زلمے خلیل زاد کا دورہ، افغانستان اور امریکا تعلقات میں بہتری کا اشارہ، اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
گزشتہ روز افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق خان نے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار سمیت وزارتِ خارجہ کے سینئر افسران کو اپنے 3 روزہ دورہ کابل کے بارے میں بریفنگ دی۔
تفصیلات کے مطابق محمد صادق خان نے کابل میں افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی، وزیرتجارت اور دیگر اعلٰی حکام سے ملاقات کی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق اِن ملاقاتوں کے دوران افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی، تجارتی اُمور، خاص طور پر طورخم بارڈر مینجمنٹ بہتر کرنے کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا گیا اور افغان حکام کو پاکستان میں موجود غیرقانونی افغان باشندوں کی غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے حوالے سے ثبوت بھی دکھائے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اِن غیر قانونی افغان باشندوں کی وطن واپسی کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔ فریقین نے دونوں ممالک کے باہمی فائدے کے لیے علاقائی تجارت اور رابطوں کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیےامریکی وفد اچانک کابل پہنچ گیا، ٹرمپ طالبان سے کیا چاہتے ہیں؟
افغان اُمور کے ماہرین کے مطابق پاک افغان تعلقات میں ایک بڑی رکاوٹ دونوں ملکوں کے مابین تجارتی رکاوٹیں اور بارڈر کراسنگ کا بند ہونا ہے۔ پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے اس بارے میں بھی افغان وزیرتجارت اور دیگر اعلٰی حکام سے بات چیت کی ہے۔
گزشتہ روز دفترِخارجہ سے جاری ایک بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے اور دوطرفہ تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے افغان عبوری حکومت کے ساتھ مسلسل مذاکرات پر زور دیا۔ دونوں فریقوں نے دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطحی روابط اور بات چیت کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔
زلمے خلیل زاد کا دورہ
جہاں ایک طرف پاک افغان مذاکرات کے حوالے سے پیش رفت ہوئی، وہیں امریکا اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کے حوالے سے بھی پیش رفت ہوئی ہے۔ افغانستان میں سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کا دورہ اور امریکی نژاد قیدی جارج گلیزمین کی رہائی امریکا اور افغان عبوری حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتماد کا پتہ دیتے ہیں۔ اس مفروضے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ امریکی قیدی کی رہائی کے بعد امریکا نے سراج الدین حقانی سمیت 2 اور سنیئر طالبان لیڈروں کے سروں کی قیمت کا اعلان بظاہر منسوخ کر دیا ہے اور اب ایف بی آئی کو مطلوب دہشتگردوں کی فہرست میں اُن کا نام نہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق زلمے خلیل زاد کے دورے کے موقع پر افغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیاروں کی واپسی پر بات چیت کی گئی۔
امریکا افغانستان تعلقات کی بہتری ،کیا پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے؟
خارجہ اُمور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی متین حیدر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ ماہ ایک انتہائی مطلوب افغان نژاد دہشتگرد شریف اللہ کو گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا۔ اور اُس کے بعد ہم نے دیکھا کہ امریکی حکومت نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کے حوالے سے امریکی روّیے میں بہتری کے آثار نظر آئے۔ لیکن زلمے خلیل زاد کے دورۂ افغانستان کے بعد جس طرح سے افغانستان اور امریکا کے تعلقات میں قربت بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے پاکستان کو اِسے بغور دیکھنا چاہیے۔
اگر کابل اور واشنگٹن کے تعلقات میں بہتری آتی ہے اور اگر امریکا کابل کو اِس بات پر قائل کرتا ہے کہ اُس کی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہو تو یہ پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے۔
یہ بھی پڑھیےزلمے خلیل زاد پاک فوج اور قوم کے درمیان تقسیم کی سازشوں میں مصروف ہے، طاہر محمود اشرفی
پاکستان اگر اس صورتحال پر نظر نہیں رکھتا تو یہ نہ ہو کہ پاکستان کو سارے معاملات سے باہر کر دیا جائے۔
برگیڈیئر آصف ہارون
سی ڈی ایس تھنک ٹینک کے پیٹرن اِن چیف اور تھنکرز فورم کے رُکن برگیڈیئر آصف ہارون نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو افغانستان اور امریکا کے اچھے ہوتے تعلقات کو بہت غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس خطے میں امریکا کی موجودگی اور دلچسپی کی بنیادی وجہ سی پیک اور چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔
بنیادی طور پر امریکا نے جو 7 ارب ڈالر کے ہتھیار افغانستان میں چھوڑے تھے وہ اِسی خطے کے امن کے خلاف ہی چھوڑے تھے۔ امریکا طالبان حکومت کو امداد بھی دیتا ہے جس کا بنیادی مقصد اُن کے اندر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا ہے۔ اس لیے پاکستان کو افغانستان اور امریکا کے اچھے ہوتے تعلقات پر گہری نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان امریکا امیر خان متقی پاکستان زلمے خلیل زاد.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان امریکا پاکستان زلمے خلیل زاد افغانستان اور امریکا زلمے خلیل زاد افغانستان کے کے حوالے سے تعلقات میں پاکستان کو پاکستان کے میں بہتری امریکا کے کے مطابق بات چیت کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور طالبان رجیم مذاکرات کے دروازے بند یا کوئی کھڑکی کھلی ہے؟
6 نومبر کو استنبول میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات میں تعطل آ گیا ہے جس میں دہشتگرد ٹی ٹی پی کے حوالے سے افغان طالبان رجیم کی ہٹ دھرمی اہم رکاوٹ تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام
مذاکرات میں تعطل کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام امن کے لیے علاقائی ممالک خصوصاً ایران متحرک ہے جس کی وزارت خارجہ کی جانب سے علاقائی ممالک کا اجلاس بلائے کی اعلان اس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت ہے۔
اسی طرح سے برادر اسلامی ملک ترکیہ بھی اس حوالے سے سرگرم اور اس کے اعلیٰ سطحی وفد کی آمد کا امکان ہے۔
علاقائی ممالک افغانستان میں موجود دہشتگردی کے خطرے سے آگاہ اور پاکستان کے مؤقف سے ہم آہنگ ہیں۔
26 ستمبر کو نیویارک جنرل اسمبلی اجلاس کے موقعے پر روس کی جانب سے افغانستان پر 4 علاقائی ممالک چین، پاکستان، ایران اور روس کا اجلاس طلب کیا گیا جس نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں افغانستان سے پیدا ہونے والے دہشتگردی کے خطرے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور داعش، القاعدہ، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک، تحریک طالبان پاکستان، جیش العدل اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے گروہوں کو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔
ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام دہشتگرد تنظیموں کے خاتمے کے لیے قابل تصدیق اقدامات کریں، بھرتی اور مالی معاونت کو روکیں، اور تربیتی کیمپوں اور انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر بند کریں۔
مزید پڑھیں: کچھ پتا نہیں طالبان سے مذاکرات پھر کب ہوں گے، عطا تارڑ
اسی طرح گزشہ ماہ افغانستان کے حوالے سے گزشتہ ماہ روس میں منعقد ہونے والے ماسکو فارمیٹ ڈائیلاگ کے اعلامیے میں بھی افغانستان پر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے جامع اقدامات کرنے اور افغان سرزمین کو ہمسایوں کے خلاف استعمال نہ کرنے پر زور دیا گیا۔
مذاکرات کا تعطل اور افغان عوام کی مشکلاتجس چیز پر سب سے زیادہ گفتگو ہو رہی ہے وہ افغان تجارت کی بندش ہے اور اس کے ساتھ افغان عوام کو پاکستان کی جانب سے علاج اور تعلیم کی سہولیات بھی تعطل کا شکار ہیں جہاں ایک طرف افغان طالبان رجیم کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تجارت مکمل طور پر ختم کر کے متبادل تجارت کے دعوے کیے جا رہے ہیں وہیں افغان تاجروں کی جانب سے کئی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راستے کھلنے چاہییں کیونکہ پاکستان کے ساتھ تجارتی راستے سب سے زیادہ کم وقت اور کم لاگت ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان سامان کی ترسیل ایک دن میں مکمل ہو جاتی ہے جب کہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں سامان پہنچنے اور وصول کرنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: افغان طالبان سے مذاکرات ختم ہوگئے، ثالثوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے، خواجہ آصف
اسی طرح سے افغانستان سے لوگ علاج کے لیے پاکستان آنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی مُشکلات بڑھ گئی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ افغان بالب علموں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان، افغانستان کے لیے ایسا ملک ہے جہاں زیادہ تر افغان آبادی سہولت کے ساتھ چند گھنٹوں کی مسافت طے کر کے پہنچ سکتی اور پاکستان میں تجارت، تعلیم اور علاج کی سہولیات حاصل کر سکتی ہے۔
دوست ممالک کی کوششیں9 نومبر کو ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ ترک وزیرخارجہ خاقان فیدان، وزیردفاع اور انٹیلی جنس چیف پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اور مذاکرات کے لیے اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔ لیکن تاحال ترک وفد اسلام آباد نہیں پہنچا جس کی بظاہر وجہ ترک فوجی طیارے کو پیش آنے والا حادثہ بیان کی جا رہی ہے جو آذربائیجان سے اڑان بھرنے کے بعد جارجیا میں گر کر تباہ ہو گیا تھا تاہم اطلاعات کے مطابق یہ وفد کسی بھی وقت اسلام آباد پہنچ سکتا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی گزشتہ دنوں میں 2 بار افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان مُتقی سے ٹیلی فون بات چیت کر چکے ہیں جس میں انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔
خطے کے ممالک کو افغانستان کے رویے پر تشویش ہے، صحافی افضل رضا ایرانیایرانی سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے اسلام آباد میں موجود نمائندے افضل رضا نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قیادت افغان طالبان رجیم کے رویے کو بخوبی جانتی ہے کیونکہ افغانستان، ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے بعد برادر اسلامی ممالک بطور ثالث کردار کے لیے متحرک ہوئے لیکن ان ملکوں کی سرحدیں پاکستان یا افغانستان کے ساتھ مُتصل نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی سے ایران بھی متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان اور ایران دونوں ممالک افغانستان کے پڑوسی ہیں اور ان دونوں ملکوں نے گزشتہ 45 برس افغان باشندوں کو اپنے ملکوں میں پناہ دی ہے جبکہ مغربی ایشیا کے ممالک اِس صورتحال سے دوچار نہیں ہوئے۔ لہٰذا ایران نے یہ محسوس کیا کہ افغان طالبان رجیم کے رویے کے باعث دونوں ملکوں کے مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے۔ اب ایران نے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟
گزشتہ روز ایرانی وزارت خارجہ کے ماتحت ادارے انسٹیٹیوٹ آف پولیٹیکل اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے تہران میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس کے حاشیے پر ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام امن کے لیے کوشش کر رہے ہیں، ہم نے دونوں ملکوں سے رابطے کیے ہیں اور ایک علاقائی حل کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
اسی طرح ایرانی نائب وزیر خارجہ سعید خطیب زادہ نے روسی خبر رساں ادارے اِسپُتنِک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگلے ماہ ہم ایک اِجلاس بلانے جا رہے ہیں جِس کا مقصد پاکستان اور ایران کے درمیان ثالثی ہے اور اس کانفرنس میں روس اور چین کو بھی مدعو کیا جائے گا۔
افضل رضا نے کہا کہ اِس معاملے میں ایران کے کردار کے مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مزید کشیدگی اب نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایران اور دیگر علاقائی ممالک اس کشیدگی کے باعث تشویش کا شکار ہیں اور اُنہیں پاکستان سے زیادہ افغانستان کے رویے پر تشویش ہے۔ کیونکہ افغان طالبان رجیم کے افغانستان میں استحکام لانے سے متعلق دعوے کھوکھلے اور فرضی ہیں۔ پاکستان کے پاس اِتنی طاقت ہے کہ وہ افغان طالبان رجیم کے غیر ذمے دارانہ بیانات کا جواب دے سکتا ہے لیکن چونکہ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ وہ برادار ممالک کو اس سلسلے میں اپنے کردار کی ادائیگی کا موقع فراہم کرے۔
مزید پڑھیں: طالبان رجیم دہشتگردی پر پردہ ڈال رہی ہے، ترجمان دفتر خارجہ
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایران کا کردار ادا کرنا روس سے بھی زیادہ بہتر ہے کیونکہ ایران دونوں ملکوں ہمسایہ اور افغان طالبان رجیم کو اِس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
افضل رضا نے بتایا پانی کے حقوق کے حوالے سے افغانستان ایران کو بھی تنگ کرتا ہے اور افغان طالبان رجیم اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتے اور ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے کیونکہ پاکستان اپنے بردارانہ ممالک کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو ہمیشہ اچھی نظر سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امید کی جا سکتی ہے کہ ایران کی جانب سے اس معاملے میں کردار ادا کرنے کے بعد کابل اور اسلام آباد کے درمیان امن معاہدے پر پیشرفت کا اِمکان ہے کیونکہ ایرانی قیادت پاکستان کے جائز سکیورٹی مفادات کو سمجھتی ہے اور کابل کو سمجھانے کی کوشش کرے گی۔
ترک اعلیٰ سطحی وفد کبھی بھی آ سکتا ہے، طاہر خانافغان امور کے ماہر، معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات پر ڈیڈ لاک تو جاری ہے اور بظاہر کوئی ایسی کوشش نظر نہیں آتی جس سے اندازہ ہو کو اس ڈیڈلاک کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے جو اعلٰی سطحی وفد پاکستان بھجوانے کا اعلان کیا تھا وہ ترکیہ کا فوجی طیارہ گرنے کے حادثے کے بعد سے تاخیر کا شکار ہے۔ وفد نے آنا تو ضرور ہے کیونکہ اس کا اعلان ترک صدر نے خود اُس وقت کیا تھا جب وہ اور وزیراعظم شہباز شریف آذربائیجان میں اکٹھے تھے۔ پاکستان نے ترک اعلیٰ سطحی وفد کی آمد کا خیر مقدم کیا تھا اور افغان سائیڈ بھی اس بات سے خوش ہے۔
طاہر خان نے کہا کہ پاک افغان کشیدگی ختم کرانے کے لیے ایران کا کردار بھی اہم ہے۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک علاقائی ملکوں پر مشتمعل کانفرنس بلانا چاہتے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی کم ہو۔ یہ بھی ایک اہم پیشرفت ہے اور پاکستان نے اس کو بھی خوش آئند قرار دیا ہے۔ اگر علاقائی سطح پر اس طرح کی کاوش ہوتی ہے تو یہ اس لیے بھی اچھا ہے کہ اس سے یہ تاثر نہیں رہے گا کہ کوئی ایک ملک یعنی ترکی یا قطر یا روس اس میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقائی ممالک کی سطح پر بات ہو گی تو اس میں تمام ممالک شامل ہو جائیں گے اور اس کا اثر بھی ہوگا اور وہ دونوں ملکوں کو کسی نہ کسی طرح قائل کریں گے کہ ان کی موجودہ صورتحال ان کے لیے بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیاں روکنے پر زور
طاہر خان نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب بنتا ہے لیکن سب سے بہتر حل دوطرفہ مذاکرات سے نکلتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب دیگر ممالک اس مسئلے میں بات کریں گے تو دونوں ملکوں کو کچھ نہ کچھ ماننا ہی پڑے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران پاکستان اور افغان طالبان پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات پاکستان اور افغانستان ترکیہ ٹی ٹی پی