھ نہ ہی ایران کے ساتھ کسی مسلم ملک نے کسی قسم کی کمک کی۔ سب تماشا دیکھتے رہے۔ اب جب خود مدعی اور متعلقہ فریق حماس اور فلسطین نے معاہدے کو قبول کر لیا ہے تو ایران کس بنیاد پر اس کی مخالفت کرے اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ ہمسایہ ممالک اور دیگر اہم اسلامی ممالک اس معاہدے کے حق میں ہیں اور اس کے لئے راہ ہموار کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو ایسی صورت میں ایران کا اس کے خلاف بیان دینا شاید درست نہ ہو۔