Daily Ausaf:
2025-06-30@13:14:13 GMT

حکمران کچھ تو خوف خدا کریں

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

72 وفاقی اداروں، اور ایپک فورم سے جڑے ہوئے 28اداروں کے تقریبا ًچار لاکھ سے زیادہ متاثرہ،برطرف ملازمین کی تنظیم (ایپک فورم)کے چیئرمین محمد جنید اعوان سے جب بھی ملاقات ہوئی تو انہیں کرپٹ بیوروکریسی اور مختلف حکمرانوں کے ظلم کا نشانہ بننے والے برطرف لا کھوں ملازمین اور ان سے جڑے ہوئے خاندانوں کے حوالے سے فکر مندپایا،سوال یہ ہے کہ آخر وعدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود حکمران ان مظلوم ملازمین کے مسائل کو حل کرنا تو درکنار اگر توجہ دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے تو کیوں ؟کیا ان چار لاکھ ملازمین اور ان سے جڑے ہوئے لاکھوں خاندانوں کی قسمت میں رونا دھونا اور سڑکوں پہ رلنا ہی رہے گا؟ یہ مظلوم ملازمین کب تک احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اپنے جائز حقوق مانگتے رہیں گے ،حکمرانوں کو کچھ تو خوف خدا سے کام لینا چاہیے ، ایپک چیئرمن محمد جنید اعوان بتاتے ہیں کہ’’نجکاری کے بعد سرکاری اداروں کے ملازمین کی مشکلات پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سرکاری اداروں کی نجکاری کے بعد کئی کمپنیاں شدید مالی بحران اور انتظامی مسائل کا شکار ہو گئیں، جس کا سب سے زیادہ نقصان ان اداروں کے ملازمین کو اٹھانا پڑا۔ بہت سے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا، پنشن اور دیگر مراعات روک لی گئیں، اور کچھ کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے برسوں تک عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑے۔ نجکاری کا مقصد کارکردگی کو بہتر بنانا اور اداروں کو منافع بخش بنانا تھا، لیکن کئی کیسز میں یہ تجربہ ناکام ثابت ہوا۔ ذیل میں ان پندرہ اداروں کی تفصیلات دی گئی ہیں جن کے ملازمین نجکاری کے بعد شدید متاثر ہوئے۔
پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کے بعد ہزاروں ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کر دیا گیا۔ ریٹائرڈ ملازمین کو ان کے واجبات کے حصول کے لئے برسوں تک قانونی جنگ لڑنی پڑی۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل)کی نجکاری 2005ء میں ہوئی۔ اس کے بعد ملازمین کی تنخواہوں، پنشن اور دیگر مراعات میں کمی کر دی گئی، جس پر ہزاروں ملازمین کو احتجاج کرنا پڑا اور کئی مقدمات عدالتوں میں گئے۔ مسلم کمرشل بینک (ایم سی بی)کی نجکاری 1991ء میں ہوئی۔ اس کے بعد بینک نے کئی ملازمین کو برطرف کر دیا اور بہت سے ملازمین کو وہ سہولیات نہیں مل سکیں جن کا انہیں وعدہ کیا گیا تھا۔ حبیب بینک لمیٹڈ (ایچ بی ایل)کی نجکاری کے بعد انتظامیہ نے کئی برانچز بند کر دیں، اور ہزاروں ملازمین کو فارغ کر دیا گیا، جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ (یو بی ایل)کی نجکاری 1997ء میں ہوئی۔ اس کے بعد بینک نے عملے میں بڑی حد تک کمی کر دی اور برطرف ملازمین کو قانونی چارہ جوئی کرنا پڑی۔ شاہین ایئر لائن کی نجکاری کے بعد ایئر لائن مالی بحران کا شکار ہو گئی اور بالآخر بند ہو گئی۔ ملازمین کو کئی مہینے تنخواہیں نہ ملیں اور وہ عدالتوں کے چکر لگاتے رہے۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی(کے الیکٹرک)کی نجکاری کے بعد کمپنی نے کئی ملازمین کو فارغ کر دیا اور بعض نے اپنی مراعات اور بقایاجات کے حصول کے لئے احتجاج کیا۔ کوٹ ادو پاور کمپنی (کیپکو)کی نجکاری کے بعد کئی ملازمین کو نوکری سے نکال دیا گیا، اور کمپنی کی کارکردگی میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ فوجی فرٹیلائزر بن قاسم لمیٹڈ (ایف ایف بی ایل)کی نجکاری کے بعد ملازمین کی تعداد میں کمی کی گئی، اور کئی مزدوروں کو تنخواہوں اور دیگر مراعات میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ نیشنل بینک آف پاکستان کی کچھ برانچز نجکاری کے بعد بند کر دی گئیں، جس کی وجہ سے کئی ملازمین کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔
پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کی نجکاری کے بعد انتظامی بدحالی دیکھی گئی اور ملازمین کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جن میں نوکریوں کی برطرفی اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی شامل تھی۔ پاکستان مشین ٹول فیکٹری کی نجکاری کے بعد ادارہ زبوں حالی کا شکار ہو گیا، اور سینکڑوں ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔ پاکستان انجینئرنگ کمپنی کی نجکاری کے بعد کئی ملازمین کو فارغ کر دیا گیا اور کمپنی کی پیداواری صلاحیت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن کی نجکاری کے بعد ملازمین کی بڑی تعداد کو نکال دیا گیا اور باقی ملازمین کو بھی تنخواہوں اور دیگر فوائد کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ واہ نوبل کیمیکلز کی نجکاری کے بعد ادارہ مسلسل نقصانات میں چلتا رہا اور ملازمین کی بڑی تعداد کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا۔
پاکستان میں نجکاری کے بعد کئی سرکاری ادارے اپنے ملازمین کو وہ فوائد فراہم نہ کر سکے جو ان سے وعدہ کئے گئے تھے۔ متعدد ادارے یا تو خسارے میں چلے گئے یا بالکل بند ہو گئے، جس کی وجہ سے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہو گئے اور اپنے حقوق کے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے پر مجبور ہو گئے۔ نجکاری کے عمل میں بدانتظامی اور حکومتی بدنیتی بھی ایک بڑا مسئلہ رہا۔ اکثر معاملات میں اصل خریدار سامنے آنے کے بجائے، حکومتی نمائندوں کے قریبی لوگ یا فرنٹ مین خریداری میں شامل ہوتے رہے، جس کی وجہ سے یہ عمل شفاف نہیں رہا۔ اس طرح اداروں کی فروخت زیادہ تر مخصوص کاروباری گروپس یا بااثر شخصیات کے درمیان ہی محدود رہی۔ یہ اندرونی لین دین اور باہمی سودے بازی کی وجہ سے نجکاری کا معیار اور شفافیت متاثر ہوئی، جس سے عام ملازمین کو نقصان اٹھانا پڑا اور ملک کو نجکاری کے اصل فوائد حاصل نہ ہو سکے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نجکاری کے بعد کئی کی نجکاری کے بعد ہزاروں ملازمین فارغ کر دیا گیا کئی ملازمین کو کو نوکریوں سے ایل کی نجکاری ملازمین کی کی وجہ سے کرنا پڑا اور دیگر کے لئے

پڑھیں:

بلوچستان میں سرکاری ملازمین کی ہڑتال ، انتظامی ڈھانچہ مفلوج

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جون 2025ء) سرکاری ملازمین کے اس احتجاج سے صوبے بھر میں تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز اور دیگر سرکاری خدمات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ مبصرین کہتے ہیں ناقص طرز حکمرانی کے خلاف ملازمین کا احتجاج صوبے میں گہر ے عدم اطمینان کی علامت ہے جو ریاستی مشینری کے اندر پنپ رہا ہے۔

احتجاج کی وجوہات اور ملازمین کے مطالبات

بلوچستان میں سرکاری ملازمین کی نمائندہ تنظیم ،گرینڈ الائنس کے سینئر عہدیدار ، سلام زہری کہتے ہیں کہ ملازمین کے مطالبات کو نظر انداز کیا گیا تو یہ تحریک عوامی مزاحمت میں بھی بدل سکتی ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''دیکھیں حقوق کے لیے آواز بلند کرنا کوئی جرم نہیں لیکن بلوچستان میں حکومت اپنے ہی ملازمین کو طاقت کے بل بوتے پر بنیادی حقوق سے محروم کر رہی ہے ۔

(جاری ہے)

ملازمین نے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا ہے جسے حکومت تسلیم نہیں کرسکتی۔ اس وقت صوبے میں 3 لاکھ سے ذائد ملازمین اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہیں ۔

سلام زہری کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے زمینی حقائق حکومتی دعووں سے یکسر مختلف ہیں ان کے بقول ، ''بلوچستان میں حکومتی مشینری صرف فائلوں تک محدود ہے۔ حکومت اپنی شاہ خرچیوں میں کمی کی بجائے معاشی ناکامیوں کا سارا ملبہ سرکاری ملازمین پر ڈال رہی ہے ۔ صوبے کو حکومتی اقدمات کی وجہ سے معاشی عدم استحکام کے سامنا ہے ۔‘‘

غیر مساوی سلوک پر ملازمین کے تحفظات اور بے چینی

احتجاج میں شامل گرینڈ الائنس کے ایک اور مقامی عہدیدار ، رحمت اللہ کہتے ہیں کہ یہ احتجاج صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں یا مراعات کا معاملہ نہیں بلکہ اس سے حکومت کے اس بحران سے نمٹنے کی صلاحیت پر بھی کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مذید کہا، ''یہ احتجاج ہمارا جمہوری اور آئینی حق ہے جس سے حکومت ہمیں کبھی محروم نہیں کرسکتی۔ گرفتار ملازمین کو مطالبات سے دستبردار کرنے کے لیے ملازمتوں سے برطرف کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔‘‘

رحمت اللہ کا کہنا تھا کہ صوبے میں بیوروکریسی سمیت دیگر ریاستی خدمات کا مکمل تعطل ایک بڑے انتظامی خلا کو جنم دے رہا ہے جس پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

ملازمین کے اس احتجاج میں بڑے پیمانے پر ایسی خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے اس تحریک کو صوبے میں گوڈ گورننس کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے ۔

38 سالہ ریحانہ کما ل جو کہ کوئٹہ کے ایک مقامی اسکول میں بطورسائنس ٹیچر خدمات سرانجام دے رہی ہیں کہتی ہیں کہ یہ احتجاج سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ عوامی حقوق کی ایک اجتماعی آواز بھی ہے جسے حکومت دبانے کی کوشش کررہی ہے۔

ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان کے لاکھوں سرکاری ملازمین کو حکومت نے صوبے میں پسماندگی کا نعرہ لگا کر بنیادی حقوق سے محروم کررکھا ہے ۔ اگر یہ صوبہ اس قدر تباہ حال ہے تو حکومتی ایوانوں میں بیٹھے صاحبان اختیار کیوں ہر قسم کے وسائل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ؟ عوام کے ٹیکس کے پیسے حکمران اپنی شا ہ خرچیوں پر لگا کر ہمیشہ یہاں وسائل کی کمی کی رٹ لگا رہے ہوتے ہیں ۔

‘‘

ریحانہ کمال کا کہنا تھا کہ صوبائی محکموں کے ملازمین کو وفاقی طرز پر حکومت 30 فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس فراہم نہ کرکے ان کے بنیادی حقوق پامال کر رہی ہے۔

انتظامی بحران پر سیاسی مبصرین کیا کہتے ہیں ؟

بلوچستان میں سیاسی امور کے سینئر تجزیہ کار مرزا شمشاد احمد کہتے ہیں کہ ملازمین کا احتجاج دراصل صوبے میں گورننس کا بحران ہے جوکہ پہلے ہی دہشت گردی سے دوچار صوبے کو مزید شورش کا شکار بنا سکتی ہے ۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان میں جاری یہ احتجاج محض ایک عام تنازعہ نہیں بلکہ ایک گہرا انتظامی اور سیاسی بحران ہے۔ اگر حکومت اور ملازمین کے درمیان فوری اور بامعنی مذاکرات نہ ہوئے تو اس کا اثر نہ صرف گورننس بلکہ صوبے کی سکیورٹی صورتحال پر بھی پڑ سکتا ہے۔ صوبے میں سرکاری انتظامی نظام کی یہ معطلی شدت پسند عناصر کے لیے بھی خلا پیدا کر سکتی ہے۔

حکومت کو صوبے کے معروضی حالات کے مطابق اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔‘‘ احتجاجی تحریک پر حکومت کیا کہتی ہے ؟

بلوچستان میں حکومت نے صوبائی محکموں میں ہڑتال کے باعث پیدا ہونے والے انتطامی بحران سے نمٹنے کے لیے صوبے بھر میں ملازمین کے خلاف کریک ڈاؤن کے احکامات جاری کیے ہیں۔

اس کارروائی کے دوران اب تک 160 ملازمین کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں اہم عہدوں پر تعینات کئی اہلکار بھی شامل ہیں ۔

کوئٹہ میں تعینات محکمہ خزانہ کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملازمین کے مطالبات منظور کر کے حکومت صوبائی خزانے پر 14 ارب روپے سے زائد اضافی بوجھ نہیں ڈال سکتی۔

انہوں نے مزید کہا، ''دیکھیں بلوچستان کے محدود مالی وسائل ہمیں یہ اجازت نہیں دیتے کہ ہم وہ مطالبات منظور کرلیں جو کہ ملازمین کی جانب سے سامنے آئے ہیں ۔

ان حالات میں جب صوبے پہلے ہی بحرانی صورتحال سے دوچار ہیں ملازمین کو بلیک میلنگ کی بجائے اپنی سروسز کی بہتری پر توجہ دینا ہوگی۔‘‘

واضح رہے کہ چند یوم قبل سرکاری ملازمین نے صوبائی اسمبلی کے باہر بھی دھرنا دینے کی کوشش کی تھی جس پر ان کے خلاف پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا اور اس دوران کئی ملازمین زخمی ہوگئے تھے۔

ادارت : کشور مصطفیٰ

متعلقہ مضامین

  • اظہر محمود کو پی سی بی میں نیا عہدہ مل گیا
  • وحید حیدر شاہ کی پی ٹی سی ایل ترقی پانے والے ملازمین کو مبارکباد
  • ’’بھارت کا حکمران طبقہ کشمیریوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے‘‘
  • بلوچستان میں سرکاری ملازمین کی ہڑتال ، انتظامی ڈھانچہ مفلوج
  • پی آئی اے کی نجکاری میں حکومت کو کامیابی کی امید کیوں؟ مشیر برائے نجکاری محمد علی نے بتادیا
  • مخصوص نشستیں ،عدالتی فیصلہ افسو ناک ،ہائبرڈ نظام کو مزید مضبوط کردیا گیا،حافظ نعیم الرحمن
  • روزویلٹ ہوٹل نیویارک کی نجکاری کیلئے 100 ملین ڈالر کی قیمت مقرر کرنے کی تردید
  • روز ویلٹ ہوٹل کی فروخت کیلئے قیمت مقرر سے متعلق خبریں گمراہ کن قرار
  • پاکستان کی کان کنی صنعت نے پہلا گولڈ سرٹیفکیشن حاصل کرلیا
  • سپریم کورٹ فیصلے کے بعد حکمران اتحاد کی چاندی ہو گئی