WE News:
2025-06-14@09:56:15 GMT

رمضان حاضر تبسم غائب

اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT

رمضان المبارک کی عبادات میں میں روزے اور تلاوت کے بعد صدقہ تیسری بڑی عبادت ہے اور ستم دیکھیے کہ اس ماہ ہمارے چہروں سے وہ تبسم ہی بالکل غائب ہوجاتا ہے جسے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ قرار دیا ہے۔ مسلمان کے پاس اس ماہ دینے کے لیے روپیہ پیسہ تو ہوتا ہے مگر تبسم ناپید ہوجاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ تبسم خرچ ہوکر ناپید ہوجاتا ہے بلکہ وہ دیگر اشیا کی طرح اس کی بھی جیسے ذخیرہ اندوزی کر لیتا ہے۔ اس ماہ آپ جسے بھی دیکھیے چہرے پر یا تو طیش کے آثار ہوں گے یا بلا کی ایسی سنجیدگی جیسے ڈاکٹر نے میڈیکل رپورٹس پڑھ کر کوئی بری خبر سنادی ہو۔ تبسم ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گا۔

حالانکہ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں خدا نے ایک طرف ثواب کے انبار لگا رکھے ہیں تو دوسری جانب اس انبار کے لوٹ کی ایسی آسانی پیدا فرمادی ہے کہ شیطان کو ہی قید کرلیا جاتا ہے جو اس ثواب کو لوٹنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو یہ مسرت کے لمحات سے بھرپور مہینہ ہے۔ لیکن ہمارے چہروں پر اضافی مسرت کے آثار تو چھوڑیے وہ معمول کا تبسم بھی غائب ہوجاتا ہے جو سال کے دیگر 11 مہینوں میں نظر آتا ہے۔ عجیب بات یہ کہ رمضان میں بھی صرف روزے کی حالت میں ہی یہ تبسم غائب رہتا ہے افطار کے بعد تو ایک حد تک لوٹ آتا ہے۔ کیا اس کا تعلق بھوک اور پیاس سے ہے؟ اور وہ بھی ایسی بھوک اور ایسی پیاس جس میں فاقوں کا ہولناک خوف شامل نہیں ہوتا بلکہ اس کا اختتام چند گھنٹے بعد انواع اقسام کی نعمتوں پر ہونا طے ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کون جنتی کون دوزخی؟

 نہیں! یہ تبسم چند گھنٹے کی بھوک پیاس کے ہاتھوں نہیں بلکہ کچھ علتوں کے سبب رخصت ہوتا ہے جن کا ہم نے خود کو اسیر کر رکھا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ پان، سگریٹ، نسوار میں سے کسی ایک علت کے ضرور اسیر ہوتے ہیں۔ وہ لوگ اقلیت میں ہیں جو ان 3 میں سے کسی ایک نشے کی اسیری میں نہ ہوں لیکن ایسوں کی بھی اکثریت چائے کی تو ضرور ہی اسیر ہوتی ہے جو بجائے خود دنیا کے چند سب سے زیادہ مستعمل نشوں میں سے ہے۔ چائے تو اس درجہ عام و مرغوب نشہ ہے کہ اس کی لت مائیں ہی اپنے بچوں کو لگاتی ہیں۔ 2 سے 3 سال کی عمر میں مائیں اپنے بچوں کو 2 وقت چائے کی باقاعدہ عادت ڈالتی ہیں بس بچے کے بچپنے کا لحاظ یوں فرما لیتی ہیں کہ اس ابتدائی عمر میں بچوں کی چائے میں پتی کی مقدار کم رکھتی ہیں جس کا آسان سا ٹوٹکا وہ یہ کر لیتی ہیں کہ بچے کی چائے کے کپ میں اضافی دودھ ڈال لیتی ہیں۔

ماؤں کی توجہ اس جانب جاتی ہی نہیں کہ چائے نہ صرف یہ کہ انسانی ضرورت نہیں بلکہ یہ محض ایک مضر صحت نشہ ہے جو انسان کو اپنا قیدی بنا لیتا ہے لہٰذا اور نہیں تو مادری جبلت سے ہی کام لیتے ہوئے اپنے بچوں کو اس نشے سے بچا لیا جائے۔ کوئی بھی ماں یہ سوچنے کا تکلف گوارا نہیں کرتی کہ وہ اپنے بچے کو اپنے ہی ہاتھوں محض 2،3 سال کی عمر میں ایک نشے کا عادی بنا رہی ہے جس کا یہ ساری زندگی اسیر رہے گا۔ اور اسیر بھی اس حد تک کہ رمضان جیسے شاندار مہینے میں روزے کی حالت میں پورا دن محض اس لیے اس کی شکل پر 12 بج رہے ہوں گے کہ اسے چائے کی طلب ستا رہی ہوگی۔

ان ’جائز نشوں‘ میں بسا اوقات صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ یہ چھوڑنے سے بھی چھوٹتے نہیں۔ ہمارے بہت ہی مہربان ڈاکٹر عاصم اللہ بخش سے چند برس قبل اپنے معدے کے علاج کے سلسلے میں مشاورت کی تو دوران گفتگو فرمانے لگے کہ پان کی علت سے جان چھڑانی ہوگی ورنہ دوا عارضی افاقہ تو دے گی مگر پان کے ہوتے مرض سے جان نہ چھوٹے گی۔ جو شخص 35 برس سے پان کھا رہا ہو وہ اس قسم کے مشوروں کا بھی عادی رہا ہوتا ہے سو اسے ہر بار بس اتنا ہی تکلف کرنا پڑتا ہے کہ معالج سے توڑنے کے لیے ایک وعدہ مزید کر لیا جائے۔ مگر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے ساتھ اس واردات کی ہمت نہ ہوئی۔ یوں ہم نے سالہا سال بعد پان چھوڑ دیا۔ اور چھوڑا بھی آن واحد میں۔ نتیجہ یہ کہ سال بعد شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہوگئے۔ دماغی امراض کے معالج سے رجوع کیا تو پتا چلا کہ پان بتدریج کی بجائے فوراً ترک کرنے سے دماغی کیمیکلز کا توازن بگڑ گیا ہے۔ یوں پان واپس ہماری زندگی میں داخل ہوگیا۔

مزید پڑھیے: مہذب اقوام کا مستقبل

 پان، سگریٹ اور نسوار وہ آفت ہے جس کے عادی روزہ دار کے ساتھ ظہر کے بعد گفتگو سے قبل احتیاطاً آیت الکرسی اور معوذتین دم کرنے پڑتے ہیں تاکہ اس کے شر سے تحفظ میسر رہے۔ یہ جو موضوع ہم نے آج چھیڑا ہے اس کا ہم خود شکار رہے ہیں۔ ہر  رمضان ہمارے ہاں بھی یہی احتیاط ہوتی رہی کہ گھر والے ظہر کے بعد تو دم درود کے سہارے ہم سے ضروری گفتگو فرما لیتے لیکن عصر کے بعد وہ دم درود پر بھی بھروسا نہ کرتے اور ہم سے کسی آتش گیر مادے کی طرح فاصلے پر رہتے۔ چنانچہ ایک مدت بعد ہمیں یہ خیال آیا کہ یہ ہم کس قسم کا رمضان گزارتے ہیں؟ ہم روزے کی حالت میں ظہر سے افطار تک اپنی ہی فیملی کے لئے ایک شر کیوں بن جاتے ہیں ؟ کیا ہمارا یہ رویہ خود روزے کی حرمت کے خلاف نہیں ؟ چنانچہ پچھلے 5 رمضانوں سے خود پر جبر کی جد و جہد شروع کردی۔ طے کر لیا کہ کچھ بھی ہوجائے ہم طیش کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیں گے، بلکہ طیش پر حاوی ہونے کی کوشش کریں گے۔

یقین جانیے معمولی سی ہی مشکل پیش آئی۔ طریقہ یہ اختیار کیا کہ جوں ہی کوئی بات ناگوار لگتی ہے اور نتیجے میں غصے کی کیفیت سر اٹھانے لگتی ہے تو ہم اسی لمحے اسے دبا دیتے ہیں جس کی سبیل یہ ہوتی ہے کہ خود کو یاد کرا دیتے ہیں کہ یہ خیروبرکت کا مہینہ ہے۔ لہٰذا ہم سے شر صادر نہیں ہونا چاہیے۔ جب ہم نے پہلی بار اس پر عمل شروع کیا تو ظہر تو ظہر عصر کے بعد بھی ہمارے چہرے کی مسکراہٹ اور ہلکے پھلکے قہقہے دیکھ کر گھر والے بے یقینی سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ سب سے دلچسپ تجربہ لکھنے کا رہا۔ پان سگریٹ جیسی علتوں کا اسیر روزے کی حالت میں صبح 8،10 بجے بھی کچھ نہیں لکھ سکتا جبکہ ہم ان پچھلے چند رمضانوں میں عصرکے بعد بھی لاتعداد تحریریں لکھ چکے اور کوئی دقت پیش نہ آئی۔

مزید پڑھیں: جھوٹ کو سچ بنانے والے

حالانکہ رمضان میں عصر کے آس پاس تو وہ اہل قلم بھی کچھ نہیں لکھ پاتے جو صرف چائے کے ہی عادی ہوں۔ چائے کے سلسلے میں اپنا معاملہ یہ ہے کہ پورے دن میں ایک ہی کپ کی عادت ہے اور وہ بھی صبح ناشتے میں، سو اس کی طلب کا وقت مقرر ہے، ناشتے کے علاوہ کبھی چائے کی طلب ہوتی ہی نہیں- سوال یہ ہے کہ ہم نشہ ٹوٹنے کے نتائج پر حاوی کیسے ہوئے؟ جواب یہ ہے کہ قوت ارادی کی مدد سے ہوئے۔ انسان کو اللہ سبحانہ و تعالی نے مسخر کرنے کی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ یہ جو انسان ہمالیہ کی چوٹیوں کو سر کر لیتا ہے، فضاؤں میں اڑ رہا ہے اور سمندر کی تہہ تک اتر رہا ہے، یہ اس کی تسخیری صلاحیتوں کا ہی اظہار ہے۔ اور تسخیر کی روح اس کی قوت ارادی ہے۔ سو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسی قوت ارادی سے وہ اپنی منفی کیفیات کو تسخیر نہ کر سکے؟ یہ قوت ارادی کے استعمال کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم اب شرپسند روزہ دار نہیں ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

تبسم چائے رمضان روز اور مسکراہٹ روزہ مسکراہٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چائے روزے کی حالت میں قوت ارادی ہوجاتا ہے کہ رمضان ہوتا ہے چائے کی ہے اور کے بعد ہیں کہ

پڑھیں:

ڈاکٹر کون سا؟(دوسرا حصہ)

ڈگریوں سے متعلق بات رہی تھی سو آگے بڑھنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ آپ کو مغربی ڈگریوں کے بارے میں بھی بتاتے چلیں۔

انگلستان کی کالونی رہنے کی وجہ سے ہمارا نظام انہی کا بنایا ہوا ہے۔ تربیتی کورس، کتابیں سب کچھ وہیں سے لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کے بننے سے پہلے لوگ انگلستان جا کر تربیت حاصل کرتے تھے اور وہیں سے امتحان پاس کرتے تھے۔ ہر مضمون کے امتحان کے لیے ایک کالج ہے جس کا نام اس مضمون کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ جیسے گائنی والوں کے لیے رائل کالج آف گائناکالوجی اینڈ آبسٹیٹرکس۔ سرجری کے لیے رائل کالج آف سرجنز، اینستھیسیا کے لیے رائل کالج آف اینستھزیویالوجی۔

ڈگریوں کے نام بھی رائل کالج کی مناسبت سے رکھے گئے ہیں جیسے اگر کوئی گائنی کا امتحان پاس کرے گا تو اسے ایم آر سی او جی MRCOG کی ڈگری ملے گی جو مخفف ہے Member of Royal College of gynaecology andObstetrics.

ایم آر سی اوجی MRCOG ڈگری متبادل ہے پاکستانی ڈگری ایف سی پی ایس FCPS کے۔

ایم آر سی او جی ڈگری کے بعد ایف آر سی او جی کی ڈگری دی جاتی ہے اور اس کا انحصار کسی امتحان پر نہیں بلکہ ریسرچ اور تجربے پر ہوتا ہے۔

کسی زمانے میں انگلستانی ڈگریاں بہت اہم اور مقدم قرار دی جاتی تھیں کہ حاصل کرنے والا ڈاکٹر کڑے مراحل سے گزرتا تھا۔ تربیتی پروگرام انتہائی کٹھن اور طویل، پروفیسرز کی کڑی نگہداشت اور مشکل امتحان۔ اس کا ثبوت وہ پروفیسرز حضرات ہیں جو ہماری پیڑھی سے قبل انگلستان سے بڑے ڈاکٹرز بن کر آئے اور ہماری پیڑھی کو تربیت دی۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا اللہ خان، ہیڈ آف گائنی ڈیپارٹمنٹ نشتر ہسپتال  اس کی اعلیٰ مثال ہیں۔ طویل عرصہ انگلستان میں کام کر کے واپس لوٹے اور ڈاکٹرز کو تربیت دینے پہ کمر کس لی۔ ان کی سمجھائی ہوئی باتیں آج بھی دل پہ لکھی ہیں۔

مگر پھر وہ سنہرا دور خواب ہوا۔ انگلستان میں بھی پیسے کمانے کی ہوا چلی اور انہوں نے اپنی ڈگری کا وہ حال کیا کہ ٹکے کے بھاؤ سیر ملنے لگیں۔

اس بات کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ ایم آر سی او جی کا امتحان کوئی بھی ایسا ڈاکٹر دے سکتا ہے جس نے باقاعدہ طور پہ تربیتی پروگرام میں حصہ نہ لیا ہو۔ مرکز صحت پہ او پی ڈی کرنے والے ڈاکٹر بھی کسی نہ کسی سینئیر ڈاکٹر سے درخواست پہ دستخط کروا کر امتحان میں بیٹھ سکتے ہیں۔ امتحان بہت سی کتابوں کا رٹا مار کر پاس کیا جا سکتا ہے، عملی امتحان بھی ریہرسل کر کے پاس کیا جاتا ہے بلکہ مارکیٹ میں ایسے بہت سے کورسز موجود ہیں، جو یہ امتحان پاس کروانے کی تیاری کرواتے ہیں۔

امتحان پاس ہو گیا ، ڈاکٹر کے پاس ڈگری بھی آ گئی مگر کیاڈاکٹر کے پاس قابلیت بھی ہے؟

ہمارا جواب نفی میں ہے۔

گلف میں رہنے والے مختلف ممالک کے ڈاکٹر ایم آر سی او جی MRCOG پاس کرتے ہیں کہ یہاں رہتے ہوئے نہ فیس بھرنا مشکل ہے، نہ امتحان میں بیٹھنا۔ دو چار بار میں ڈگری مل ہی جاتی ہے مگر اس کے بعد … اس کے بعد وہ مقام آتا ہے جہاں پہ پر جلتے ہیں۔

ہم نے عمان میں رہتے ہوئے جتنے بھی اسپتالوں میں کام کیا ہے، وہاں پہ موجود بیشتر جونئیر ڈاکٹروں نے ہمارے سامنے ایم آر سی او جی کا امتحان پاس کیا۔ کتابی علم بہت آتا تھا مگر مریض کے ساتھ کرنا کیا ہے، وہ زیرو۔ اس لیے کہ عمان میں دوسرے ملکوں سے آنے والے سروس ڈاکٹرز کو ٹریننگ میں جانے کی اجازت نہیں۔ جو کچھ سیکھنا ہے، اپنے ملک سے سیکھ کر آؤ، عمانی تربیتی پروگرام صرف عمانی ڈاکٹرز کے لیے ہے۔

انہیں دیکھ کر ہم اکثر سوچتے تھے کہ جب یہ سب اپنے اپنے ملک جائیں گے اور نام کے ساتھ انگلستانی ڈگری کا پھندنا ٹکا ہو گا، تب مریض کس قدر Impressed ہوں اور جوق در جوق علاج کے لیے آئیں گے تب ڈگری کا بھرم کیسے رکھا جائے گا، شاید ان مریضوں کے سر پہ جنہیں میڈیکل کی اے بی سی نہیں آتی۔

آج کل ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں ایک ایم آر سی او جی ڈاکٹر ایسی بھی ہیں کہ جن پہ ہم نے پابندی  لگا رکھی ہے کہ وہ آپریشن تھیٹر میں نہیں گھسیں گی۔ ان کو ایک بار مریض کا آپریشن کرتے دیکھا تھا اور وہ انسانی جسم کے جس قدر ’پرخچے‘ اُڑا رہی تھیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہم بے ہوش ہوتے ہوتے بچے تھے۔

اسی تناظر میں پاکستانی ڈاکٹر بھی دیکھ لیجیے۔ ہم ہر گز یہ نہیں کہتے کہ سب کو کام نہیں آتا ہو گا، لیکن جو کہانیاں ہم مریضوں سے سنتے ہیں اس کے بعد ہمیں تشویش سی ہونے لگتی ہے کہ اسپیشلائزیشن میں ہونے والی تربیت کا معیار کیا ہے؟

علاج کے لیے آنے والے مریض دو طرح کے ہوتے ہیں، بلیک اینڈ وائٹ اور گرے۔ بلیک اینڈ وائٹ مریض میں سب علامات چیخ چیخ کر بتا رہی ہوتی ہیں کہ بیماری کیا ہے؟ ان کی تشخیص کوئی نابینا بھی کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر کا امتحان ہوتا ہے گرے کیس، جہاں کچھ علامات ہوتی ہیں، کچھ نہیں، روایتی کیس سے ہٹ کر بہت کچھ ہو گا۔ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ دو تین بیماریوں کی کچھ علامات سامنے آئیں جو عام طور پہ دیکھنے میں نہ آتی ہوں۔

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا مریض ڈاکٹر نے کبھی دیکھا ہی نہ ہو مگر ڈاکٹر کی پرابلم سولونگ سکل اس قدر کمال پہ ہونی چاہیے کہ وہ کسی بھی معمے کو کامیابی سے حل کرے۔

سرجری میں بھی یہی اصول سامنے آتا ہے۔ آسان کیسسز حلوہ ہوتے ہیں جنہیں ہر کوئی خوشی خوشی کھا لیتا ہے لیکن دانتوں چنے چبوانے والے کیسسز کو کوئی نہیں کرنا چاہتا، سب جان چھڑوانے کی پالیسی پہ چلتے ہوئے مریض کے ساتھ پنگ پانگ کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کی تربیت اس نہج پہ کیوں نہیں ہوتی؟

مریض کسی وقت بھی آسان سے مشکل حالت میں جا سکتا ہے، کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹری ایک مشکل میدان ہے سو اس میں صرف ان کو آنا چاہیے جو اپنے مریض سے محبت کریں، نہ کہ فائل کی طرح اسے کبھی ادھر پٹخیں، کبھی اُدھر۔

آج کے لیے اتنا ہی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

متعلقہ مضامین

  • سیاست میں خواتین کا کردار
  • ڈاکٹر کون سا؟(دوسرا حصہ)
  • 26 نومبر احتجاج کیس، غیر حاضر پی ٹی آئی کارکنان کے وارنٹ گرفتاری جاری
  • 26 نومبر احتجاج کیس: عدالت نے غیر حاضر پی ٹی آئی کارکنان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے
  • ہم دل و جان سے ممنون ہیں
  • اڈیالہ جیل سے جوڈیشل کمپلیکس لائے گئے ملزمان میں سے ایک غائب
  • ججز کا غائب ہونا عمران خان کیخلاف مقدمات جھوٹے ہونے کا ثبوت ہے، بیرسٹر سیف
  • اڈیالہ جیل سے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد لائے گئے ملزمان میں سے ایک غائب ہوگیا
  • عمران خان کے خلاف مقدمات جھوٹے ہیں، ججز کا غائب ہونا ثبوت ہے، بیرسٹر سیف
  • فریڈم فلوٹیلا