ذوالفقار جونیئر کا سیاسی مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ جماعت ان کے والد میر مرتضیٰ بھٹو کی قائم کردہ پیپلز پارٹی شہید بھٹو سے خاصی مختلف نظر آتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی والدہ غنویٰ بھٹو اپنے شوہر کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ چلا رہی تھیں۔
پیپلز پارٹی کے بانی رکن ڈاکٹر مبشر حسن اس جماعت کے سیکریٹری جنرل تھے مگر غنویٰ بھٹو کئی برسوں سے ملک میں نہیں ہیں، اس بناء پر ان کی جماعت اب فعال نظر نہیں آتی۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کے دادا ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کی جماعت مسلم لیگ سے کیا تھا، وہ ایک وقت میں مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل بھی رہے۔
تاریخ کی کتابوں اور اخبارات کی فائلوں کے عرق ریزی سے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں جنرل ایوب خان کی حمایت کی تھی مگر معاہدہ تاشقند پر اختلاف کی بناء پر وہ ایوب خان کی حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت سے ہزار سال تک جنگ کرنے اور ’’روٹی، کپڑا اور مکان مانگ رہا ہے ہر انسان ‘‘ کے نعرے پر پیپلز پارٹی قائم کی۔ کمیونسٹ پارٹی چین نواز گروپ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئی۔ 1968کی جنرل ایوب خان مخالف تحریک میں ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہوئے مگر ایوب خان کی حکومت ختم ہوگئی۔
جنرل یحییٰ خان کے 1970کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سندھ اور پنجاب سے کامیاب ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نوجوانوں کے ہیرو کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ بھٹو نے پاکستان کے مغربی حصے میں عوامی سیاست کی بنیاد ڈالی۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے تعلیم، صحت، زرعی اور صنعتی شعبوں میں انقلابی اصلاحات کیں اور ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کیا اور 1971میں ہونے والی شکست کے بعد مسلح افواج کو دوبارہ فعال کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی گئی۔ بلوچستان کی حکومت کو توڑا گیا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ایک متنازع عدالتی فیصلے میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سب سے بڑے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو اور ان کے بھائی شاہنواز بھٹو عظیم انقلابی رہنما چی گویرا سے متاثر تھے۔ 70 کی دہائی کے اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق میر مرتضیٰ بھٹو سوشلزم کے زبردست حامی تھے۔ بھٹو صاحب کی قیام گاہ 70 کلفٹن کے لان کے ایک کونے میں جھونپڑی بنائی ہوئی تھی جس میں وہ کچھ دیر قیام کرتے تھے۔ جب 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو بھٹو صاحب نے ہدایت کی تھی کہ مرتضیٰ اور شاہنواز فورا لندن چلے جائیں۔ بھٹو نے اپنی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو والدہ کے ساتھ ملک میں رہنے کی ہدایت کی تھی۔ مرتضیٰ اور شاہنواز فورا لندن چلے گئے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد مرتضیٰ اور شاہنواز کابل چلے گئے۔ اس وقت افغانستان میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم تھی۔ اسی دوران پی آئی اے کا طیارہ اغواء کیا گیا، جس کی ذمے داری میر مرتضیٰ بھٹو پر ڈالی گئی اور ایک گوریلا تنظیم الذوالفقار کا ذکر ہونے لگا۔ پی آئی اے کے طیارے کے اغواء کے بعد جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی تنظیموں کے ہزاروں کارکنوں کے علاوہ معروف دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو گرفتار کر لیا۔
حزب اختلاف کی 11 سیاسی جماعتوں پر مشتمل تحریک بحالی جمہوریت (M.
وہاںشاہنواز بھٹو پراسرار طور پر ہلاک ہوگئے۔ 1986 میں بے نظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئیں۔ لاہور میں ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد انتخابات میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی مگر صدر غلام اسحاق خان نے 18 ماہ بعد ہی پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کردیا۔ جب بے نظیر بھٹو دوسری دفعہ 1993میں برسرِ اقتدار آئیں تو بیگم نصرت بھٹو نے اعلان کیا کہ مرتضیٰ بھٹو پاکستان آنا چاہتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو نے مرتضیٰ کے پاکستان آنے کی سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر مخالفت کی مگر سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت ہونے پر میر مرتضیٰ بھٹو پاکستان آگئے۔ میر مرتضیٰ اپنے والد کی طرح زور دار تقریر کرتے تھے۔ ان کی تقاریر میں غریبوں کے ساتھ ظلم اور ان کے استحصال کا خوب ذکر ہوتا تھا، یوں بہت سے نوجوان ان کے گروہ میں شامل ہوگئے تھے۔ نامعلوم قوتوں نے پولیس کے کچھ افسروں کے ساتھ مل کر ان کی قیام گاہ 70 کلفٹن کے سامنے روکا اور ایک پولیس مقابلے میں مرتضیٰ بھٹو جاں بحق ہوگئے، پھر ان کی اہلیہ غنویٰ بھٹو نے شہید بھٹو گروپ کی قیادت سنبھالی۔
غنویٰ بھٹو سیاست کے پردہ سیمی سے لاپتہ ہوئیں۔ مرتضیٰ بھٹو کی بڑی صاحبزادی فاطمہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو میں خاصی مشابہت پائی جاتی ہے۔ کچھ حلقے ہر انتخاب کے موقعے پر یہ خبر عام کرتے ہیں کہ فاطمہ بھٹو سیاست میں آرہی ہیں مگر فاطمہ بھٹو نے اپنے آپ کو ایک شاعرہ، لکھاری اور دانشور کے طور پر پیش کیا۔ ان کی بعض نظموں کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ ذوالفقار جونیئر کا سارا فلسفہ عدم تشدد اور رواداری پر مبنی رہا ہے۔
ذوالفقار جونیئر نے سماجی اجتماعات اور مذہبی تہواروں میں گرم جوشی سے حصہ لینا شروع کیا۔ وہ نیاز کی حلیم اور شربت تقسیم کرتے نظر آنے لگے۔ ذوالفقار جونیئر نے ٹریڈ یونینز کے رہنماؤں کے علاوہ سول سوسائٹی کے اراکین سے قریبی رابطے قائم کیے۔ لاہور اور اسلام آباد میں بائیں بازو کے مختلف گروہوں کے رہنماؤں سے طویل مذاکرات کیے۔ انھیں دیکھ کر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
ذوالفقار جونیئر نے سیاست میں عوامی رویہ اختیار کرکے ایک منفرد حیثیت حاصل کی ہے۔ چند ماہ قبل دریائے سندھ میں نہریں نکالنے کی مزاحمتی تحریک میں ذوالفقار جونیئر نے بھرپور کردار ادا کیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناقص کارکردگی کی بناء پر عوام اور حکومت میں پیدا ہونے والا خلاء بڑھ گیا ہے۔
ذوالفقار جونیئر اگر مسلسل محنت کرتے ہیں تو سندھ کے ہر شہر میں ان کی ضرور پذیرائی ہوگی، اگر ان کی بہن فاطمہ ان کے ساتھ آجائیں تو یہ دونوں بہن بھائی پیپلز پارٹی کے لیے ایک چیلنج بن سکتے ہیں۔ ذوالفقار جونیئر پیپلز پارٹی کی حکومت کی بیڈ گورننس اور ملک کے غیر شفاف نظام جیسے مسائل کو عوام کو متوجہ کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں مگر موجودہ صورت حال میں ذوالفقار جونیئر اور ان کے ساتھیوں کو طویل عرصے تک جدوجہد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کی حکومت ذوالفقار جونیئر نے ذوالفقار علی بھٹو میں پیپلز پارٹی جنرل ضیاء الحق میں ذوالفقار بے نظیر بھٹو اور شاہنواز ایوب خان کی بھٹو کی کے ساتھ بناء پر بھٹو نے کے بعد کی تھی
پڑھیں:
بلاول بھٹو زرداری کا اپنی سالگرہ سیلاب زدگان کے نام کرنے کا فیصلہ
ویب ڈیسک : پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی رہنماؤں کو روایتی سالگرہ کی بجائے سیلاب زدگان کے لیے وقف کرنے کی ہدایت دے دی
پارٹی کے کارکن اور جیالے 21 ستمبر 2025 کو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سالگرہ کے موقع پر روایتی انداز میں کسی قسم کی کیک کاٹنے یا جشن منانے کی تقریب منعقد نہیں کریں گے بلکہ بلاول بھٹو زرداری کی سالگرہ کے دن کو خدمتِ خلق اور سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے وقف کیا جائے گا،
ایشیا کپ ٹی ٹوینٹی ٹورنامنٹ؛ پاکستان متحدہ عرب امارات میچ کا ٹاس ہو گیا
پاکستان پیپلزپارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ 21 ستمبر 2025 کو خوشی منانے کا حقیقی انداز عوام کے درمیان اپنایا جائے گا۔ پارٹی کے عہدیداران اور کارکنان ملک بھر میں اپنی مدد آپ کے تحت عطیات جمع کریں گے جس سے براہِ راست سیلاب متاثرین کی مدد کی جائے گی اور سیلاب زدگان کے درمیان میں خوشیوں کے پل بانٹے جائیں گے