ہم داعش و القاعدہ سمیت متعدد عالمی دہشتگرد تنظیموں کی مالی معاونت کر رہے ہیں، امریکی رکن کانگریس کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
پنسلوانیا سے تعلق رکھنے والے امریکی ریپبلکن رکن کانگریس نے جمعرات کے روز منعقد ہونیوالی ایک سماعتی نشست میں امریکہ کیجانب سے داعش، القاعدہ و بوکو حرام جیسی متعدد عالمی دہشتگرد تنظیموں کی سالہا سال مالی معاونت کا اعتراف کیا ہے اسلام ٹائمز۔ امریکی حکومت میں فنڈز کی غلط تقسیم کے الزامات کی تحقیقات کے لئے جمعرات کے روز کانگریس میں ایک سماعتی نشست منعقد ہوئی جس میں پنسلوانیا سے تعلق رکھنے والے امریکی ریپبلکن رکن کانگریس سکاٹ پیری کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی پیشرفت کیلئے امریکی ایجنسی - امریکی امداد (USAID) کے فنڈز کہاں خرچ کئے جاتے ہیں؟ اس رقم کا کتنا حصہ کس کو ملتا ہے؟ کچھ پتہ نہیں! سکاٹ پیری کا کہنا تھا کہ آپ کی رقوم سالانہ مذہبی مدارس، داعش، القاعدہ، بوکو حرام، داعش خراسان اور دہشتگردی کے تربیتی کیمپوں کو ملنے والی نقد امداد، اور اس کے علاوہ ہر سال کے 697 ملین ڈالر پر مشتمل ہے۔ امریکی رکن کانگریس نے ان رپورٹس کی جانب بھی اشارہ کیا جن کے مطابق یو ایس ایڈ نے پاکستان میں 120 اسکولوں کی تعمیر کے لئے 136 ملین ڈالر خرچ کئے تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ اسکول بنائے بھی گئے تھے یا نہیں۔
سکاٹ پیری نے مزید کہا کہ آپ دہشتگردی کی مالی معاونت کر رہے ہیں جو یو ایس ایڈ (USAID) کے ذریعے انجام پاتی ہے! امریکی سینیٹر نے مزید کہا کہ امریکی امداد نے گزشتہ 20 سالوں کے دوران پاکستان میں تعلیمی پروگراموں پر 840 ملین ڈالر خرچ کئے ہیں، جن میں 120 اسکولوں کی تعمیر کے لئے 136 ملین ڈالر بھی شامل ہیں لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اسکول تعمیر کیا گیا ہے! اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پاکستان میں بچوں کے لئے ٹیلیویژن پر تعلیمی پروگراموں کی تشکیل کے لئے 20 ملین ڈالر مختص کئے گئے ہیں، سکاٹ پیری کا کہنا تھا کہ جی ہاں! وہ بچے ان سکولوں میں نہیں پڑھ سکتے کیونکہ یہ سکول سرے سے موجود ہی نہیں۔۔ آپ نے ان کی قیمت ادا کی ہے لیکن یہ پیسے کوئی اور لے اڑا ہے۔۔ لہذا آپ دہشتگردی کی قیمت ادا کر رہے ہیں اور یہ صورتحال اب ختم ہو جانی چاہیئے!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رکن کانگریس ملین ڈالر سکاٹ پیری کے لئے
پڑھیں:
پاکستان نے گزشتہ مالی سال 26.7 ارب ڈالرکا ریکارڈ غیر ملکی قرضہ لیا
اسلام آباد:پاکستان نے مالی سال 2024-25 کے دوران ریکارڈ 26.7 ارب ڈالرکے غیر ملکی قرضے حاصل کیے، جن میں سے تقریباً نصف حصہ پرانے قرضوں کی مدت میں توسیع (رول اوور) پر مشتمل ہے۔
وزارتِ اقتصادی امور، وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ قرضے گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں معمولی طور پر زیادہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف 3.4 ارب ڈالر (یعنی کل قرضوں کا 13 فیصد) ترقیاتی منصوبوں کیلیے وصول ہوئے جبکہ باقی قرضے بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلیے لیے گئے۔
یہ صورتحال قرضوں کی واپسی کو مزید مشکل بنا رہی ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر قرضے آمدنی پیدا نہیں کرتے۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر جون کے اختتام پر 14.5 ارب ڈالر تھے، جو کہ بنیادی طور پر انہی قرضوں کے رول اوور اور نئی ادائیگیوں کا نتیجہ ہیں، جو ملک کی بیرونی مالیاتی خودمختاری کو مزیدکمزورکرتے ہیں۔
حکومت کو 11.9 ارب ڈالر براہِ راست قرض کی صورت میں ملے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.2 ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے 2.1 ارب ڈالر اداکیے گئے جبکہ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور کویت کی جانب سے مجموعی طور پر 12.7 ارب ڈالر کے رول اوور کیے گئے۔
سعودی عرب نے 5 ارب ڈالر کے ڈپازٹس 4 فیصد شرح سود پر دیے جبکہ چین نے 6 فیصد سے زائد شرح سود پر 4 ارب ڈالر رکھوائے۔ یو اے ای نے بھی 3 ارب ڈالر کے ذخائر اسٹیٹ بینک میں رکھوائے۔
چین نے 484 ملین ڈالر کی گارنٹی شدہ رقم اثاثے خریدنے کیلیے دی جبکہ حکومت 1 ارب ڈالر کے یوروبانڈز اور پانڈا بانڈز جاری کرنے میں ناکام رہی۔ حکومت نے مہنگے تجارتی قرضے حاصل کرکے اس کمی کو پورا کیا، جن میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی گارنٹی بھی شامل تھی۔
اے ڈی بی نے 2.1 ارب ڈالر، آئی ایم ایف نے 2.1 ارب، ورلڈ بینک نے 1.7 ارب اور اسلامی ترقیاتی بینک نے 716 ملین ڈالر کے قرضے دیے۔ سعودی عرب نے 6 فیصد سود پر 200 ملین ڈالر کا تیل فنانسنگ معاہدہ بھی دیا۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق پاکستان کا قرضہ برائے جی ڈی پی تناسب اور مجموعی مالیاتی ضروریات اب ناقابل برداشت سطح سے تجاوز کر چکی ہیں۔ آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ تین مالی سالوں (2026-2028) کے دوران پاکستان کو 70.5 ارب ڈالر کی بیرونی مالیاتی ضرورت ہوگی جبکہ قرض واپسی کی صلاحیت پر مسلسل خطرات منڈلا رہے ہیں۔