(گزشتہ سے پیوستہ)
اس پر محفل میں ایک چلبلی اور شوخ لڑکی ’’بروانہ‘‘نے شعر اچھالا،گھر کی صفائی، کھانا اور بچوں کی دیکھ بھال،لڑکی کو چائے لانا بہت مہنگا پڑااس پر محفل میں موجود ’’گلِ بختاور‘‘ نے چٹکی لی کہ ’’ ناہید کو جس لڑکی نے چائے نہیں پوچھی تھی، وہ شائد،گھر کی صفائی، کھانا اور بچوں کی دیکھ بھال،جیسا مہنگا سودا نہیں کرنا چاہتی ہوگی۔‘‘ جس پر کِھلکھاتی صنفِ نازک کی یہ محفل زعفران زار بن گئی۔گرم مشروبات کے ساتھ لطیفوں کی روایات، اس کے علاوہ چائے کی چسکیوں کے ساتھ ہلکا پھلکا ہنسی مذاق بھی ان کی زندگی میں رنگ بھرتا ہے۔ہرات میں موجود Latte Caf (دودھ والی کافی) “Latte” اطالوی زبان میں ’’دودھ‘‘ کے معنی رکھتا ہے میں کافی کی چسکیاں لیتی’’شہناز عزیزی‘‘کہتی ہیں کہ ‘قہوہ خانوں کی رونق لطیفوں کے بغیر ادھوری ہے۔
’’سبز قہوے نے ہلکی سی شگفتگی سے جواب دیا:‘‘ یہی کہ تمہاری بدولت ہی لوگ مجھے،چائے کا چھوٹا بھائی کہہ کر عزت دیتے ہیں! اس پر کافی نے مسکراتے ہوئے مرزا غالب کا شعر کہاہوا ہے
شہہ کا مصاحِب، پِھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے؟
اخبار اور سیاسی و علمی بحثیں:ان قہوہ خانوں کی ایک اور خوب صورتی یہ ہے کہ یہ خواتین کو دنیا سے جوڑنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہاں اخبار بینی ایک معمول ہے، جہاں خواتین تازہ ترین خبروں سے آگاہ ہوتے ہوئے ان پر اپنی رائے قائم کرتی ہیں۔ یہ عمل انہیں معاشرے میں ایک فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ان قہوہ خانوں میں فلسفیانہ بحثوں اور علم و ادب کے ورقوں کی الٹ پلٹ کی سرسراہٹ بھی سنائی دیتی ہے۔ ایک طالبہ کہتی ہیں:ایک طالب علم کے لیے چائے اور علم کی جوڑی اس کے جسم و روح کو تازگی دیتی ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ علم کی روشنی سے ہی روح کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور قہوہ خانے کی کڑک چائے وہ ٹانک ہے، جو سست دماغ کو بیدار کرتا ہے!طالبہ کا یہ فلسفیانہ خیال بتاتا ہے کہ وہ ادبی ذوق اور بین الثقافتی رواداری جیسی ذہنی وسعتِ کی صفت سے مالا مال ہے۔
سہ پہر کی دھوپ میں کوہِ طور کا احساس:جب چھت کے ساتھ لگے بالائی روشن دان سے سہ پہر کی دھیمی حرارت والی آفتابی کرن آنکھوں سے آنکڑا لڑانے لگی تو ایک پختہ عمر خاتون شیریں بانو ’مسکرا کر کہنے لگیں‘یہ قہوہ خانہ ہمارا کوہِ طور جیسا ہے وہ پرآرام ٹھکانہ جہاں ہم ایک دوسرے سے ملتے جلتے اور سکین دل حاصل کرتے ہیں۔ جیسے سعدی شیرازی نے کہا ہے:بنی آدم اعضای یکدیگرند۔ ہم یہاں ایک دوسرے کی خوشی و غمی کا حصہ بنتی ہیں۔
امارتِ اسلامی کی طرف سے ان چائے خانوں کی حمایت سے یہ جگہ نہ صرف تحفظ، بلکہ فکری آزادی کا استعارہ بن گئی ہے۔چائے، کافی اور قہوہ ‘اب محض مشروبات نہیں رہے:قہوہ خانے کی مغرب کی جانب والی کھڑکی سے جب ڈھلتے سورج کی مدھم نارنجی روشنی کافی کی میز تک پہنچتی ہے تو خواتین کے ہاتھوں میں کافی کے ٹِنگ ٹِنگ ٹکراتے کپ کچن میں سمیٹ دیے جاتے ہیں۔
امارتِ اسلامی کے امن بھرے افغانستان کی یہ چائے، کافی اور قہوہ اب محض مشروبات نہیں رہے یہ تو تہذیب کے وہ ستون بن گئے ہیں، جو افغان خواتین کو اسلام کا دیا ہوا بلند مقام دِلا رہے ہیں۔ یہ وہ جگہیں ہیں، جہاں مشروبات کی گرمی، الفاظ کی رفاقت اور باہمی احترام کی فضا صنفِ نازک کو شانِ خوداری بخشتی ہے۔جیسے کسی نے کہا ہے:’قہوہ خانے کی ہوا میں ہی تو حافظ و اقبال کے مصرعے اڑتے ہیں اور ہم انہیں پینے والے پیالوں میں محفوظ کر کے اپنی روح میں اتار لیتے ہیں۔
افغانستان میں خواتین کے لیے مختص قہوہ خانے صرف چائے، کافی اور قہوے سے لطف اندوز ہونے کی جگہیں نہیں، بلکہ یہ صنفِ نازک کے لیے آزادی، احترام اور بااختیاری کا استعارہ ہیں۔ یہاں چائے کا ہر پیالہ، کافی کا ہر گھونٹ اور قہوے کی ہر چسکی نہ صرف جسم کو تازگی دیتے ہیں، بلکہ روح کو بھی ادب، شاعری اور سماجی رابطوں سے منور کرتے ہیں۔ یہ قہوہ خانے اس بات کا ثبوت ہیں کہ افغان خواتین مشکل حالات میں بھی اپنی آواز، اپنے خواب اور اپنی ہنسی کو زندہ رکھ سکتی ہیں۔
امارت اسلامی کا تعاون:امارت اسلامی نے اسلامی اصولوں کے ماتحت ان قہوہ خانوں کو مکمل تعاون فراہم کیا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ خواتین کے تحفظ، احترام اور آزادی کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ اگرچہ ماضی میں ان قہوہ خانوں کی بنیاد این جی اوز یا دیگر لوگوں نے رکھی تھی، لیکن موجودہ دور میں امارت اسلامی کی طرف سے خواتین کے کاروبار اور سماجی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قہوہ خانے امارت کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ یہ اقدام خواتین کی معاشرتی اور معاشی ترقی کے لیے اہم قدم ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: خواتین کے کافی اور کے لیے

پڑھیں:

بھارت دہشتگردی میں ملوث، افغانستان دہشتگردوں کا گڑھ بن چکا:پاکستان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہے اور  افغانستان دہشتگردوں کا گڑھ بن چکا ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ میں ایک بار پھر زور دیا ہے کہ افغانستان سے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی دہشت گردی ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔

پاکستان نے ایک بار پھر عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے اور یہ دہشتگرد عناصر افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں۔

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بارہا افغان حکام سے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا ہے اور شواہد کے ساتھ یہ بات واضح کی ہے کہ دہشتگرد گروہ، جن کی پشت پناہی بھارت کر رہا ہے، افغانستان کے اندر موجود ہیں۔ یہ عناصر پاکستان کے مختلف علاقوں میں تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کی پشت پر بھارت کی منصوبہ بندی اور معاونت شامل ہے۔

ترجمان نے اس موقع پر بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ثالثی عدالت کے حالیہ ضمنی فیصلے نے بھارت کی غیر ذمہ دارانہ اور یکطرفہ پالیسیوں کو مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سندھ طاس معاہدہ اب بھی مکمل طور پر مؤثر ہے اور بھارت کو اس میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ تبدیلی کا حق نہیں۔

ترجمان کے مطابق یہ فیصلہ پاکستان کے دیرینہ مؤقف کی تصدیق کرتا ہے کہ بھارت معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور خطے میں پانی کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی معاہدے کی پاسداری کرے اور سندھ طاس معاہدے کو معمول کے مطابق جاری رکھے، کیونکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان طویل المدتی امن اور ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔

دفتر خارجہ نے بریفنگ میں بتایا کہ یکم جولائی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان قیدیوں کی سالانہ فہرستوں کا تبادلہ عمل میں آیا۔ پاکستان نے 246 بھارتی قیدیوں کی تفصیلات نئی دہلی میں بھارتی ہائی کمیشن کے حوالے کیں، جب کہ بھارت نے بھی پاکستانی قیدیوں کی فہرست اسلام آباد میں پاکستانی حکام کو فراہم کی۔ دفتر خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستانی قیدیوں کی حفاظت اور انسانی حقوق کو یقینی بنائے۔

اس کے ساتھ ساتھ ترجمان نے اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے 17ویں سربراہی اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اہم اجلاس آذربائیجان کے تاریخی شہر میں منعقد ہوا، جس میں وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستانی وفد کی قیادت کی اور علاقائی تعاون، موسمیاتی تبدیلی اور توانائی جیسے اہم معاملات پر پاکستان کا مؤقف بھرپور انداز میں پیش کیا۔ اجلاس کی سائیڈ لائنز پر وزیراعظم کی دیگر علاقائی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی شیڈول ہیں۔

ترجمان نے مزید بتایا کہ پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے حال ہی میں ترکی کے نائب وزیراعظم سے بھی رابطہ کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے  سفارتی رابطوں میں تیزی آ رہی ہے اور ترکی کے وزیر خارجہ کا جلد پاکستان کے دورے کا امکان ہے، جس کی تفصیلات دفتر خارجہ جلد جاری کرے گا۔

آخر میں ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے، مگر دہشتگردی جیسے بنیادی مسئلے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر افغان حکومت واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے اپنی سرزمین سے دہشتگرد عناصر کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے، کیونکہ یہی عناصر پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کیا روس کے بعد پاکستان بھی افغانستان کو تسلیم کر سکتا ہے؟
  • بھارت دہشتگردی میں ملوث، افغانستان دہشتگردوں کا گڑھ بن چکا:پاکستان
  • صدر میں چائے کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مسائل پر آل صدر ریٹیل ٹی ایسوسی ایشن کی اہم میٹنگ
  • جماعت اسلامی خواتین شرقی کے تحت میڈیا ورکشاپ منعقد کی جارہی ہے
  • پوری کی پوری بہادری
  • روس افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا
  • حکومت نے کتے بلیوں کی خوراک،امپورٹڈ میک اپ، امپورٹڈ پھل، امپورٹڈ کافی سمیت بیشتر امپورٹڈ اشیاء پر ٹیکس کم کر دیا
  • علی امین کیخلاف سازش کیلئے اپنے ہی لوگ ہی کافی ہیں: فیصل کریم کنڈی
  • علی امین گنڈاپور کیخلاف سازش کیلئے ان کے اپنے لوگ ہی کافی ہیں: گورنر خیبر پختونخوا
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟