سرگودھا:

پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے کہا ہے کہ وزیراعظم پرچی آنے پر مذاکرات کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر  عمر ایوب نے کہا کہ  وزیراعظم کی حیثیت پالشیا یا اردلی سے زیادہ نہیں ہے، ان کے پاس کوئی اختیار نہیں۔  وزیراعظم پرچی آنے پر مذاکرات کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آئی۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا  ہے۔  پیپلز پارٹی سندھ کے لوگوں کا سودا کرکے پانی کی تقسیم کرنے پر راضی ہو جائے گی۔۔

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ہم پیکا ایکٹ ترمیم کو مسترد کرتے ہیں،  حکومت آزادی رائے پر قدغن لگا رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی پیکا قانون کے خلاف باتیں کرتی تھی، لیکن اب خاموش ہے۔ پاکستان میں آزادیٔ صحافت یا آزادی کی بات کرنے کا معاملہ ختم ہوچکا ہے۔میڈیا نمائندگان کھل کا لکھ سکتے ہیں نہ ہی کھل کر بات کر سکتے ہیں۔

عمر ایوب کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو امریکا یا انگلستان سے کوئی امید نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا پر آرٹیکل 6 لگانا چاہیے ۔ انہوں نے الیکشن الیکشن چوری کرانے میں موجودہ حکمرانوں کا ساتھ دیا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں لیکن ہمارا قصور کیا ہے یہ ہمیں معلوم نہیں ۔ پارلیمانی کمیٹی بنانے کے لیے میرے لکھے ہوئے خط کا ابھی تک وزیراعظم کی طرف سے جواب نہیں دیا گیا ۔ یہ معاملے کو لٹکانا چاہتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انہوں نے عمر ایوب

پڑھیں:

حماس کو ہتھیاروں سے سبکدوشی قبول ہے! اپنا موقف واضح کرے: فلسطینی وزیراعظم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

فلسطینی وزیرِاعظم محمد مصطفیٰ نے کہا ہے کہ جو بھی ملک اپنی خودمختاری کا احترام کرتا ہے، وہ ہتھیار، قانون اور حکومت میں دوئی برداشت نہیں کرتا۔

عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیراعظم فلسطین نے  العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ حکمرانی اور اسلحے کے معاملے پر اپنا مؤقف باضابطہ طور پر واضح کرے۔ محمد مصطفیٰ نے زور دے کر کہا کہ غزہ میں قانون، سکیورٹی اور ہتھیار صرف فلسطینی ریاست کے ہاتھ میں ہونے چاہییں۔

وزیرِاعظم محمد مصطفیٰ نے کہا کہ “اسرائیلی نہیں چاہتے کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ میں دوبارہ اقتدار سنبھالے”۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ غزہ کو مکمل طور پر فلسطینی اتھارٹی کے تحت ہونا چاہیے، ہم کسی جزوی کردار کو قبول نہیں کریں گے”۔

انہوں نے کہا کہ اگر بین الاقوامی فورس غزہ میں سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالتی ہے تو وہ فلسطینی اتھارٹی کی منظوری سے ہی آئے اور اس کا کردار صرف عارضی ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ فورس فلسطینیوں کی مددگار ہو، متبادل نہیں”۔

محمد مصطفیٰ نے بتایا کہ فلسطینی حکومت نے عرب ممالک سے غزہ میں اتھارٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے حمایت حاصل کر لی ہے۔
ان کے مطابق “ہماری فورسز کو مصر اور اردن کی جانب سے تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ غزہ میں اپنے فرائض انجام دے سکیں”۔

انہوں نے کہا کہ “غزہ میں 18 ہزار سکیورٹی اہلکار موجود ہیں جو اپنی ذمہ داریاں دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں، جب کہ یورپی مانیٹرنگ فورسز سرحدی گزرگاہوں پر اتھارٹی کے کام میں معاونت کریں گی”۔

وزیرِاعظم نے کہا کہ “غزہ میں کسی بھی بین الاقوامی فورس کی کارروائی اسرائیلی انخلا سے مشروط ہے۔ کوئی غیر ملکی فورس یا کمیٹی دو ملین فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتی”۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ “غزہ کے انتظام کے لیے کسی متبادل نظام کی تلاش کی ضرورت نہیں، اصل یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے ادارے وہاں واپس جائیں”۔

تاہم انہوں نے کہا کہ “ایک عبوری انتظام پر بات ہو سکتی ہے جب تک کہ اتھارٹی مکمل طور پر اقتدار سنبھال نہ لے تب تک ایک عبوری انتظامیہ ذمہ داریاں سسنبھالے”۔

انہوں نے واضح کیا کہ “اس وقت اسرائیل ہی واحد فریق ہے جو اتھارٹی کی واپسی میں رکاوٹ بن رہا ہے”۔

محمد مصطفیٰ نے کہا کہ “سعودی عرب نے فلسطینی اتھارٹی کے اصلاحاتی پروگرام کی حمایت کی ہے اور عرب قیادت میں فلسطینی ریاست کے لیے سعودی کردار نمایاں ہے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ “ریاض نے فلسطینیوں کے لیے اہم سیاسی پیش رفت کی قیادت کی اور نیویارک کا اعلان پورے خطے کے لیے امن کا جامع نقشہ پیش کرتا ہے”۔

واضح رہے کہ حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے پیر کے روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسلحے کا معاملہ ابھی زیرِ غور ہے اور یہ معاملہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے سے منسلک ہے”۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے تحت 10 اکتوبر 2025 ء کو جنگ بندی معاہدہ نافذ ہوا تھا۔ معاہدے میں غزہ کو غیر مسلح کرنے اور تکنیکی ماہرین پر مشتمل فلسطینی انتظامیہ کے ذریعے بین الاقوامی نگرانی میں چلانے کی تجویز دی گئی تھی۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • پہلے ہی معلوم تھا کہ مذاکرات کا اختیار کابل حکومت کے پاس نہیں: خواجہ آصف
  • حماس کو ہتھیاروں سے سبکدوشی قبول ہے! اپنا موقف واضح کرے: فلسطینی وزیراعظم
  • ایران پاک افغان تنازعہ میں مصالحتی کردار کیلیے تیار، اتحاد کی ضرورت ہے، مسعود پزشکیان
  • افغان طالبان کا وفد پاکستان کے مطالبات کو پوری طرح تسلیم کرنےکو تیار نہیں: ذرائع
  • عمر ایوب‘ شبلی فراز کی نااہلی سے متعلق اپیلیں عدالت عظمیٰ سے واپس لے لی گئیں
  • عمر ایوب اور شبلی فراز کی نااہلی کی اپیلیں سپریم کورٹ سے واپس لے لی گئیں
  • سپریم کورٹ: عمر ایوب اور شبلی فراز نااہلی کیسز کی سماعت، مدعیوں نے 3 درخواستیں واپس لے لیں
  • ایران امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہے: ایرانی وزیرِ خارجہ
  • ایران امریکا کیساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کیلئے تیار ہے، ایرانی وزیرِ خارجہ
  • کراچی ماسٹر پلان نافذ ہو جاتا تو پیپلز پارٹی کے وزرا کنگلے ہو جاتے، خواجہ اظہار الحسن