data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پارٹی کے بانی عمران خان کی صحت سے متعلق حالیہ ’افواہوں‘ پر حکومت سے وضاحت طلب کی ہے اور حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ سابق وزیرِاعظم کی اپنے اہلِ خانہ سے ملاقات کا فوری انتظام کیا جائے۔ یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب حالیہ ہفتوں میں عمران خان کی بہنوں کو بارہا ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، جس کے باعث انہوں نے سابق وزیرِاعظم کی موجودگی پر سوالات اٹھائے اور اڈیالہ جیل کے باہر بیٹھ کر احتجاج کیا۔ مزید یہ کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر متعدد اکاؤنٹس نے ان کی ’موت‘ سے متعلق غیر مصدقہ دعوے شیئر کیے ہیں، جنہیں بھارتی میڈیا نے بھی رپورٹ کیا ہے، جمعرات کی صبح ایکس پر ‘عمران خان کہاں ہیں؟’ کا ٹرینڈ بھی چل رہا تھا۔ جمعرات کی صبح ایکس پر جاری ایک بیان میں پارٹی نے کہا کہ عمران خان کی صحت سے متعلق ’قبیح نوعیت کی افواہیں‘ افغان اور بھارتی میڈیا اور غیر ملکی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہیں۔ پارٹی نے مطالبہ کیا کہ موجودہ حکومت اور وزارتِ داخلہ فوری طور پر اس افواہ کی واضح تردید اور وضاحت کریں اور عمران خان اور ان کے اہلِ خانہ کی ملاقات کا فوری انتظام کریں۔ پارٹی نے مطالبہ کیا کہ ریاست کی جانب سے عمران خان کی صحت، سلامتی اور موجودہ حیثیت کے بارے میں باقاعدہ اور شفاف بیان جاری کیا جائے۔ مزید کہا گیا کہ ریاست ان افراد کی تحقیقات کرے، جو حساس نوعیت کی افواہیں پھیلا رہے ہیں اور مطالبہ کیا کہ حقائق قوم کے سامنے پیش کیے جائیں۔ اپنے بیان میں پارٹی نے متنبہ کیا کہ قوم اپنے قائد (عمران خان) کے بارے میں کسی بھی قسم کی بے یقینی برداشت نہیں کرے گی۔ پی ٹی آئی نے کہا کہ عمران کی سیکورٹی، انسانی حقوق اور آئینی حقوق کے تحفظ کی ذمے دار براہِ راست حکومت ہے، پارٹی نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ان افواہوں کا مقابلہ کرنے اور سچ کو سامنے لانے کے لیے ہر قانونی اور سیاسی قدم اٹھائے گی۔ دریں اثناء ، پی ٹی آئی رہنما مہر بانو قریشی (جو سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی بیٹی بھی ہیں) نے ایکس پر کہا کہ عمران خان کی صحت سے متعلق افواہیں تشویشناک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت خان صاحب کی حفاظت کی ذمے دار ہے اور قوم کو آگاہ کرنے کے لیے بیان جاری کرنا اس کا فرض ہے، جہاں تک ان افواہوں کے خاتمے کی بات ہے، سب سے بہترین اور قابلِ اعتماد طریقہ یہ ہے کہ خان صاحب کی بہنوں، وکلا اور پارٹی ارکان کو ان سے ملاقات کرنے دی جائے۔

مانیٹرنگ ڈیسک سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عمران خان کی صحت مطالبہ کیا پی ٹی ا ئی پارٹی نے ایکس پر کیا کہ کہا کہ

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کی منفرد پالیسی

وفاقی وزیر سرمایہ کاری بورڈ نے کہا ہے کہ ریاستی ادارے نقصان میں ہیں اور پیپلز پارٹی کی پالیسی کے باعث نجکاری کا عمل آگے نہیں بڑھ رہا۔ پیپلز پارٹی نجکاری کے خلاف ہے اگر پی پی کو ناراض کیا جائے گا تو حکومت نہیں رہے گی۔

وفاقی وزیر کے اس بیان سے نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کی نجکاری میں رکاوٹ اور تاخیر کی وجوہات سامنے آگئی ہیں اور واضح ہو گیا ہے کہ موجودہ حکومت جس میں پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ پی پی موجودہ حکومت میں شامل نہیں ہے اور اس کی صرف حمایت کرتی ہے اور وہ حکومت کی نجکاری پالیسی کی بھی مخالف ہے اور اپنے منشور کے خلاف وہ مسلم لیگ (ن) کے کسی فیصلے کی کبھی حمایت نہیں کرے گی اور اپنی ہی پالیسی پر چلے گی اور وہ حکومت کا فیصلہ ماننے کی پابند نہیں ہے۔

 2008میں جب پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو ساتھ ملا کر اپنی حکومت بنائی تھی جس کے بعد صدارتی انتخاب جنرل پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد ہوا تھا، اس میں وزارت عظمیٰ کے ساتھ ملک کی صدارت بھی اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر (ن) لیگ نے اختلاف کیا تھا اور وہ دونوں بڑے عہدے پی پی کو دینے کی حامی نہیں تھی اور شاید یہ عہدہ خود لینا چاہتی تھی مگر ایم کیو ایم نے آصف زرداری کو بطور صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا جن کے مقابلے میں (ن) لیگ نے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا مگر آصف زرداری خود کو صدر مملکت منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے جس کے بعد انھوں نے میاں نواز شریف سے ججز بحالی کا جو معاہدہ کیا تھا، انھوں نے ججز کی بحالی سے انکار کر دیا تھا ۔

ججز بحالی نہ ہونے پر (ن) لیگ حکومت سے الگ ہوگئی تھی اور نواز شریف نے بحالی نہ ہونے پر تحریک کا اعلان کر کے لانگ مارچ شروع کر دیا تھا۔ کامیاب لانگ مارچ ابھی گجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ حالات کے باعث بعض قوتوں کو مداخلت کرنا پڑی اور وزیر اعظم گیلانی نے رات گئے ججز بحالی کا اعلان کیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں میاں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کیا تھا، اس پر عمل کرتے ہوئے پی پی حکومت سے شدید اختلاف کے باوجود پہلی بار پی پی حکومت کے خلاف تحریک نہیں چلائی تھی اور پی پی حکومت نے پہلی بار مدت پوری کی تھی۔

پنجاب میں شہباز حکومت تھی جو صدر زرداری نے گورنر راج لگا کر ختم بھی کی تھی مگر عدالت عالیہ نے (ن) لیگی حکومت بحال کر دی تھی۔

2013 میں پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد دھرنے کے موقع پر نواز شریف کی حکومت کا ساتھ دیا تھا جس سے جمہوریت مستحکم ہوئی اور (ن) لیگی حکومت نے بھی پہلی بار اپنی مقررہ مدت پوری کی تھی اور (ن) لیگ اور پی پی کے شدید مخالف بانی تحریک انصاف 2018 میں اقتدار میں لائے گئے مگر اپنی غلط پالیسی کے باعث وہ اپریل 2022 میں انھیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برطرف کر دیا تھاجو ملک میں پہلی آئینی برطرفی تھی۔ 2008 کے بعد سے باہمی سیاسی مخالفت کے باوجود پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے اپنے اختلافات کو انتہا تک نہیں پہنچایا مگر 2017 میں پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ضرور ختم کرائی تھی اور چیئرمین سینیٹ مسلم لیگ کا نہیں آنے دیا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری کی پالیسی کے باعث سندھ میں (ن) لیگ کو شدید نقصان بھی نواز شریف حکومت میں ہوا مگر دونوں پارٹیوں نے اپنی اپنی پالیسیوں پر عمل جاری رکھا اور باہمی اختلاف کو سیاسی دشمنی میں تبدیل نہیں ہونے دیا۔ آصف زرداری نے اپنی مفاہمانہ پالیسی کے تحت سندھ میں پیپلز پارٹی کو جو انتخابی کامیابی دلائی وہ نیا ریکارڈ ہے۔ بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی پیپلز پارٹی کو اتنی کامیابی نہیں ملی تھی جس کی وجہ سے سندھ میں 17 سال سے پی پی کی حکومت ہے۔

بھٹو حکومت میں ملک بھر میں ہزاروں چھوٹے بڑے نجی ادارے قومی تحویل میں لے کر قومی خزانے پر بوجھ بڑھایا گیا تھا جن میں جھوٹے چھوٹے چاول صاف کرنے کے کارخانے بھی شامل تھے جس سے بے حد کرپشن ہوئی تھی۔ پی پی کا موقف ہے کہ اس کے منشور میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنا شامل ہے جس کے تحت وہ اپنے لوگوں کو اندھا دھند نوازتی ہے جس سے ہر سرکاری ادارے میں مقررہ تعداد سے زیادہ لوگ ملازمت حاصل کر لیتے ہیں جس کی ایک واضح مثال سندھ کے بلدیاتی ادارے ہیں جہاں یوسی تک میں اضافی عملہ موجود ہے اور ان کا بجٹ تنخواہوں میں خرچ ہو جاتا ہے اور تعمیری کاموں کے لیے رقم نہیں بچتی تو ترقیاتی کام کہاں سے ہوں اس کی پی پی کبھی فکر نہیں کرتی وہ صرف روزگار دینے پر یقین رکھتی ہے جب کہ (ن) لیگ کی پالیسی پی پی سے یکسر مختلف ہے۔

بے نظیر کی شہادت کے بعد پی پی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا تھا جس کا بجٹ پی پی پی نے (ن) لیگی حکومت سے ہر بار بڑھوایا جب کہ اس پروگرام سے غریبوں کو کم اور سرکاری افسروں و ملازموں کو زیادہ فائدہ ہوا اور کرپٹ افسروں نے اپنی بیگمات تک کو اس پروگرام سے مالی فائدہ پہنچایا اور زبردست کرپشن ہوئی۔اسٹیل ملز سالوں سے بند ہے۔ پی آئی اے اور دیگر ریاستی اداروں میں بے انتہا فاضل عملے نے ان اداروں کو مالی طور پر تباہ کر دیا ہے۔

(ن) لیگی حکومت نقصان میں جانے والے ریاستی اداروں کی نجکاری چاہتی ہے جو پیپلز پارٹی نہیں ہونے دے رہی بلکہ دباؤ ڈال کر (ن) لیگی حکومت سے ایسے فیصلے کرا لیتی ہے جو اس کے منشور کے بھی خلاف ہے مگر مجبور ہے کیونکہ ماضی کے مقابلے میں (ن) لیگی حکومت پی پی کی حمایت سے قائم ہے جو پی پی کو ناراض کرنے کی متحمل نہیں ہو رہی اور اقتدار میں رہنے کے لیے پی پی کی مکمل محتاج ہے اور سیاسی و ذاتی مفاد کے لیے دونوں بڑی پارٹیوں کو قومی مفاد کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے ذاتی اور پارٹی کے سیاسی مفاد کو سب سے زیادہ ترجیح دیتی ہے اور اسی لیے نقصان میں جانے والے ریاستی اداروں کی نجکاری نہیں ہونے دے رہی جو قومی خزانے پر سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں مگر پی پی اپنے سیاسی مفاد کے لیے اپنی پالیسی پر چل رہی ہے اور اسے قومی نقصان کی کوئی فکر نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’قائد کی ایک جھلک دکھائی جائے‘، اداکار بلال قریشی کا عمران خان سے متعلق افواہوں پر مطالبہ
  • بانی پی ٹی آئی کی صحت کے حوالے سے افواہیں بے بنیاد ہیں، اڈیالہ جیل حکام
  • پی ٹی آئی کا عمران خان کی صحت سے متعلق افواہوں پر حکومت سے وضاحت دینے کا مطالبہ
  • پی ٹی آئی کا عمران خان کی صحت سے متعلق ’افواہوں‘ پر حکومت سے وضاحت دینے کا مطالبہ
  • عمران خان مکمل صحت مند ہیں، اڈیالہ جیل سے منتقلی کی افواہیں بے بنیاد ہیں: اڈیالہ جیل حکام
  • بانی پی ٹی آئی کی صحت کے حوالے سے افواہیں بے بنیاد ہیں: جیل حکام
  • پیپلز پارٹی کی منفرد پالیسی
  • عمران خان کی اڈیالہ جیل میں وفات کی افغانی اور بھارتی افواہ؛ جیل سپرنٹنڈنٹ کی وضاحت آگئی
  • افواہیں مسترد کردیں، اڈیالہ انتظامیہ نے بانی پی ٹی آئی کی صحت بالکل بہتر قرار