اسلام ٹائمز: سرکاری تردید کے باوجود اہم سوالات کے جوابات باقی ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ اصل ورژن میں حزب اللہ اور انصار اللہ جیسے گروپوں کے نام کیوں شامل کیے گئے۔؟ دوسرا یہ کہ سرکاری گزٹ میں غلط ورژن شائع کرنے کا ذمہ دار کون سا ادارہ تھا اور بغیر نگرانی کے ایسی غلطی کیسے ہوسکتی تھی۔؟ تیسرا سوال یہ کہ کیا امریکی دباؤ، جو ایران کے قریبی گروپوں سے منسلک مالیاتی نیٹ ورکس کو مضبوط کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے، اس نے اس فہرست کی تشکیل میں کوئی کردار ادا کیا۔؟ اگرچہ عراقی حکومت نے ایک سرکاری بیان جاری کیا ہے اور شائع ہونے والے فیصلے سے خود کو دور کیا ہے، لیکن اس واقعے کو بہت سے مبصرین نے دباؤ کے بعد پیچھے ہٹنے سے تعبیر کیا ہے۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی
عراق کے ایک سرکاری اخبار "الوقائع العراقیہ" میں عراق میں دہشت گردی کے حوالے سے ایک سرکاری دستاویز کی فہرست میں "انصار اللہ" اور "حزب اللہ" کے نام کی اشاعت سے ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے۔ حکومت نے کچھ گھنٹوں بعد ہی اپنی غلطی کو تسلیم کرکے اس جلتی آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کی، لیکن یہ واقعہ اپنے پیچھے شکوک و شبہات کا دھواں چھوڑ گیا ہے۔ یہ دستاویز جو دہشت گردی کے اثاثوں کو منجمد کرنے والی ایک کمیٹی کے ایک فیصلے کی عکاسی کرتی ہے، اس میں دو دہشت گرد تنظیموں، ISIS اور "القاعدہ" کے ساتھ "حزب اللہ لبنان" اور "یمن کی انصار اللہ" کے ناموں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا عمل تھا، جس نے چند گھنٹوں میں عراق کے سیاسی ماحول کو بہت زیادہ گرم کر دیا اور جو شدید ردعمل کا باعث بنا۔
یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی، جب عراقی میڈیا اور پھر کچھ عرب نیٹ ورکس نے ایک سرکاری اخبار میں شائع ہونے والے ایک "ورژن" کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا کہ بغداد نے حزب اللہ اور انصار اللہ کے اثاثے منجمد کر دیئے ہیں۔ یہ اشاعت ایک ایسے وقت میں ہوئی، جب عراق، امریکی دباؤ، کوآرڈینیشن فریم ورک پر اندرونی اختلافات اور نئے وزیراعظم کی تقرری کے چیلنج سے نبردآزما ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ واقعہ تیزی کے ساتھ ایک گمبھیر صورت اختیار کر گیا۔ تجزیہ کاروں نے قیاس کیا کہ یہ فیصلہ بغداد کی سکیورٹی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس خبر کے شائع ہونے کے بعد عراقی سوشل میڈیا پر احتجاج کی لہر دوڑ گئی۔ "محور مقاومت" کے قریب شخصیات، بشمول اراکین پارلیمنٹ نے اس اقدام کو "اسکینڈل" اور "عراق کی سرکاری پالیسیوں سے علیحدگی" قرار دیا۔
ایم پی "مصطفی جبار سندھ" نے لکھا کہ "عراق حزب اللہ اور انصار اللہ کو دہشت گرد کہتا ہے، لیکن کچھ قاتلوں کو امن کا امیدوار کہتا ہے،" اور حکومت سے فوری وضاحت کا مطالبہ کیا۔ مظاہروں میں شدت آنے پر عراق کے مرکزی بینک نے اچانک ایک بیان جاری کیا، جس میں حزب اللہ اور انصار اللہ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی خبروں کی تردید کی گئی۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عراق کے معاہدے میں صرف وہ ادارے اور افراد شامل ہیں، جو براہ راست ISIS اور القاعدہ سے منسلک ہیں اور یہ کہ دوسرے گروپوں کی شمولیت "ایک غیر ترمیم شدہ ورژن کی اشاعت کی وجہ سے ہوئی ہے۔" کمیٹی نے یہ بھی وعدہ کیا کہ فہرست پر نظرثانی کی جائے گی اور زیر بحث گروپوں کے ناموں کو ہٹا دیا جائے گا۔
وضاحتی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ملائیشیا کی حکومت نے عراق سے درخواست کی تھی کہ سلامتی کونسل کی قرارداد 1373 کے طریقہ کار کے تحت منجمد کیے جانے والے اثاثوں کی ایک مخصوص فہرست پر نظرثانی کی جائے۔ جس پر بغداد نے ناموں کے صرف ایک حصے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ تاہم سرکاری گزٹ میں شائع ہونے والے ورژن کو حتمی جائزے سے پہلے شائع کیا گیا اور اس سے بڑے پیمانے پر غلط فہمی پھیل گئی۔ اس وضاحت نے بہت سے مبصرین کو قائل نہیں کیا۔ غیر حکومتی اداروں کے ردعمل کے ساتھ ساتھ نوری المالکی کی قیادت میں حکومتی اتحاد نے بھی حکومت سے اس فہرست کی اشاعت کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اتحاد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ عراق کسی تفصیلی جائزے کے بغیر سکیورٹی لسٹوں میں علاقائی مساوات میں کردار ادا کرنے والے گروپوں کے نام شامل نہیں کرسکتا۔
بغداد کے بعض سیاسی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ رابطہ کاری کے فریم ورک پر اندرونی دباؤ اور مسلح گروہوں کے ردعمل کے خدشات نے حکومت کو اپنی ابتدائی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے۔ عرب خبر رساں ایجنسیوں اور ذرائع ابلاغ مثلاً شفق نیوز، السماریہ اور الاخبار نے حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ اثاثے منجمد کرنے والی کمیٹی نے یہ کارروائی کچھ بین الاقوامی درخواستوں کے ساتھ مل کر کی ہے، جس میں "ایف اے ٹی ایف" کے معیارات اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق قراردادیں شامل ہیں۔ تاہم بڑھتے ہوئے سماجی اور سیاسی دباؤ کے بعد حکومت اپنے فیصلے میں ترمیم کرنے پر مجبور ہوئی اور اعلان کیا کہ فہرست میں صرف داعش اور القاعدہ سے منسلک نام باقی رہیں گے۔
سرکاری تردید کے باوجود اہم سوالات کے جوابات باقی ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ اصل ورژن میں حزب اللہ اور انصار اللہ جیسے گروپوں کے نام کیوں شامل کیے گئے۔؟ دوسرا یہ کہ سرکاری گزٹ میں غلط ورژن شائع کرنے کا ذمہ دار کون سا ادارہ تھا اور بغیر نگرانی کے ایسی غلطی کیسے ہوسکتی تھی۔؟ تیسرا سوال یہ کہ کیا امریکی دباؤ، جو ایران کے قریبی گروپوں سے منسلک مالیاتی نیٹ ورکس کو مضبوط کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے، اس نے اس فہرست کی تشکیل میں کوئی کردار ادا کیا۔؟ اگرچہ عراقی حکومت نے ایک سرکاری بیان جاری کیا ہے اور شائع ہونے والے فیصلے سے خود کو دور کیا ہے، لیکن اس واقعے کو بہت سے مبصرین نے دباؤ کے بعد پیچھے ہٹنے سے تعبیر کیا ہے۔
کوآرڈینیشن فریم ورک کے اندر اندرونی دباؤ، مزاحمتی تحریکوں کے مظاہروں اور علاقائی مساوات میں عراق کے کردار کی انتہائی حساسیت نے حکومت کو ایسی پوزیشن پر لا کھڑا کیا، جہاں اسے اپنی شائع کردہ فہرست سے لاتعلق ہونا پڑا۔ اس معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقائی پیش رفت اور بیرونی دباؤ کے سامنے عراق کی ملکی سیاست کتنی نازک ہے اور ایک انتظامی فیصلہ کس طرح کثیر سطحی بحران میں بدل سکتا ہے۔ سرکاری تردید کے باوجود کیس بند نہیں کیا گیا ہے اور یہ عراق کے سکیورٹی، سیاسی اور علاقائی امور کے انتظام میں پیچیدہ چیلنجوں کی علامت ہے۔ بہرحال عراقی حکومت نے فوری طور پر اپنی غلطی تسلیم کرکے ایک اچھا اقدام کیا ہے۔
غلط کیا جو کیا ہے
غلط ہوا جو ہوا ہے
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حزب اللہ اور انصار اللہ شائع ہونے والے گروپوں کے نام ایک سرکاری سوال یہ کہ حکومت نے سے منسلک کے ساتھ دباؤ کے عراق کے کی کوشش گیا ہے کیا کہ ہے اور کے بعد کیا ہے
پڑھیں:
جماعت اہلسنت کے رہنمائوں کی پریس کانفرنس، خلفائے راشدین کے ایام سرکاری طور پر منانے کا مطالبہ
ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رہنمائوں نے کہا کہ اس وقت وطن عزیز بالخصوص صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبرپختونخواہ دہشت گردی کی شدید لپیٹ میں ہے، مختلف مقامات پر بم دھماکے، خودکش حملے اور سیکورٹی فورسز کی شہادت کے پے در پے واقعات، ملکی سلامتی اور استحکام کو چیلنج کرنے اور ملی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اہل سنت پنجاب کے صوبائی ناظم اعلی علامہ محمد فاروق خان سعیدی، جمعیت علمائے پاکستان جنوبی پنجاب کے صدر محمد ایوب مغل نورانی، مرکزی ناظم اطلاعات و پروفیسر ڈاکٹر محمد صدیق خان قادری، تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کے رہنما مفتی محمد عثمان پسروری، جماعت اہل سنت کی صوبائی مجلس عاملہ کے رکن محمد حسین بابر ایڈووکیٹ، پاکستان سنی تحریک جنوبی پنجاب کے ناظم اعلی مرز امحمد ارشد القادری، جماعت کے ڈویژنل رہنما قاضی محمد بشیر گولڑوی، ڈاکٹر محمد ارشد بلوچ اور مرکزی میلاد کمیٹی کے صدر کن الدین حامدی نے ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ملک سے فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے چاروں خلفا راشدین کے ایام سرکاری سطح پر منائے جائیں، اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی کی قرارداد پر عمل کیا جائے۔ اسلامیان پاکستان کے دیرینہ مطالبے کے پیش نظر خلفائے راشدین کے ایام وصال و شہادت سرکاری سطح پر شایان شان طریقے سے منائے جائیں، اس کا آغاز 22 جمادی الثانی 14 دسمبر 2025 خلیفہ اول جانشین رسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے یوم وصال سے کیا جائے حکومت کو فوری طور پر یہ مطالبہ منظور کرتے ہوئے اس کا اعلان کرنا چائے۔
اس وقت وطن عزیز بالخصوص صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبرپختونخواہ دہشت گردی کی شدید لپیٹ میں ہے، مختلف مقامات پر بم دھماکے، خودکش حملے اور سیکورٹی فورسز کی شہادت کے پے در پے واقعات، ملکی سلامتی اور استحکام کو چیلنج کرنے اور ملی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کا افغان حکومت سے گٹھ جوڑ قابل نفرت و مذمت ہے، اس مذموم سازش کے مقابلے کے لیے حکومت سمیت تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں متحد ہو کر سیسہ پلائی دیوار بن جائیں اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنادیں۔