خلیجی ممالک سے پاکستانیوں کو ورک ویزا نہ ملنے سے ترسیلات میں کمی کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
کراچی:ایف پی سی سی آئی نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت خلیجی ممالک سے پاکستانیوں کو ورک ویزا نہ ملنے کا مسئلہ حل کرائے۔وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان کے سینئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ خلیجی ریاستوں میں پاکستانی ورکرز کو ویزا نہ ملنے سے ترسیلات میں کمی کا خدشہ ہے۔ ترسیلات میں 8 ماہ میں اضافہ ہوا لیکن آئندہ کمی کا خطرہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ خلیجی ریاستوں کے سفارت خانوں کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔ ایف پی سی سی آئی کی تجویز پر بھی 50 فیصد ویزا درخواستیں مسترد ہورہی ہیں ۔ عید کے بعد اس مسئلے کو خلیجی ریاستوں کے سفارت خانوں کے سامنے پھر اٹھائیں گے ۔ وزارت خارجہ فوری مداخلت کرے اور خلیجی ریاستوں کے ویزوں کا مسئلہ حل کرایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ اور نیٹ بلنگ میں فرق ہے۔ معاہدہ نیٹ میٹرنگ کا ہوا تھا.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ایف پی سی سی آئی خلیجی ریاستوں نیٹ میٹرنگ نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
غزہ: خوارک کے یو این ادارے کے ذخائر ختم، قحط پھیلنے کا خدشہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا ہے کہ غزہ میں اس کے پاس خوراک کے ذخائر ختم ہو گئے ہیں جبکہ دو ماہ سے علاقے میں کوئی انسانی امداد نہیں پہنچی۔
'ڈبلیو ایف پی' نے باقیماندہ امدادی سامان سامان غزہ کے مختلف علاقوں میں کھانا تیار کرنے کے مراکز پر پہنچا دیا ہے جو چند روز میں ختم ہو جائے گا۔
ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اگر خوراک کی فراہمی فوری بحال نہ ہوئی تو اسے غزہ میں اپنا امدادی کام ختم کرنا پڑے گا۔ Tweet URLادارے کی مدد سے بڑے پیمانے پر کھانا تیار کرنے کے مراکز ہی غزہ کے لوگوں کو خوراک کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔
(جاری ہے)
ان مراکز سے تقریباً 10 لاکھ لوگوں کو روزانہ کھانا مہیا کیا جاتا ہے تاہم اس سے ہر گھرانے کی ایک چوتھائی غذائی ضرورت ہی پوری ہوتی ہے۔'ڈبلیو ایف پی' غزہ میں قائم 25 تنوروں کو بھی ضروری سامان مہیا کرتا رہا ہے جو آٹے اور ایندھن کی عدم دستیابی کے باعث 31 مارچ کو بند ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، پناہ گزین گھرانوں کو خوراک کے تھیلوں کی فراہمی بھی اُسی ہفتے بند ہو گئی تھی۔
غذائی قلت کا خطرہاسرائیل کی جانب سے غزہ میں ہر طرح کی انسانی امداد کی ترسیل پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔
اقوام متحدہ کے اداروں اور اعلیٰ سطحی حکام بشمول سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش متواتر اپیل کرتے آئے ہیں کہ علاقے میں امداد کی فراہمی بحال کی جائے۔
جنگ بندی ختم ہونے کے بعد غزہ میں خوراک کی قیمتوں میں 1,400 فیصد اضافہ ہو گیا ہے جبکہ خام اجناس کی ترسیل انتہائی قلیل رہ گئی ہے۔
اس طرح علاقے میں غذائی قلت بڑھنے کا اندیشہ ہے جس سے بچوں، دودھ پلانے والی خواتین، معمر افراد اور دیگر کمزور لوگوں کی زندگی کہیں زیادہ متاثر ہو گی۔سرحد کھولنے کا مطالبہ'ڈبلیو ایف پی' نے کہا ہے کہ یہ ڈیڑھ سال سے جاری جنگ کے دوران غزہ میں امداد کی فراہمی بند رہنے کا طویل ترین عرصہ ہے۔ ان حالات میں بازار بھی کھانے پینے کی اشیا سے خالی ہو چکے ہیں اور خوراک کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔
ایک لاکھ 16 ہزار ٹن امدادی خوراک چار ماہ سے غزہ کی سرحدوں سے باہر پڑی ہے۔ 'ڈبلیو ایف پی' اور اس کے شراکت داروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے سرحدیں کھولے جانے پر اسے مختصر وقت میں غزہ کے لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
ادارے نے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کی ضروریات کو ترجیح دیں اور بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر پابندیاں ہٹائی جائیں۔