آئینی اور ریگولر بینچوں کے ججز میں تصادم بڑھ گیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
26ویں آئینی ترمیم کے بعد آئینی اور ریگولر بنچوں کے ججوں کے درمیان تصادم بڑھ گیا ہے کیونکہ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کیخلاف عدالتی احکامات/ ریمارکس دینا شروع کر دیے ہیں جس کی حالیہ عدالتی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
مبصرین کے مطابق عوامی سطح پر ایک دوسرے کے طرز عمل پر سوال اٹھانے کا یہ رجحان انتظامیہ کو مزید اعتماد دے گا تاکہ عدلیہ کو بطور ادارہ مزید کمزور کیا جا سکے۔
اعلیٰ عدلیہ بطور ادارہ تب کمزور ہونا شروع ہوئی، جب چیف جسٹس قومی سیاست کی تشکیل کیلئے ہائی پروفائل مقدمات میں سازگار عدالتی احکامات لینے کیلئے ہم خیال بنچ تشکیل دے رہے تھے۔
ججوں میں تصادم تب مزید بڑھ گیاجب پی ٹی آئی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی برطرفی کے حوالے سے صدارتی ریفرنس دائر کیا۔
ججوں کا بھی ایک طبقہ انھیں بے دخل کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا تاہم وہ آخر میں کامیاب نہ ہو سکے۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں بھی عدالتی سیاست جاری رہی۔
سپریم کورٹ کے دو جج اعجاز الاحسن اور مظاہر علی اکبر نقوی کو گزشتہ سال مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ یہاں تک کہ امین الدین خان کی سربراہی میں بڑے بنچ نے قرار دیاتھاسپریم جوڈیشل کونسل آٓئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریٹائرڈ ججوں کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔
جسٹس امین الدین خان کو جے سی پی کے غیر عدالتی ارکان نے آئینی ترمیم کا سربراہ منتخب کیا۔اب 26 ویں آئینی ترمیم کا فائدہ اٹھانے والے ایک طرف اور ترمیم سے ناراض دوسری طرف ہیں۔
آئینی بنچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ موخر کر دیا۔ اب جے سی پی میں مزید 8 ہم خیال ججوں کی تقرری میں حکومت کی کامیابی کا امکان ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شاہد جمیل خان کا خیال ہے سپریم کورٹ میں تین مقدمات کی کارروائی نے عدالتی انتشار کو بڑھا دیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں بنچ نے ایڈیشنل رجسٹرار کو توہین عدالت کی کارروائی سے فارغ کر دیا تاہم یہ قرار دیتے ہوئے کہ 2 کمیٹیوں کے ارکان نے عدالتی حکم کو نظر انداز کیا،فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جو خود تینوں مقدمات کی کارروائی کے گواہ تھے، کہتے ہیں متوقع آبزرویشنز یقینی طور پر تنازعہ کو مزید بڑھائیں گے جبکہ سپریم کوٹ کو مزید منقسم کرے گی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
39 اراکین کی حد تک پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے فیصلے پر عملدرآمد کی استدعا مسترد
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے 39 اراکین اسمبلی کی حد تک پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی استدعا مسترد کردی۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے کیا 39 اراکین کو پی ٹی آئی کا ڈکلیئر کردیا ہے، وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں 39 اراکین کی حد تک تناسب طے کرکے نشستیں نہیں دی گئیں۔
ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ مجموعی نشستوں پر فارمولا طے کرکے نشستیں دیں گے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا اوروں کو دے دی ہیں؟ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ابھی کسی کو نہیں دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 80 نشستوں کے تناسب سے تو 22 یا 23 مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ جب 39 اراکین کو پی ٹی آئی کا ڈکلیئر کردیا گیا تو ان کے تناسب سے مخصوص نشستیں کیوں نہیں دیں؟
وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ پارلیمنٹ نے قانون بنایا جس میں کہا گیا کاغذات نامزدگی میں سیاسی وابستگی ظاہر کردی جائے تو تبدیلی نہیں ہو سکتی، قانون کا اطلاق ماضی سے کیا گیا، ہم نے اس معاملے پر ایک نظرثانی بھی دائر کر رکھی ہے، جو زیر التوا ہے۔
فیصل صدیقی نے استدلال کیا کہ اگر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو مجھے سپریم کورٹ کے مستقبل کی فکر ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے 39 اراکین اسمبلی کی حد تک پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی استدعا مسترد کردی۔
Post Views: 4