حماس تیری مزاحمت کو سلام
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
ابو ظبی، دوحا اور مصر کی براہ راست سرپرستی اور امریکا کی بالواسطہ شرکت سے اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدہ اللہ اللہ کرکے طے پا گیا یہ مذاکرات کئی ماہ سے چل رہے تھے یہ تو اسرائیل ہی تھا جو ہر دفعہ مذاکرات میں کچھ نکات پر رضامند ہونے کے بعد بھاگ جاتا تھا اور الزام حماس کے اوپر لگا دیتا کہ حماس طے شدہ نکات سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ ان مذاکرات میں دوحا، مصر اور ابوظبی تو شدت سے خواش مند تھے کہ مذاکرات جلد کامیاب ہو جائیں امریکا بظاہر تو یہ تاثر دے رہا تھا کہ وہ مذاکرات کا حامی ہے اور امریکا کی خواہش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو لیکن اس نے اسرائیل کی ہٹ دھرمی پر اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ اسرائیل روزآنہ بمبار ی کرکے سیکڑوں فلسطینیوں کے چیتھڑے اُڑارہا تھا اور اس پر امریکا کی طرف یہ بیان آتا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ ٹرمپ نے اپنی کامیابی کے بعد حماس ہی کو دھمکی دی کے وہ مذاکرات سے فرار اختیار نہ کرے ورنہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوگا اس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکے گی۔ یہ بیان کئی بار آیا لیکن ٹرمپ نے اسرائیل کو کچھ بھی نہیں کہا۔ جبکہ امریکی انتخابات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلمان ووٹوں کی اکثریت جو ساٹھ ستر فی صد تک بنتی ہے نے ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا جبکہ یہودی ووٹروں کی اکثریت نے ٹرمپ کی مخالف امیدوار کملا ہیرس کو ووٹ دیا تھا۔ ٹرمپ کے اس بیان سے مسلمانوں کو شاک پہنچا کہ اس جنگ میں پچاس ہزار کے قریب فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہوئے ہیں پھر وہ فلسطینی جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اس کی تو کوئی تعداد سامنے ہی نہیں آئی اور یہ غزہ کا پورا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا لیکن معاہدہ ہوجانے کے بعد کی جو خبریں مل رہی ہیں اس کی تفصیل میں یہ پوائنٹ بھی سامنے آیا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے مشرق وسطی کے ایلچی کو نیتن یاہو کے پاس بھیج کر یہ پیغام دیا کہ ہر صورت میں حلف بردار سے پہلے مذاکرات ہوجانا چاہیے اب یہ الگ بات ہے کہ بائیڈن بھی اس کا کریڈٹ لے رہے ہیں ان کا یہ بیان بھی آیا ہے کہ یہ عارضی جنگ بندی ہے پہلے مرحلے کے بعد ہم مستقل جنگ بندی تک پہنچ جائیں گے۔
میرے خیال میں مذاکرات میں جو سب سے بڑی رکاوٹ تھی وہ یہی تھی کہ حماس کا بڑا اور بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ مستقل جنگ بندی ہو اور اسرائیل غزہ کا علاقہ خالی کردے جبکہ اسرائیل اس بات پر اڑا ہوا تھا کہ عارضی طور پر جنگ بند کردی جائے اور اسرائیلی افواج غزہ کا علاقہ خالی نہیں کرے گی۔ میں جب مذاکرات کی کامیابی کی خبر پڑھ رہا تھا تو خبر سے زیادہ دلچسپی مجھے اس فوٹو میں تھی جس میں فلسطینی خوشی سے نعرے لگا رہے تھے اور ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ فلسطین کے حوالے سے اگر ماضی قریب کا مطالعہ کیا جائے تو کئی معاہدے ہوئے جس میں یاسر عرفات کی قیادت میں اوسلو معاہدہ ہوا تھا آج تک اسرائیل نے کسی بھی معاہدے کی پابندی نہیں کی۔ اب جو معاہدہ ہوا اس میں بھی کئی خدشات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ ابھی معاہدہ ہونے کے بعد بھی اس نے بمباری کی اور اس میں 73 فلسطینی شہید ہوئے جس میں ایک اسرائیلی یرغمالی بھی ہلاک ہوا۔ حماس نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے بمباری نہیں روکی تو یرغمالیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ حماس کے سابق سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت جس انداز میں ہوئی اس کی آخری لمحات کی تصویر پوری دنیا میں وائرل ہوئی وہ ایک ہاتھ سے زخمی ہے اور جو ڈرون اس کی طرف آرہا ہے دوسرے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ڈنڈی سے اس ڈرون کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر شہید ہوجاتے ہیں۔ ان کی ڈائری کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں اس میں ایک اہم بات جو انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے بھی کہی تھی کہ حماس اسرائیلی یرغمالیوں کسی بھی قسم کے دبائو میں آکر رہا نہ کرے اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی، پھر یہی ہوا کے حماس نے نہ صرف ان کو کسی دبائو میں آکر واپس کیا اور نہ ہی ان کے قید میں رہنے کی جگہ کا کسی کو علم ہوا اسرائیل سر پٹخ کر رہ گیا کہ وہ شدید قسم کے حملے اور بمباری کرکے انہیں رہا کرالے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا آج جو حماس کو مذاکرات کی میز پر جو فتح حاصل ہوئی ہے اس میں یحییٰ سنوار کی اس نصیحت کا بھی دخل ہے۔
سوا سال کی جنگ میں اسرائیل نے کیا کھویا اور کیا پایا اور اس کے مقابلے میں ایک بظاہر کمزور سی تنظیم حماس نے کیا کھویا اور کیا پایا اس کے تجزیے تو آتے رہیں گے۔ سردست تو یہ بات اہم ہے کہ 467 دن کی جنگ میں 100 فلسطینی اوسطاً روز کے حساب سے شہید ہوئے لیکن حماس کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی انہوں نے بڑی استقامت کے ساتھ اپنی مزاحمتی جنگ جاری رکھی بس اب تو دل سے یہی کلمات نکلتے ہیں کہ اے حماس والوں تمہاری عظمت کو سلام، اے فلسطینیوں تمہاری استقامت کو سلام، اے القسام بریگیڈ کے مجاہدوں تمہاری مزاحمت کو سلام۔ پہلے مرحلے میں چھے ہفتے کی سیز فائر ہوگی، 33 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے میں دوہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جن میں 250 قیدی وہ ہیں جنہیں سزائے موت سنائی جاچکی ہے، پہلا مرحلہ جو ڈیڑھ ماہ کا ہے اس میں اسرائیلی فوجی غزہ کے گنجان علاقوں سے نکل جائیں گی اور اسرائیل مصر کی رفح کی راہداری کو کھول دے گا۔ 600 ٹرکوں کو یہاں سے غزہ جانے کی اجازت دی جائے گی۔ امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلے معاہدے کا اعلان کیا جو بائیڈن نے کہا ہے کہ سیز فائر بہترین امریکی سفارت کاری کا نتیجہ ہے، سوال یہ کہ یہ بہترین سفارت کاری پہلے کہاں سوئی ہوئی تھی حماس نے کہا ہے کہ جنگ بندی فلسطینیوں کی ثابت قدمی اور مزاحمت کا نتیجہ ہے، حماس کے مرکزی رہنما خلیل الحیا کا کہنا ہے کہ فلسطینی عوام 467 روز تک جاری اسرائیلی مظالم کو بھولیں گے نہ ہی اسے معاف کریں گے۔ فلسطینیوں نے کبھی بھی اسرائیل کے سامنے اپنی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔
دیکھا جائے تو اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا وہ جو غرور میں مبتلا تھا اور کہتا تھا کہ ہم غزہ کو چند ہفتوں میں صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے آج اس کا غرور خاک میں مل گیا یمن کے حوثیوں نے جنگ بندی پر مزاحمتی گروپوں کو سیلوٹ پیش کیا ہے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس، یورپی یونین اور عالمی برداری نے جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے معاہدے کی جزیات کا کام ابھی باقی ہے جنہیں چند گھنٹوں میں حل کرلیا جائے گا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’اگلے چھے ہفتوں کے دوران اسرائیل دوسرے مرحلے تک پہنچنے کے لیے ضروری انتظامات پر بات چیت کرے گا جس سے جنگ کا مستقل خاتمہ ہوگا‘‘۔ دوسرے مرحلے میں جانے کے لیے بات چیت کے لیے بہت سے مسائل ہیں لیکن منصوبے میں کہا گیا ہے کہ اگر مذاکرات میں چھے ہفتے سے زیادہ وقت لگتا ہے تو جنگ بندی تب تک جاری رہے گی جب تک مذاکرات جاری رہیں گے۔
7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل کے 405 فوجی ہلاک ہوئے اسرائیل کے اندر کی ہلاکتیں 1200 سے زائد ہیں اسرائیل فورسز کے ہاتھوں جو فلسطینی شہید ہوئے ہیں اس میں 18 ہزار بچے اور 11ہزار ملبے تلے دفن ہیں لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ ملبے تلے دب کر شہید ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ کچھ اجتماعی قبروں کا انکشاف بھی ہو۔ اس جنگ بندی کے بعد سب سے پہلا کام ایک لاکھ سے زائد زخمیوں کا علاج معالجہ ہے اس کے لیے جو چھے سو ٹرک رفح کراسنگ سے غزہ میں آئیں گے اس میں زیادہ تر میڈیکل کے سامان اور دوائیں ہیں اسپتال تو سارے تباہ کردیے گئے اب عارضی اسپتال قائم کیے جائیں گے۔ کم از کم 19 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں 4 لاکھ 36 ہزار مکانات مکمل تباہ ہوچکے۔ غزہ چار کروڑ ٹن ملبے کا ڈھیر ہوکر رہ گیا، چھے لاکھ ساٹھ ہزار بچوں کو ایک سال سے اسکول تک رسائی نہ مل سکی غزہ کے 564 اسکول میں سے 534 کو تباہ کردیا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مذاکرات میں نے کہا ہے کو سلام حماس کے ا ہے کہ کے لیے کے بعد ہیں اس اور اس تھا کہ
پڑھیں:
''اسرائیل مردہ باد'' ملین مارچ
ریاض احمدچودھری
جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے اسرائیل کے خلاف اور غزہ کے لیے ”مجلس اتحاد امت” قائم کرتے ہوئے 27 اپریل کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان کیا ہے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے مشترکہ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مینار پاکستان پر جلسہ ہوگا ، ملک بھر میں بیداری مہم چلائیں گے۔لاہور اسرائیل مردہ باد ملین مارچ اسرائیلی بربریت کے خلاف فلسطینی مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔
محترم حافظ نعیم الرحمن ،امیر جماعت اسلامی پاکستان، نے اسلام آباد میں غزہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے مارچ کے شرکا سے خطاب میں 26 اپریل کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ ان کے بقول یہ ہڑتال ایک پْرامن جہاد ہو گی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ پاکستان میں حماس کا دفتر کھولا جائے۔ غزہ یکجہتی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ فلسطین سے ہمارا تعلق ایمان اور عقیدے کا ہے۔ کچھ لوگ پاکستان سے اسرائیل گئے اور وہاں وعدے کر کے آئے ہیں، اسرائیل کے ساتھ بڑھنے سے سب کچھ برباد ہو جائے گا، فلسطین کا مقدمہ لڑنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ہم کسی سے ٹکراؤ نہیں چاہتے، نہ پولیس سے فساد چاہتے ہیں، مگر ہمارا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی نے آج ریڈ زون میں واقع امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ تاہم حکومت کی جانب سے ریڈ زون جانے والے تمام راستوں کو کنٹینرز لگا کر مکمل بند کرنے کے بعد پارٹی نے تاہم انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد انھوں نے ریڈ زون جانے کا فیصلہ واپس لیا اور ایکسپریس وے پر مظاہرے کا فیصلہ کیا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ‘ہم اپنے ملک کی عزت کرتے ہیں، مگر حکمرانوں کو جھنجھوڑنا چاہتے ہیں کہ فلسطین کے لیے، کشمیر کے لیے، ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔’ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ غفلت کی نیند سو رہی ہے، جسے جگانے کے لیے بار بار اسلام آباد کا رخ کیا جاتا ہے۔یہ صرف سیاسی معاملہ نہیں، فلسطین سے ہمارا دینی، تاریخی، اور نظریاتی رشتہ ہے۔ جب پاکستان بنا، تو فلسطین کی آزادی کی تحریک بھی ساتھ ہی چل رہی تھی۔ قائداعظم نے اسرائیل کو مغرب اور استعمار کی ناجائز اولاد قرار دیا تھا، اور اعلان کردیا تھا کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔مسلم حکمرانوں نے بے حسی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ آج بھی نتن یاہو کہتا ہے کہ ہم جنگ نہیں روکیں گے۔ کیا یہ وقت نہیں کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں؟ مسلم حکمران اب بھی نہ جاگے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔اْنہوں نے امریکہ کو غیر معتبر قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کسی کا نہیں ہوتا، نہ دوستوں کا نہ دشمنوں کا۔ آج وہاں خود ان کی حکومت کے خلاف لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ ‘یورپ، پیرس، ایڈنبرا ہر جگہ اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔میں پوری امت باالخصوص پاکستانی قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ اسرائیلی اور اس کے پشت پناہوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رکھیں۔
الخدمت ویمن ٹرسٹ کی نائب امیر قدسیہ وحید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہر بندے نے اپنا حساب دینا ہے اور ہم سب نے اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ جیسے بائیکاٹ کر کے یا ملین مارچ کی صورت میں ہو۔ اللہ بس ہمارے فلسطین پر اپنا کرم کر دے۔’مغربی ممالک اکٹھے ہو کر فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ یہ ظلم اتنی انتہا پر ہے کہ جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ پوری دنیا کے مسلمان اور بالخصوص پاکستان کی عوام اپنی فلسطینی بہن بھایئوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔’اس سے قبل لاہور اور ملتان سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی جماعت اسلامی نے رواں ہفتے کے دوران فلسطینیوں سے یکجہتی کے لیے اجتماعات اور ریلیاں منعقد کی تھیں۔کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی میں طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلی منعقد کی تھی جس میں ہزاروں طلبہ شریک ہوئے تھے۔ گزشتہ اتوارکو بھی جماعت اسلامی پاکستان نے کراچی میں ‘یکجہتی غزہ ملین مارچ’ منعقد کیا تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی تھی۔کراچی کی مرکزی شاہراہ فیصل پر مارچ میں شریک لوگوں کی بڑی تعداد سے خطاب میں کہا کہ وہ اس ہڑتال کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے دیگر ممالک کی تحریکوں اور ریاستوں سے بھی رابطہ کریں گے۔تاہم بعد میں تاجر تنظیموں سے رابطوں کے بعد یہ تاریخ تبدیل کر کے 26 اپریل کر دی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو خطوط لکھے جا چکے ہیں اور عالمی سطح پر دباؤ ڈالا جائے گا، جبکہ عوام کو امریکہ کے غلاموں کے خلاف اْٹھ کھڑے ہونے کی کال دی جائے گی تاکہ پاکستان کو ایک باوقار اور ترقی یافتہ ملک بنایا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔