Express News:
2025-11-03@16:24:44 GMT

درپردہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

2009 میں ایک تحقیق کی گئی جو کیل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے کی تھی نظریہ بڑا دلچسپ تھا۔ ’’ کیا گالم گلوچ واقعی بری چیز ہے؟‘‘ محققین کے مطابق یہ آپ کے لیے اچھی ہو، ایسا ممکن ہے جب اس کا کوئی مقصد ہو یا جب گالی دیے بغیر نہ رہ سکتے ہوں تو اس کا دینا مغلظات کا بکنا ہی ٹھیک ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق تکلیف کے وقت ہماری زبان سے بے اختیار نکلنے والے مغلظات دراصل ارتقائی عمل کا حصہ ہیں۔ ان کے مطابق دماغ کے ایک حصے امیگڈلا کو تحریک دے کر ’’ مقابلہ کرو یا بھاگو‘‘ کو دباتی ہیں اور دماغی مادے ایڈرینالین کو بڑھاتی ہیں جو فطری طور پر درد سے نجات دلاتا ہے۔ایک اور مزے دار سطر پر غور فرمایے ’’ گالی دینا ہر شخص کی ضرورت ہے، سائنس نے ثابت کردیا۔‘‘

سائنسی جریدے لنگوا میں شایع ہونے والی تحقیق کا موضوع تھا۔ ’’ کیا گالم گلوچ ہر ثقافت میں ایک ہی طرح کا اثر رکھتی ہے؟‘‘ اس تحقیق کے مطابق ممنوعہ الفاظ کا استعمال ہمارے سوچنے، عمل کرنے اور تعلق پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر برن نے گالم گلوچ کے حوالے سے ایک اور تحقیقی نقطہ اجاگرکیا۔ ان کے مشاہدے کے مطابق اگر فالج کی وجہ سے کسی کے دماغ کا بایاں حصہ مفلوج ہو جائے اور وہ بولنے سے قاصر ہو جائے تب بھی وہ گالی دے سکتا ہے۔

نفسیات کے استاد ڈاکٹر رچرڈ سیٹو نے اس موضوع پر تحقیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ درد کی کیفیت میں گالی دینے سے کیسے آرام ملتا ہے؟‘‘

 گالی دینے سے آرام ملتا ہے یا نہیں لیکن ہمارے سوشل میڈیا نے اس عمل کو اس قدر مزین کر کے دکھایا ہے کہ لوگ بڑے مزے سے روانی میں بولے چلے جاتے ہیں، بڑی سے بڑی واہیات گالی انتہائی آرام سے بیچ محفل میں بلکہ مائیک پرکیمرے کے سامنے۔

جی، ہاں ! کیمرے کے سامنے وہ بھی خواتین اور جوان لڑکیوں اور لڑکوں کے بیچ۔ ایسا ہم نے پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ پڑوسی ملک کے فنون لطیفہ کے کسی مقابلے کے پروگرام میں اینکر موصوف اپنے معزز مہمانان اور مقابلے کے شرکا کی گفتگو کو انجوائے کر رہے تھے اور معزز مہمان جن کی اس قدر بے ہودہ گالی سن کر تو ہوش ہی اڑ گئے، ان کے لیے معزز استعمال کرنا تو بنتا ہی نہیں، مسکراتے چہرے سے روانی سے بولتے چلے گئے اور میزبان جو خاصی مشہورکامیڈین ہیں، ان کے ساتھ ان کے شوہر نام دار بھی معروف اینکر ہیں مہمان کی واہیات گالی پر ایسے ہی رہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

ان کے منہ سے تو پھول جھڑ رہے ہوں۔ یہی نہیں ہمارے اپنے نوجوان بھی جو یوٹیوب چینلزکھول کر بیٹھے ہیں، روانی سے بڑی بڑی گالیوں کو بکنا غالباً ٹرینڈ سمجھتے ہیں، ایک ایسا ٹرینڈ جو ہمارے مذہب اور ادب کے منافی ہے۔

 سائنس دانوں کا گالم گلوچ پر تحقیق کرنا تو ظاہر ہے کہ ریسرچ ضروری ہے، پر اس کے ایسے مثبت اثرات سمجھ سے باہر ہیں۔ سائنس نے کیا ثابت کیا اورکیا نہیں، یہ کیوں ضروری ہے کہ انسانی اخلاق کے منافی اطوارکو اچھے سنہرے لباس میں لپیٹ کر عوام الناس کو گمراہ کیا جائے،کیا یہ بھی کسی ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے؟

 ہائی بلڈ پریشرکی علامات میں غصے کا بلند ہونا بھی ہے،کیا انسان کی حسیات منفی رجحان اور تاثرات کو الٹ لے رہے ہیں یا غلط سلط باتوں سے شیطانی حرکتوں کو آلہ کار بنایا جا رہا ہے۔

ہائی بلڈ پریشر اسی زمرے میں ایک مثال ہے جو ایک نارمل انسان کوگالیاں بکنے گویا جذبات بھڑکانے اور دباؤ بڑھانے سے بھی پیدا ہو سکتا ہے، پھر سکون کے لیے لغویات کا استعمال تو جیسے منشیات کا استعمال کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔

ہمارے ہاں ایک رواج بن گیا ہے عام گفتگو اور بول چال میں بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے یا مزاج کے لیے گالی کا استعمال عام ہو رہا ہے، خاص کر ادھیڑ عمر کے اور نوجوان طبقہ اس میں شامل ہیں۔ آپ نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہوں گے جو ہر نئی بات کی ابتدا ایک موٹی سی فحش گالی سے کر کے اپنا قد بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا ہوتا بھی ہے کہ لوگ گالم گلوچ والے لوگوں کو اگر برا سمجھتے ہیں تو ان کی بات پر توجہ بھی دیتے ہیں،گویا لغویات اپیل کرتی ہیں۔ یہ ایک عام رویہ ہے لیکن مذہبی اور اخلاقی طور پر اس رویے کی کوئی گنجائش نہیں۔

 عہد حاضر کی اس رکیک اخلاقی برائی سے کیا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے؟ سائنس دان اسے انسانی جذبات کی تسکین کا ذریعہ سمجھیں یا ضرورت، لیکن حقیقت میں یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اسے اگر یوں کہہ لیا جائے کہ انسانی فطرت کو شیطانی معاشرے کی جانب دھکیلنے کا ایک ایسا گُر جو بظاہر پرسکون کرنے والا تو ہے پر درحقیقت انسانی جبلتوں کے منافی ہے، انسانی فطرت میں اس کی کہیں جگہ نہیں ہے، لیکن اب یہ کھل کر ٹی وی اسکرینز اور سوشل میڈیا پر چھا رہا ہے۔ جو انسانی دماغ کو ایک شیطانی معاشرے کا حصہ بنانے کی عادت کی جانب راغب کر رہا ہے۔

 اسلام میں بدگوئی اور طعنہ زنی کو بہت برا سمجھا گیا ہے۔ بدگوئی کا اہم پہلوگالی ہے۔ اسلام میں گالی دینے کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ حدیث مبارکہ کے مطابق ’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، جلد اول، حدیث نمبر47)

اسلام میں ہر اس بات سے منع یا ناپسند فرمایا ہے جس کے کرنے سے مسلمان پریشان ہو، بیمار ہو، جو اس کے لیے اور معاشرے کے لیے برا ہو۔ لہٰذا یہ تو طے ہے کہ جن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ گالی دینا ہر انسان کی ضرورت ہے بالکل غلط ہے کیونکہ انسان کے مزاج کو ٹھنڈا رکھنے، متوازن رکھنے اور بہتر طور پر عمل کرنے کے لیے وہ تمام امور جنھیں سائنسی تحقیق شور مچا مچا کر اچھا کہے یا دعوے کرے درست نہیں ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسانی معاشرے میں بگاڑ کی صورت میں ناموافق عوامل عود کر آتے ہیں۔

ہمارے ہاں معاشرے میں سیاسی تخت ہو یا گھریلو الجھنیں، عوامی مسائل ہوں یا کچھ اور جن پر حرام کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے وہ انسان کے لیے بہتر نہیں ہیں۔ اس سے ہمیشہ مسائل ہی جنم لیتے ہیں۔

ہمارے مشرقی ماحول میں ابھی بھی گھروں میں اس طرح کی آبیاری سے گریز کیا جاتا ہے جہاں بد اخلاقی، بدگوئی اور لچر پن کو اولیت دی جائے یا درگزر نہیں کیا جاتا، پھر بھی آئے دن اخبارات و رسائل میں سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر بیانات اور بدگوئی کے نمونے نظر آتے رہتے ہیں جو مسلمان معاشرے کے لیے دیمک ہے۔ ہم بدگوئی اورگالم گلوچ سے بچاؤ اور اپنے معاشرے کو خوب صورت بنانے کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں، اگر نہیں تو ایک بار رب العزت کے احکامات کو توجہ سے پڑھیں جو دنیائے عالم کے لیے ایک مکمل کتاب ہے جو ہمیں صحت مند رجحان کے ساتھ زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا استعمال کے مطابق کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

کراچی والوں کو بخش بھی دیں

حکومت سندھ نے پہلے سے عذابوں میں مبتلا ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے شہریوں پر ایک اور مزید مہربانی کی اور کراچی ٹریفک پولیس کے ذریعے نئے فیس لیس ای ٹریکنگ سسٹم (ٹریکس) کا نفاذ کرا دیا جس کے نتیجے میں صرف 6 گھنٹوں میں ایک کروڑ تیس لاکھ روپے کے ای ٹکٹس جاری ہو گئے اور کمائی کا ایک نیا طریقہ ہاتھ آ گیا جو شاید لاہور کی نقل میں کیا گیا ہے جہاں کشادہ اور خوبصورت سڑکوں پر گاڑیاں تیز رفتاری سے دوڑ رہی ہیں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی والوں سے ٹریکس کے ذریعے جو بھاری جرمانوں کے ذریعے آمدنی ہو رہی ہے وہ رقم سڑکوں اور شاہراہوں کے علاوہ اندرون شہر میں سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کی جا رہی ہے۔

کراچی میں ٹریکس کے ذریعے کمائی کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس کے ذریعے صرف 6 گھنٹوں میں ایک کروڑ 30 لاکھ روپے کے ای ٹکٹس جاری ہو گئے جس کی ملک بھر میں مثال نہیں ملتی کہ افتتاح کے بعد کسی اور شہر میں اتنی بڑی رقم کے ای ٹکٹس جاری ہوئے ہوں، جن کی تعداد 2600 سے زائد ہے جب کہ کراچی میں لاہور جیسی سڑکیں شاید چند ہی ہیں جو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی بجائے دیگر اداروں کے ماتحت ہوں۔

ڈی آئی جی ٹریفک کے مطابق شہر کے 30 فی صد علاقوں میں جدید کیمروں کی تنصیب کا کام مکمل کر لیا گیا ہے اور باقی 70 فی صد جن سڑکوں پر ٹریفک سگنل، لین مارکنگ، زیبرا کراسنگ اور اسٹاپ لائن موجود ہی نہیں، وہاں ای ٹکٹ جاری نہیں ہوں گے۔ یہ فیصلہ سندھ حکومت کا شہریوں پر احسان عظیم ہے، ورنہ کراچی کی ٹریفک پولیس نے نئے ناظم آباد اور ان علاقوں میں بھی جرمانے کیے ہیں جو نجی رہائشی منصوبے ہیں جہاں سڑکوں کی تعمیر کوئی بلدیاتی ادارہ نہیں بلکہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کراتی ہیں جو مضبوط اور پائیدار ہوتی ہیں۔

کراچی ٹریفک پولیس کے مطابق سب سے زیادہ چالان سیٹ بیلٹ کی خلاف ورزی، ہیلمٹ نہ استعمال کرنے پر کیے گئے جب کہ اوور اسپیڈنگ، سگنل توڑنے، لین لائن کی خلاف ورزیوں پر ہوئے ہیں۔ ٹریفک کے جدید خودکار نظام میں سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں کو سافٹ ویئر سے منسلک کرکے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔

یہ بھی سو فی صد حقیقت ہے کہ کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی عام بنی ہوئی ہے اور پوش علاقوں والے فخریہ طور پر ٹریفک قوانین توڑتے ہیں اور جرمانے ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ لوگ مہنگی گاڑیوں اور لاکھوں روپے مالیت کی ہیوی بائیکس پر شوقیہ سفر کرتے اور جان بوجھ کر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے آ رہے ہیں۔

پوش علاقوں کی امیر خواتین کے لیے بھی ٹریفک قوانین کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، وہ بھی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرکے متعدد افراد کو کچل چکی ہیں اور نہایت امیر گھرانوں کی یہ خواتین گرفتار بھی ہو چکی ہیں اور پوش علاقوں کے نوجوان بھی اس سلسلے میں کم نہیں جب کہ شہر کے اندرونی علاقوں میں کمسن بچے گلیوں میں موٹر سائیکلیں اس کے باوجود دوڑاتے ہیں کہ وہاں سڑکوں کا وجود نہیں ہوتا اور راستے بھی ناہموار ہوتے ہیں اور ان کے والدین بھی اپنے کمسن بچوں کو موٹرسائیکلیں دے دیتے ہیں جن سے اکثر حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ٹریفک پولیس مرکزی شاہراہوں پر جلد 12 ہزار جدید کیمرے نصب کرے گی جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں پر بھاری جرمانے ہوں گے جن سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تصور ٹریفک پولیس افسران کو بھی نہیں ہوگا۔

ٹریکس کا نشانہ شہر کی وہ اکثریتی آبادی بنے گی، جہاں سڑکوں کا وجود نہیں اور اگر سڑکیں ہیں تو وہ انتہائی تباہ حال ہیں جہاں جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں اور پیدل چلنے کے بھی قابل نہیں رہی ہیں۔ ٹریفک پولیس کے ایک ڈی ایس پی کا کہنا ہے کہ ای ٹکٹس سسٹم حکومت نے جرمانہ وصولی کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے نافذ کیا ہے جب کہ اس سے قبل آئی جی پولیس کا ایک بیان میڈیا میں آیا تھا کہ ٹریفک خلاف ورزی پر ان کے خیال میں جرمانہ کم ہے جو کم ازکم ایک لاکھ روپے ہونا چاہیے اس بیان سے واضح ہے کہ حکومت کو کراچی کے لوگوں کا کتنا احساس ہے اور حکومت نے عوام پر احسان کرکے بیس ہزار تک جرمانہ مقرر کیا ہے جس کی وصولی ای ٹکٹس سے شروع بھی ہو گئی ہے۔

حکومت اور کراچی ٹریفک پولیس کی بے حسی یہ ہے کہ اجرک والی موٹرسائیکل نمبر پلیٹس کی طرح ٹریکس کا نفاذ بھی صرف کراچی پر کیا گیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں کراچی سونے کی چڑیا ہے جہاں کے لوگوں کے پاس پیسہ بہت ہے جو پہلے اجرک والی نمبر پلیٹس اور اب ای ٹکٹس سسٹم کے تحت وصول ہوگا جب کہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ کراچی میں سفری سہولتوں کا شدید فقدان ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد موٹر سائیکلوں کا استعمال کرتی ہے اور ان غریبوں کے پاس سفرکی جو کھٹارا بائیکس ہیں ان کی موجودہ پندرہ بیس ہزار روپے کی بھی مالیت نہیں ہے ان سے بھی ٹریفک خلاف ورزی پر جرمانہ بیس ہزار وصول کیا جائے گا۔

 ایم کیو ایم اور مرکزی مسلم لیگ نے ای ٹکٹس سسٹم کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے اور شہریوں نے بھی ٹریکس پر انتہائی برہمی اور تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے اسے مزید کراچی دشمنی قرار دیا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کی دشمن بنی ہوئی ہے وہ پہلے کراچی کی صرف سڑکیں ہی تعمیر کرا دے پھر ٹریکس نافذ کرے۔

تباہ حال سڑکوں پر بے دردی سے جرمانے شہریوں پر ظلم کی انتہا ہے، اس لیے سندھ حکومت کراچی والوں کو اب تو بخش دے کیونکہ عالمی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ اب کراچی رہائش کے قابل نہیں رہا، جس کے شہری تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور پی پی حکومت کراچی سے بے حسی پر اتری ہے، اب تو کراچی کو بخش دیا جائے اور سب سے پہلے کراچی والوں کو بنیادی سہولیات ہی فراہم کر دی جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • آزاد ‘ محفوظ صحافت انصاف ‘ جمہوریت کی ضامن: سینیٹر عبدالکریم 
  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • آزادصحافت جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، قاضی اشہد عباسی
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد