2009 میں ایک تحقیق کی گئی جو کیل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے کی تھی نظریہ بڑا دلچسپ تھا۔ ’’ کیا گالم گلوچ واقعی بری چیز ہے؟‘‘ محققین کے مطابق یہ آپ کے لیے اچھی ہو، ایسا ممکن ہے جب اس کا کوئی مقصد ہو یا جب گالی دیے بغیر نہ رہ سکتے ہوں تو اس کا دینا مغلظات کا بکنا ہی ٹھیک ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق تکلیف کے وقت ہماری زبان سے بے اختیار نکلنے والے مغلظات دراصل ارتقائی عمل کا حصہ ہیں۔ ان کے مطابق دماغ کے ایک حصے امیگڈلا کو تحریک دے کر ’’ مقابلہ کرو یا بھاگو‘‘ کو دباتی ہیں اور دماغی مادے ایڈرینالین کو بڑھاتی ہیں جو فطری طور پر درد سے نجات دلاتا ہے۔ایک اور مزے دار سطر پر غور فرمایے ’’ گالی دینا ہر شخص کی ضرورت ہے، سائنس نے ثابت کردیا۔‘‘
سائنسی جریدے لنگوا میں شایع ہونے والی تحقیق کا موضوع تھا۔ ’’ کیا گالم گلوچ ہر ثقافت میں ایک ہی طرح کا اثر رکھتی ہے؟‘‘ اس تحقیق کے مطابق ممنوعہ الفاظ کا استعمال ہمارے سوچنے، عمل کرنے اور تعلق پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر برن نے گالم گلوچ کے حوالے سے ایک اور تحقیقی نقطہ اجاگرکیا۔ ان کے مشاہدے کے مطابق اگر فالج کی وجہ سے کسی کے دماغ کا بایاں حصہ مفلوج ہو جائے اور وہ بولنے سے قاصر ہو جائے تب بھی وہ گالی دے سکتا ہے۔
نفسیات کے استاد ڈاکٹر رچرڈ سیٹو نے اس موضوع پر تحقیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ درد کی کیفیت میں گالی دینے سے کیسے آرام ملتا ہے؟‘‘
گالی دینے سے آرام ملتا ہے یا نہیں لیکن ہمارے سوشل میڈیا نے اس عمل کو اس قدر مزین کر کے دکھایا ہے کہ لوگ بڑے مزے سے روانی میں بولے چلے جاتے ہیں، بڑی سے بڑی واہیات گالی انتہائی آرام سے بیچ محفل میں بلکہ مائیک پرکیمرے کے سامنے۔
جی، ہاں ! کیمرے کے سامنے وہ بھی خواتین اور جوان لڑکیوں اور لڑکوں کے بیچ۔ ایسا ہم نے پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ پڑوسی ملک کے فنون لطیفہ کے کسی مقابلے کے پروگرام میں اینکر موصوف اپنے معزز مہمانان اور مقابلے کے شرکا کی گفتگو کو انجوائے کر رہے تھے اور معزز مہمان جن کی اس قدر بے ہودہ گالی سن کر تو ہوش ہی اڑ گئے، ان کے لیے معزز استعمال کرنا تو بنتا ہی نہیں، مسکراتے چہرے سے روانی سے بولتے چلے گئے اور میزبان جو خاصی مشہورکامیڈین ہیں، ان کے ساتھ ان کے شوہر نام دار بھی معروف اینکر ہیں مہمان کی واہیات گالی پر ایسے ہی رہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
ان کے منہ سے تو پھول جھڑ رہے ہوں۔ یہی نہیں ہمارے اپنے نوجوان بھی جو یوٹیوب چینلزکھول کر بیٹھے ہیں، روانی سے بڑی بڑی گالیوں کو بکنا غالباً ٹرینڈ سمجھتے ہیں، ایک ایسا ٹرینڈ جو ہمارے مذہب اور ادب کے منافی ہے۔
سائنس دانوں کا گالم گلوچ پر تحقیق کرنا تو ظاہر ہے کہ ریسرچ ضروری ہے، پر اس کے ایسے مثبت اثرات سمجھ سے باہر ہیں۔ سائنس نے کیا ثابت کیا اورکیا نہیں، یہ کیوں ضروری ہے کہ انسانی اخلاق کے منافی اطوارکو اچھے سنہرے لباس میں لپیٹ کر عوام الناس کو گمراہ کیا جائے،کیا یہ بھی کسی ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے؟
ہائی بلڈ پریشرکی علامات میں غصے کا بلند ہونا بھی ہے،کیا انسان کی حسیات منفی رجحان اور تاثرات کو الٹ لے رہے ہیں یا غلط سلط باتوں سے شیطانی حرکتوں کو آلہ کار بنایا جا رہا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر اسی زمرے میں ایک مثال ہے جو ایک نارمل انسان کوگالیاں بکنے گویا جذبات بھڑکانے اور دباؤ بڑھانے سے بھی پیدا ہو سکتا ہے، پھر سکون کے لیے لغویات کا استعمال تو جیسے منشیات کا استعمال کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔
ہمارے ہاں ایک رواج بن گیا ہے عام گفتگو اور بول چال میں بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے یا مزاج کے لیے گالی کا استعمال عام ہو رہا ہے، خاص کر ادھیڑ عمر کے اور نوجوان طبقہ اس میں شامل ہیں۔ آپ نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہوں گے جو ہر نئی بات کی ابتدا ایک موٹی سی فحش گالی سے کر کے اپنا قد بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا ہوتا بھی ہے کہ لوگ گالم گلوچ والے لوگوں کو اگر برا سمجھتے ہیں تو ان کی بات پر توجہ بھی دیتے ہیں،گویا لغویات اپیل کرتی ہیں۔ یہ ایک عام رویہ ہے لیکن مذہبی اور اخلاقی طور پر اس رویے کی کوئی گنجائش نہیں۔
عہد حاضر کی اس رکیک اخلاقی برائی سے کیا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے؟ سائنس دان اسے انسانی جذبات کی تسکین کا ذریعہ سمجھیں یا ضرورت، لیکن حقیقت میں یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اسے اگر یوں کہہ لیا جائے کہ انسانی فطرت کو شیطانی معاشرے کی جانب دھکیلنے کا ایک ایسا گُر جو بظاہر پرسکون کرنے والا تو ہے پر درحقیقت انسانی جبلتوں کے منافی ہے، انسانی فطرت میں اس کی کہیں جگہ نہیں ہے، لیکن اب یہ کھل کر ٹی وی اسکرینز اور سوشل میڈیا پر چھا رہا ہے۔ جو انسانی دماغ کو ایک شیطانی معاشرے کا حصہ بنانے کی عادت کی جانب راغب کر رہا ہے۔
اسلام میں بدگوئی اور طعنہ زنی کو بہت برا سمجھا گیا ہے۔ بدگوئی کا اہم پہلوگالی ہے۔ اسلام میں گالی دینے کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ حدیث مبارکہ کے مطابق ’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، جلد اول، حدیث نمبر47)
اسلام میں ہر اس بات سے منع یا ناپسند فرمایا ہے جس کے کرنے سے مسلمان پریشان ہو، بیمار ہو، جو اس کے لیے اور معاشرے کے لیے برا ہو۔ لہٰذا یہ تو طے ہے کہ جن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ گالی دینا ہر انسان کی ضرورت ہے بالکل غلط ہے کیونکہ انسان کے مزاج کو ٹھنڈا رکھنے، متوازن رکھنے اور بہتر طور پر عمل کرنے کے لیے وہ تمام امور جنھیں سائنسی تحقیق شور مچا مچا کر اچھا کہے یا دعوے کرے درست نہیں ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسانی معاشرے میں بگاڑ کی صورت میں ناموافق عوامل عود کر آتے ہیں۔
ہمارے ہاں معاشرے میں سیاسی تخت ہو یا گھریلو الجھنیں، عوامی مسائل ہوں یا کچھ اور جن پر حرام کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے وہ انسان کے لیے بہتر نہیں ہیں۔ اس سے ہمیشہ مسائل ہی جنم لیتے ہیں۔
ہمارے مشرقی ماحول میں ابھی بھی گھروں میں اس طرح کی آبیاری سے گریز کیا جاتا ہے جہاں بد اخلاقی، بدگوئی اور لچر پن کو اولیت دی جائے یا درگزر نہیں کیا جاتا، پھر بھی آئے دن اخبارات و رسائل میں سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر بیانات اور بدگوئی کے نمونے نظر آتے رہتے ہیں جو مسلمان معاشرے کے لیے دیمک ہے۔ ہم بدگوئی اورگالم گلوچ سے بچاؤ اور اپنے معاشرے کو خوب صورت بنانے کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں، اگر نہیں تو ایک بار رب العزت کے احکامات کو توجہ سے پڑھیں جو دنیائے عالم کے لیے ایک مکمل کتاب ہے جو ہمیں صحت مند رجحان کے ساتھ زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کا استعمال کے مطابق کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
کربلا اور کربلا والے!
اسلام ٹائمز: کربلا کے راستے کے آج کے راہیوں میں اہل ایران، یمنی مجاہدین، لبنانی مزاحمت، عراقی عشاق، فرزندان حسینی پاکستان نے کربلا کے راستے کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے امام خامنہ ای کی بابصیرت، الہیٰ و روحانی شخصیت کیساتھ اپنے عہد کو نبھانے اور ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے آمادگی و تیاری کر رکھی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تعداد میں قلیل ہونگے، طاقت و وسائل میں کمزور ہونگے، مگر انکے ارادے چٹانوں کو ہلا دینے والے ہیں، انکے شعار و نعرے بلندیوں کو چیر دینے والے ہیں، انکا اخلاص و تڑپ متاثر کن ہے۔ انکا جذبہ کامیابی کی کنجی ہے، لہذا کربلا و کربلا والوں سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کاروان میں شامل ہوا جائے، حقیقی کربلائی کہلانے کیلئے آج کی دنیا میں یہی راستہ ہے، ہم اسی راستے کے راہی ہیں، ہم امام خامنہ ای کے سپاہی ہیں۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
کربلا ایک ایسا نام ہے، جس پر ہم سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں، حتیٰ ٰسب سے قیمتی چیز جان ہوتی ہے، ہم اس کو بھی کربلا پر قربان کرنے سے نہیں گھبراتے۔ کربلا اور کربلا والوں نے ہمیں درس ہی ایسے دیا ہے کہ اس کے بعد کسی اور چیز میں بقاء ہی نہیں نظر آتی۔ کربلا والوں نے میدان کربلا میں تپتے ریگزار پر تین دن کی بھوک پیاس کے ہوتے ہوئے قلت تعداد میں ہو کر اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی جانوں کو قربان کر دیا تو ہم کون ہوتے ہیں، اپنی جانوں کی پرواہ کرنے والے۔ میدان کربلا میں فقط چند گھنٹوں کی لڑائی نے تاریخ کا ایسا دھارا بدلا کہ رہتی دنیا تک دنیا کے باضمیر، باغیرت، باحمیت، شجاعت و بہادری کے دلدادہ، عز و شرف کے متوالے، غیرت و حمیت کے پروانے، دین و ایمان کے سرباز، اسلام کو آفاقی و الہیٰ دین تسلیم کرکے زندگی کرنے والے انسانوں کو یہ رہنمائی و راستہ دکھاتی رہے گی۔ کربلا زندہ ضمیروں پر دستک دیتی رہے گی، کربلا طاقتوروں کو ان کی طاقت و قوت کے زور پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف للکارتی رہے گی۔
جو جو بھی کربلا سے خود کو وابستہ کرے گا، اس کو نجات کا راستہ مل جائے گا، ہدایت کا راستہ مل جائے گا، بقاء کا راستہ مل جائے گا۔ دنیا میں اربوں انسان موجود ہیں اور ارب ہا انسان فقط چودہ صدیوں میں اپنی زندگی گزار کر جا چکے ہیں، آج ان کا نام و نشان ہی باقی نہیں ہے، کوئی کسی کو جانتا بھی نہیں ہے، مگر میدان کربلا میں فقط بہتر شہداء کے ایثار و قربانی کے کردار نے ایسی ابدیت و ہمیشگی پائی ہے کہ ان کا ذکر مٹانے سے نہیں مٹتا۔ ہر سال ان کے ایام ہائے شہادت یعنی عاشورا میں دنیا کے ہر ملک و ملت میں ان کا ذکر ناصرف بلند ہوتا ہے بلکہ ہر سال کی بہ نسبت زیادہ قوت و طاقت اور زور و شور سے کیا جاتا ہے اور ایسا نہیں کہ یہ سب مفت میں ہو جاتا ہے۔ اس ذکر کو بلند رکھنے کیلئے جہاں مال کی بہت بڑی قربانی دی جاتی ہے اور وسیع پیمانے پر خرچ اخراجات کیے جاتے ہیں، وہیں اس ذکر کو بلند کرنے میں دیگر بہت سی رکاوٹوں کیساتھ بہت سے ممالک بشمول پاکستان میں جانوں کی قربانی بھی قبول کی جاتی رہی ہے اور ایسے خطرات و اندشوں کے ہوتے ہوئے یہ ذکر ہمیشہ بلند کیا جاتا ہے۔
گویا ایک عظیم قربانی کی یاد مناتے ہوئے بھی قربانیاں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ کسی دنبے یا لیلے کی قربانی نہیں بلکہ جیسے میدان کربلا میں اصل قربانیاں پیش کی گئیں تھیں، ایسے ہی ان کی یاد میں بھی انسانوں کی جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ فی زمانہ اگر ہم دیکھیں تو دنیا میں اس وقت جمہوری اسلامی ایران واحد مملکت اسلامی ہے، جس میں مکمل طور پر اسوہ کربلا کے پیروکاران طاقت و اقتدار میں ہیں۔ اسی وجہ سے جمہوری اسلامی ایران کے خلاف دنیا بھر کے یزیدی اور ان کے ہمنوا ایک ساتھ ہیں۔ گذشتہ سینتالیس برس سے انقلاب اسلامی ایران یزیدان عصر نو کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اس کو جھکانے والے جھک جاتے ہیں، مگر وہ نہیں جھکتا۔ اس کو مٹانے والے مٹ جاتے ہیں، مگر وہ نہیں مٹتا۔ اس کو نابود کرنے کی خواہش رکھنے والے نابود ہو جاتے ہیں، مگر وہ نابود نہیں ہوتا۔ یہ فقط اس راستے کی برکات ہیں، جو کربلا سے اور کربلا والوں سے متصل ہونے والوں کو ملتی ہیں۔
اس لیے کہ اٹھاون اسلامی ممالک نے اپنا سر دشمنان دین و ایمان، یزیدان عصر نو، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اسرائیل کے سامنے جھکا رکھا ہے، جبکہ جمہوری اسلامی ایران نے کبھی ان نام نہاد طاقتوروں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور ان کو یہ راہ کربلا والوں نے سکھائی و بتلائی ہے۔ بقول علامہ اقبال:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے آدمی کو دیتا ہے نجات
اہل ایران نے فقط اس کائنات کے مالک اصلی و خالق حقیقی کے سامنے سر جھکایا ہوا ہے۔ اس لیے انہیں کسی اور کے سامنے سر نہیں جھکانا پڑتا، جبکہ دیگر مسلمان ممالک اور ان کی قیادتوں نے چھوٹے بڑے یزیدوں کے سامنے سر جھکانے میں اپنی بقا و سلامتی سمجھ رکھی ہے۔ لہذا وہ جھکتے ہیں اور جھکتے ہی چلے جاتے ہیں۔کربلا والوں کی منزل راہ شہادت سے ہو کر گزرتی ہے۔ لہذا اس راہ کے راہی کبھی بھی اس سے کتراتے نہیں بلکہ اپنی منزل کے حصول میں اس راہ پرخار سے گزرنے ہوئے ان کے اندر بے تابی اور اشتیاق زور و شور پر ہوتا ہے۔
ان کا اطمینان ہی اس وقت ہوتا ہے، جب انہیں اذن شہادت ملتا ہے۔ عاشور کے دن بھی تو ایسا ہی تھا، ہر ایک بے قرار تھا کہ جان نثار کرے، ہر ایک اذن شہادت مانگتا تھا، ہر ایک ہزار ہزار بار قتل ہوکر بار بار فدا ہونا چاہتا تھا۔ دراصل یہ عشق کی کہانی ہے، یہ عشق اور جنون کے معاملے ہیں، جو عام آدمی کی پہنچ سے یقیناً دور ہیں۔ اس کی گتھیاں ہر ایک سلجھانے کی طاقت و سمجھ بوجھ نہیں رکھتا، بلکہ عاشقوں کے قبیلوں میں شامل ہی اس گتھی کو سلجھا سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں اور اس موت و شہادت میں بقا کو پا سکتے ہیں۔ بقول حسرت موہانی:
تم پر مٹے تو زندہء جاوید ہوگئے
ہم کو بقا نصیب ہوئی ہے فنا کے بعد
اور محمد علی جوہر بھی کہتے ہیں۔۔
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری، یہی انتہا کے بعد
کربلا کے راستے کے آج کے راہیوں میں اہل ایران، یمنی مجاہدین، لبنانی مزاحمت، عراقی عشاق، فرزندان حسینی پاکستان نے کربلا کے راستے کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے امام خامنہ ای کی بابصیرت، الہیٰ و روحانی شخصیت کیساتھ اپنے عہد کو نبھانے اور ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے آمادگی و تیاری کر رکھی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تعداد میں قلیل ہونگے، طاقت و وسائل میں کمزور ہونگے، مگر ان کے ارادے چٹانوں کو ہلا دینے والے ہیں، ان کے شعار و نعرے بلندیوں کو چیر دینے والے ہیں، ان کا اخلاص و تڑپ متاثر کن ہے۔ ان کا جذبہ کامیابی کی کنجی ہے، لہذا کربلا و کربلا والوں سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کاروان میں شامل ہوا جائے، حقیقی کربلائی کہلانے کیلئے آج کی دنیا میں یہی راستہ ہے، ہم اسی راستے کے راہی ہیں، ہم امام خامنہ ای کے سپاہی ہیں۔