Express News:
2025-10-04@23:41:13 GMT

آئینی اور ریگولر بینچوں کے ججز میں تصادم بڑھ گیا

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

اسلام آباد:

26ویں آئینی ترمیم کے بعد آئینی اور ریگولر بنچوں کے ججوں کے درمیان تصادم بڑھ گیا ہے کیونکہ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کیخلاف عدالتی احکامات/ ریمارکس دینا شروع کر دیے ہیں جس کی حالیہ عدالتی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

مبصرین کے مطابق عوامی سطح پر ایک دوسرے کے طرز عمل پر سوال اٹھانے کا یہ رجحان انتظامیہ کو مزید اعتماد دے گا تاکہ عدلیہ کو بطور ادارہ مزید کمزور کیا جا سکے۔

اعلیٰ عدلیہ بطور ادارہ تب کمزور ہونا شروع ہوئی، جب چیف جسٹس قومی سیاست کی تشکیل کیلئے ہائی پروفائل مقدمات میں سازگار عدالتی احکامات لینے کیلئے ہم خیال بنچ تشکیل دے رہے تھے۔

ججوں میں تصادم تب مزید بڑھ گیاجب پی ٹی آئی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی برطرفی کے حوالے سے صدارتی ریفرنس دائر کیا۔

ججوں کا بھی ایک طبقہ انھیں بے دخل کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا تاہم وہ آخر میں کامیاب نہ ہو سکے۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں بھی عدالتی سیاست جاری رہی۔

سپریم کورٹ کے دو جج اعجاز الاحسن اور مظاہر علی اکبر نقوی کو گزشتہ سال مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔  یہاں تک کہ امین الدین خان کی سربراہی میں بڑے بنچ نے قرار دیاتھاسپریم جوڈیشل کونسل آٓئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریٹائرڈ ججوں کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔

جسٹس امین الدین خان کو جے سی پی کے غیر عدالتی ارکان نے آئینی ترمیم کا سربراہ منتخب کیا۔اب 26 ویں آئینی ترمیم کا فائدہ اٹھانے والے ایک طرف اور ترمیم سے ناراض دوسری طرف ہیں۔

آئینی بنچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ موخر کر دیا۔ اب جے سی پی میں مزید 8 ہم خیال ججوں کی تقرری میں حکومت کی کامیابی کا امکان ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شاہد جمیل خان کا خیال ہے  سپریم کورٹ میں تین مقدمات کی کارروائی نے عدالتی انتشار کو بڑھا دیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں بنچ نے ایڈیشنل رجسٹرار کو توہین عدالت کی کارروائی سے فارغ کر دیا  تاہم   یہ قرار دیتے ہوئے کہ 2 کمیٹیوں کے ارکان نے عدالتی حکم کو نظر انداز کیا،فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جو خود تینوں مقدمات کی کارروائی کے گواہ تھے، کہتے ہیں متوقع آبزرویشنز یقینی طور پر تنازعہ کو مزید بڑھائیں گے جبکہ سپریم کوٹ کو مزید منقسم کرے گی۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

سپریم کورٹ ججز تبادلہ کیس: جسٹس نعیم اختر افغان کا 40 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری

سپریم کورٹ میں ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان کا تحریر کردہ اختلافی نوٹ 40 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں ججز کی مستقل منتقلی کو آئین کے آرٹیکل 200 کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت ٹرانسفر صرف عارضی ہو سکتا ہے، مستقل نہیں۔

صدر پاکستان نے ججز کے ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن بغیر شفاف معیار اور بامعنی مشاورت کے جاری کیا، جو غیر آئینی، بدنیتی پر مبنی اور غیر ضروری جلدی میں کیا گیا عمل تھا۔

جسٹس نعیم اختر افغان کے مطابق صدر کا یہ نوٹیفکیشن بے اثر ہے اور قانوناً اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ججز کا تبادلہ عدالتی آزادی اور تقرری کے آئینی طریقہ کار کے منافی ہے۔

اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات لگائے گئے تھے۔

خط میں دباؤ، بلیک میلنگ، غیر قانونی نگرانی اور سیاسی مقدمات میں فیصلے انجینئر کرنے کی کوششوں کا ذکر تھا۔

نوٹ میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ بھی ججز نے اپنے خط میں اٹھایا تھا اور چیف جسٹس سے عدالتی کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

اختلافی نوٹ کے مطابق ججز کے اسی خط کے بعد حکومت نے جلد بازی میں ان کی مستقل منتقلی کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد اسلام آباد ہائیکورٹ کی آزادی کو متاثر کرنا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اختلافی نوٹ ججز تبادلہ کیس جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ؛ سپر ٹیکس کا مطلب ہی اضافی ٹیکس ہے، واضح کرنے کی کیا ضرورت، آئینی بینچ
  • ججز ٹرانسفر کیس میں دو ججوں کا اختلافی فیصلہ جاری کردیا گیا
  • ججز کا صرف عارضی تبادلہ ہو سکتا ہے، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شکیل احمد کا اختلافی نوٹ
  • سپریم کورٹ ججز تبادلہ کیس: جسٹس نعیم اختر افغان کا 40 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری
  • سپر ٹیکس کا مطلب ہی اضافی ٹیکس، واضح کرنے کی کیا ضرورت ہے: آئینی بنچ
  • کسی کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، عدالت میں کوئی تقسیم نہیں: جسٹس محسن اختر
  • ۔ 26ویں آئینی ترمیم‘ مصطفی نواز کھوکھر کی عدالتی فیصلے کیخلاف اپیل دائر
  • 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا پر اعتراضات چیلنج
  • 26ویں آئینی ترمیم کیس: مصطفیٰ نواز کھوکھر کی رجسٹرار آفس کے اعتراضات کیخلاف اپیل دائر
  • سپر ٹیکس کیس: ایک جرم کے دو سیکشنوں میں سے وہ لگے گا جس کی سزا کم ہو: آئینی بنچ