سٹیٹ بینک کا شرح سود 11 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
گورنر سٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا، نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھا گیا۔ گورنر سٹیٹ بینک کے مطابق مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں شرح سود کو برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ ملک میں شرح سود 11 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کر دیا گیا۔ گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا، نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھا گیا۔ گورنر سٹیٹ بینک کے مطابق مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں شرح سود کو برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا۔ یاد رہے کہ مالیاتی اداروں کی سروے رپورٹ کے مطابق 85 فیصد شرکاء نے شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا اشارہ دیا تھا، 68 فیصد شرکاء نے رائے دی تھی کہ دسمبر 25ء تک شرح سود کو 11 فیصد سے نہ بڑھایا جائے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 46 فیصد شرکا نے سروے میں یہ بھی کہا کہ جون 2026ء تک پالیسی ریٹ کم ہوکر 10 فیصد تک آنے کی توقع ہے، 27 فی صد افراد نے جون 26ء میں پالیسی ریٹ سنگل ڈیجٹ میں آنے کی اُمید کا بھی اظہار کیا تھا۔ دوسری جانب رپورٹ میں کہا گیا کہ مالیاتی سال 26ء میں اوسط مہنگائی کی شرح 6 سے 7 فیصد کے درمیان رہے گی، دسمبر 25ء تک روپیہ، ڈالر کے مقابلے میں 282 سے 285 روپے کے درمیان رہے گا جب کہ گورنر سٹیٹ بینک رواں مالیاتی سال کی چوتھی مانیٹری پالیسی کا اعلان 15 دسمبر کو کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نئی مانیٹری پالیسی شرح سود کو 11 فیصد گورنر سٹیٹ بینک میں شرح سود کو برقرار رکھنے کا اعلان
پڑھیں:
کراچی چیمبر کا شرح سود برقرار رکھنے کے فیصلے پر اظہار مایوسی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251028-06-27
کراچی (کامرس رپورٹر) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد ریحان حنیف نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود کو گیارہ فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر گہری مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کاروباری اور صنعتی برادری کو ریلیف فراہم کرنے کا ضائع شدہ موقع قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ مہنگائی بڑی حد تک قابو میں ہے اس لیے کاروباری طبقہ کم از کم دو سو بیسز پوائنٹس کی کمی کی توقع کر رہا تھا تاکہ شرح سود کو تقریباً نو فیصد تک لایا جا سکے مگر بدقسمتی سے یہ توقع پوری نہیں ہوئی جو موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں ناقابلِ فہم فیصلہ ہے۔ریحان حنیف نے زور دیا کہ حکومت کو اپنی مالیاتی پالیسی کو خطے کے دیگر ممالک سے ہم آہنگ کرنا چاہیے جہاں شرح سود نمایاں طور پر کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر شرح سود کو نو فیصد تک لانا ممکن نہیں تھا تو کم از کم دس فیصد تک کمی ضرور کی جانی چاہیے تھی۔کے سی سی آئی کے صدر نے بتایا کہ قرضوں کی تقسیم میں توازن قائم نہیں کیونکہ حکومتی قرضے اپنی بلند ترین سطح پر ہیں جبکہ نجی شعبے کو قرضوں کا بہاؤ محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ صورتحال 23 فیصد کی ریکارڈ بلند شرح سے بہتر ہوئی ہے مگر موجودہ 11 فیصد شرح بھی ان کاروباروں کے لیے بوجھ ہے جو بے مثال لاگت کے دباؤ میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے یاد دلایا کہ 2024 کے اختتام پر حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ شرح سود کو سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے گا مگر یہ وعدہ تاحال پورا نہیں کیا گیا۔ اس وعدے کی عدم تکمیل سے کاروباری برادری مایوس ہوئی ہے جو ترقی پر مبنی مالیاتی پالیسی کی امید رکھتی تھی۔ریحان حنیف نے خبردار کیا کہ نجی شعبہ، جو پہلے ہی گیس اور بجلی کے ناقابلِ برداشت نرخوں کے باعث کاروبار کی بڑھتی ہوئی لاگت سے پریشان ہے، مہنگے قرضوں کا بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتا۔ اگر حکومت واقعی صنعتی سرگرمیوں کو بحال کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور برآمدات میں اضافہ چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر شرح سود اور یوٹیلیٹی اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔انہوں نے اختتام پر کہا کہ کاروباری برادری نے مشکل حالات کے باوجود حوصلہ دکھایا ہے، مگر جب تک کاروباری لاگت میں نمایاں کمی نہیں کی جاتی، پاکستان کی معاشی بحالی ایک خواب ہی رہے گی۔