سپہ سالار کے خلاف مہم پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش ہے، مولانا طاہر اشرفی
اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT
چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ سپہ سالار اور فوج کے خلاف چلائی جانے والی مہم کا اصل مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو فوج کی تعریفیں کرتی تھی، مگر اب اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق فوج کسی ایک جماعت یا مکتبہ فکر کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے۔
طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ پاکستان دفاعی طور پر مضبوط ملک ہے اور اب معاشی استحکام کی ضرورت ہے، جبکہ ملک میں پھیلائی جانے والی افراتفری کا مقصد اسی معاشی استحکام کو نقصان پہنچانا ہے۔ انہوں نے اسرائیل سے متعلق پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے کی بھی تردید کی اور کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا اسرائیل سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہے۔
انہوں نے افغان قیادت سے مطالبہ کیا کہ بھارت کے اشاروں پر پاکستان پر حملے کرنے والے عناصر کو روکا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب دشمن افغانستان کے راستے حملہ آور ہو رہا ہے، تب ملک کے اندر سے فوج اور سپہ سالار کے خلاف مہم چلانا انتہائی خطرناک عمل ہے۔
مولانا طاہر اشرفی نے سابق آرمی چیفس کے بارے میں سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی منفی مہم کی مذمت بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ جنرل کیانی سمیت متعدد سابق آرمی چیفس ملک میں موجود ہیں، مگر ان کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہ بیرونِ ملک ہیں۔ یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ لگتا ہے۔
انہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے والد پر ہونے والی تنقید کو بھی شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے جڑے ہوئے ہیں، اس لیے انہیں نشانہ بنانا غیر مناسب اور مشکوک عمل ہے۔
مولانا طاہر اشرفی نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ سیاسی لڑائی سیاست کی حد تک رکھیں اور ریاستی اداروں کو نشانہ نہ بنائیں، ورنہ قانون اپنا راستہ ضرور اختیار کرے گا۔ انہوں نے صدر مملکت سے افغان دہشت گردی اور معاشی صورتحال پر اے پی سی بلانے کا مطالبہ کیا اور آصف علی زرداری سے کہا کہ وہ بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: طاہر اشرفی انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
مولانا غلام حسنین وجدانی کی بلاجواز گرفتاری، بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے!
اسلام ٹائمز: اگر ملی و قومی جماعتوں میں دم خم نہیں تو پاکستان میں موجود انسانی حقوق کی تنظیموں اور بہت سے اداروں کے لوگوں کو اس جانب متوجہ کرنا چاہیئے، "شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔۔" کے مصداق کچھ مدد ہو جائے۔ ہمارے خیال میں اس مسئلہ پر اعلیٰ شیعہ قائدین کو بلا جھجھک سامنے آکر حکومت پاکستان کے ذریعے ان کی بلا مشروط رہائی کا مطالبہ کرنا چاہیئے۔ اس کیلئے پاکستان میں تعینات سعودی سفیر سے بھی وقت لینا پڑے تو لے کر تشویش پہنچانا چاہیئے، مگر عملی طور پر ایک محاورہ یاد آرہا ہے، جو اس ساری صورتحال کو مزید واضح کر دے گا: "بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے!" تحریر: علی ناصر الحسینی
مولانا غلام حسنین وجدانی دام ظلہ کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے، جو قم المقدسہ میں جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے زیر نظر طالبعلم ہیں، جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ ملک پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے بہترین افراد کو تبلیغات کیلئے بھیجتے ہیں، مولانا غلام حسنین وجدانی بھی اسی سلسلے میں گذشتہ تقریباً بارہ سال سے کوئٹہ پاکستان میں تبلیغ دین و مکتب حقہ جعفری کی اشاعت و ارشاد میں مشغول تھے۔ اپریل 2025ء کو مولانا وجدانی عمرہ کی غرض سے کاروان مدینۃ العلم کراچی، جس کے سالار حسن جعفری ہیں، اس گروپ کا ایک دفتر کوئٹہ میں بھی ہے، مولانا وجدانی اس گروپ کیساتھ تشریف لے گئے تھے، سارے گروپ نے روایتی انداز میں اپنے عمرہ مناسک ادا کیے، مگر واپسی پر ایک سانحہ رونماء ہوا، جس نے آٹھ ماہ سے سب کو حیرت و پریشانی کا شکار کر رکھا ہے۔ مولانا غلام حسنین وجدانی جو عمرہ زائرین گروپ کیساتھ تھے، انہیں طائف ایئر پورٹ سے گرفتار کرکے غائب کر دیا گیا۔ سعودی حکومت نے 19 اپریل 2025ء کو عمرہ سے واپسی پر طائف ایئرپورٹ پر بلاجواز گرفتار کرتے کسی کو جرم یا الزام نہیں بتایا۔
ظاہری طور پر سعودیہ جیسے حبس زدہ، ناصبیت کے پروردہ ملک میں اچانک سے مہمانان خدا کیساتھ ایسا ہو جانا بہت پریشان کن تھا۔ ایک بندہ جو تمام مناسک بڑے اہتمام سے ادا کرکے اپنے گھر واپس پہنچنے کا سوچ رہا تھا، اسے روک لینا باقی گروپ کیلئے بھی خاصا پریشان کن تھا، مگر اس وقت کوئی کیا کرسکتا ہے۔ ظاہری بات ہے، بے بسی و لاچارگی ہی تھی۔ کوئی بھی کچھ کرنے کی پوزیشن نہیں رکھتا تھا۔ اس وقت تو بہت دور آج آٹھ ماہ گزر جانے کے باوجود بھی کوئی کچھ نہیں کر پایا ہے۔ اس لیے کہ کون سعودیہ میں جا کر اتنا رسک لے۔ اطلاعات ہیں کہ کافی عرصہ انہیں نامعلوم جیل میں رکھا گیا، ورثاء کو کسی بھی قسم کی اطلاع نہیں تھی، مگر کچھ وقت گزر جانے کے بعد ان کے بارے معلوم ہوا کہ وہ جدہ جیل میں موجود ہیں، جہاں دو ہفتے بعد ان کی گھر ٹیلی فون پر بات بھی ہو جاتی ہے، مگر سعودیہ میں انہیں نا تو وکیل کی سہولت میسر ہے، نا خرچ اخراجات کیلئے کسی نے مدد کی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق سفارت پاکستان سے ایک فرد نے ایک بار ان سے ملاقات کی اور چند سو ریال بھی انہیں خرچ کیلئے دیئے۔ اب تو بس ایسا ہے کہ۔۔ "کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں"
ایسا تصور بھی محال ہے، ایک گھٹن زدہ معاشرہ جہاں عدل و انصاف اور اسلام کے نام پر اسلام کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں، ایک مہمان مسافر زائر کو بلا جواز، بغیر جرم بتائے، آٹھ ماہ سے قید کر رکھا ہے۔ ان کے خاندان، اہل خانہ بہت پریشان ہیں اور در، در کی ٹھوکریں کھا کر مایوسی اور ناامیدی میں غیبی مدد کے امیدوار ہیں۔ علامہ وجدانی ایک باشرف عالم دین اور مبلغ کے طور پر کوئٹہ میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ سعودی حکومت نے انہیں کسی بھی بڑے الزام میں چارج شیٹ نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں کچھ ایجنٹس کی غلط رپورٹنگ پر اٹھا لیا گیا ہو، کوئٹہ میں اس سے قبل بھی ان کی مخالفت ہوتی رہی ہے، ایک بھونڈے کیس میں انہیں گرفتار کروایا گیا تھا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک نامور، بہترین، باعمل عالم دین کی یوں تذلیل، گرفتاری اور غیب کیا جانا، ایک قوم، جس کی فعالیت اور نمائندگی پارلیمنٹ تک ہے، کیسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے، ایک عمرہ زائر ہونے کے حوالے سے ان کے حقوق کی پاسداری لازمی اور یقینی طور پر ہونی چاہیئے تھی، مگر بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس ساری صورتحال میں نہایت ہی افسوس ناک و تشویشناک پہلو یہ ہے کہ قومی جماعتوں اور تنظیموں کی اپنی اپنی ترجیحات اور پسند و ناپسند کے باعث وہ کسی بھی مرکزی شخصیت یا جماعت کے مصاحبان میں شامل نا ہونے کی وجہ سے ابھی تک کسی بھی سطح پر احتجاج، اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کے سامنے مطالبات اور رہائی کیلئے اقدامات میں دکھائی نہیں دیئے۔ یہ ایک افسوس ناک پہلو ہے کہ اگر کوئی شیعہ آپ کی تنظیم یا جماعت سے منسلک نہیں تو آپ اس کیلئے صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کرتے۔
ایک اور خدشہ اور امکانی صورتحال یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ ملک کے اہم ترین اداروں، حوزوں اور شخصیات نے حج و عمرہ کاروباری گروپس بنا رکھے ہیں، جو حج و عمرہ کے ذریعے کروڑوں روپے کماتے ہیں، انہیں یہ خدشہ ہوسکتا ہے کہ اگر وہ احتجاج کرتے ہیں، کسی حکومتی شخصیت کو اس بابت خط لکھتے ہیں، سفارت خانے کو احتجاج ای میل بھیجتے ہیں تو وہ نگاہوں میں آجائیں گے اور ان کو حج و عمرہ کیلئے بین بھی کیا جا سکتا ہے یا سعودی حکومت انہیں وجدانی صاحب کی طرح وزٹ پر اسیر بھی کرسکتی ہے۔ یہ ایک خدشہ کے طور عرض کیا ہے، اس لیے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں کسی جماعت، شخصیت، تنظیم یا ادارے نے اس اہم ترین مسئلہ پر کھل کر کچھ بیان نہیں کیا۔
سوچنے کی بات ہے کہ یہ بے حسی ہے، کمال حکمت و دانائی یا احساس سے عاری رویہ، یہ جو کچھ بھی ہے، کسی بھی طور ایک قوم و ملت کے شایان شان نہیں۔ اس ایشو کو ایک بے گناہ، مظلوم جس کا کوئی پرسان حال و مدد گار نہیں، کے طور پر بھی دیکھنا چاہیئے۔ اگر ملی و قومی جماعتوں میں دم خم نہیں تو پاکستان میں موجود انسانی حقوق کی تنظیموں اور بہت سے اداروں کے لوگوں کو اس جانب متوجہ کرنا چاہیئے، "شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔۔" کے مصداق کچھ مدد ہو جائے۔ ہمارے خیال میں اس مسئلہ پر اعلیٰ شیعہ قائدین کو بلا جھجھک سامنے آکر حکومت پاکستان کے ذریعے ان کی بلا مشروط رہائی کا مطالبہ کرنا چاہیئے۔ اس کیلئے پاکستان میں تعینات سعودی سفیر سے بھی وقت لینا پڑے تو لے کر تشویش پہنچانا چاہیئے، مگر عملی طور پر ایک محاورہ یاد آرہا ہے، جو اس ساری صورتحال کو مزید واضح کر دے گا: "بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے!"