Express News:
2025-05-29@15:11:43 GMT
پی ٹی آئی کا 22 مارچ مینارپاکستان جلسے کی اجازت کیلیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) نے 22 مارچ کو مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔
پی ٹی آئی نے اکمل باری کے توسط سے 22 مارچ کو مینار پاکستان پرجلسے کی اجازت کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ 22 مارچ کو قانون اور آئین کے مطابق جلسہ کرنا چاہتے ہیں۔ پرامن جلسے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ عدالت سے استدعا ہے کہ مینار پاکستان پر 22 مارچ کو جلسہ کرنے کی اجازت دی جائے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز ٹرانسفر کیس: اٹارنی جنرل نے درخواستیں ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرنے کی استدعا کردی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 27 مئی ۔2025 )اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز ٹرانسفر کیس میں اٹارنی جنرل نے پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان اور دیگر کی درخواستیں ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف متاثرہ ججز یا ٹرانسفر ہو کر آنے والے ججز ہی درخواست گزار ہو سکتے ہیں ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی.(جاری ہے)
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سماعت کے دوران جسٹس شکیل احمد نے سوال کیا کہ سیکرٹری قانون نے ٹرانسفر ہونے والے ججز کے حلف نہ اٹھانے کی وضاحت کیوں دی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وضاحت اس لیے تھی کہ ایڈوائس کی منظوری کے بعد ججز کے نوٹیفکیشن میں ابہام نہ ہو، ہائی کورٹ کی ججز کی سنیارٹی کا تعین اس وقت کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیا، جسٹس عامر فاروق سنیارٹی کے تعین میں مکمل آزاد تھے، چار ہائی کورٹ چیف جسٹس اور رجسٹرار کی رپورٹ میں ججز تبادلہ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کی ریپریزنٹیشن پر جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ دیا. بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ججز کی ریپریزنٹیشن اور فیصلے پر درخواست گزار کے وکلاءنے دلائل میں ذکر تک نہیں کیا، ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی استدعا کیا تھی؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز نے ٹرانسفرنگ ججز کی دوبارہ حلف اٹھانے پر سنیارٹی کے تعین کی استدعا کی جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت کو درخواست گزار ججز کے وکلاءنے تمام باتیں نہیں بتائیں. اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں آرٹیکل 200 کے تحت ججز کی ٹرانسفر کی معیاد طے شدہ نہیں ہے، تبادلے والے ججز کے لیے وقت مقرر کرنا آئین میں نئے الفاظ شامل کرنے جیسا ہو گا، ججز ٹرانسفر کا پورا عمل عدلیہ نے کیا ایگزیکٹو کا کردار نہیں تھا جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال کیا کہ ٹرانسفر ججز کیلئے بنیادی اصول کیا اور کیسے طے کیا گیا؟ جسٹس ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی لسٹ میں 15واں نمبر تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنیارٹی کیسے اور کس اصول کے تحت دی گئی؟. اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب ایک جج ایڈیشنل جج کے طور پر حلف لیتا ہے تو اس کی سنیارٹی شروع ہو جاتی ہے، ججز کتنا وقت اپنی ہائی کورٹس میں گزار چکے؟ ٹرانسفر کے بعد ان کی معیاد بھی جھلکنی چاہیے جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال کیا کہ پینشن اور مراعات انہیں مل جائیں گی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو آرٹیکل 200 مکمل طور پر غیر موثر ہو جائے گا، کس جج کی سنیارٹی کیا ہو گی، یہ اس ہائی کورٹ نے طے کرنا ہوتی ہے. جسٹس صلاح الدین پنہور نے سوال کیا کہ ٹرانسفر ہوکر آنے والے ججز کہاں کے ججز ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ ججز اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہیں جس پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ یہ تو ابھی طے ہونا باقی ہے کہ وہ ججز کہاں کے ہیں جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مستقل ججز کی تعیناتی تو جوڈیشل کمیشن کرتا ہے، کیا مستقل بنیادوں پر ججز ٹرانسفر کر کے جوڈیشل کمیشن کے اختیار کو غیر مو ثر کیا جاسکتا ہے؟ کہا گیا سندھ رورل سے کوئی جج نہیں، اس لیے وہاں سے جج لایا گیا، کیا سندھ سے کوئی جج اسلام آباد ہائی کورٹ میں نہیں تھا؟ بلوچستان ہائی کورٹ سے ایک ایڈیشنل جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ لایا گیا، بلوچستان ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ایڈیشنل جج کی کنفرمیشن کونسی ہائی کورٹ کرے گی؟ کون سی ہائی کورٹ کارکردگی کا جائزہ لے گی؟. اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 175 کے تحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا عمل دیا گیا، اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 200 کو نہیں چھیڑا گیا، یہ پارلیمنٹ کا فیصلہ ہے، آرٹیکل 175 میں اب آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ تمام برانچز کی عکاسی ہے، آرٹیکل 200 کا اختیار مرکزی طور پر عدلیہ استعمال کرتی ہے. جسٹس شکیل احمد نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ ججز ٹرانسفر وہاں ہو سکتے ہیں جہاں فرض کریں اسلام آباد ہائی کورٹ ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹیکس کیسز سننے کے لیے ماہر جج چاہیے تو اس کے لیے عارضی جج لایا جاسکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ محدود وقت کے لیے کسی جج کو اس وقت لایا جاتا ہے جب ہائی کورٹ کے مستقل ججز کی تعداد پوری ہو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل مکمل ہو گئے جس کے بعد عدالت نے ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کی سماعت 29 مئی ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ امید ہے آئندہ سماعت پر کیس کی سماعت مکمل ہو جائے گی درخواست گزاروں کے وکلاءآئندہ سماعت پر جواب الجواب دلائل دیں گے.