Express News:
2025-04-25@01:42:42 GMT

امانت داری کی فضیلت

اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT

اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے، یہی وجہ ہے کہ دین اسلام ان اعمال و افعال کا حکم دیتا ہے جن کے ذریعے انسانی حقوق کی حفاظت ممکن ہو سکے، انھی اعمال میں سے ایک ’’امانت داری‘‘ بھی ہے۔

امانت، امن سے مشتق ہے جس کے معنیٰ مطمین اور مامون کرنے کے ہیں۔ مومن کی شان امانت دار ہونا اور امانت سپرد کرنے والے کے اعتماد و اعتبار کا پاس رکھنا اور اسے تقویت پہنچانا ہے نہ کہ اسے ایذا پہنچانا یا اس کے اعتبار و اعتماد کو ختم کرنا ہے۔ آپس کے معاملات اور لین دین میں امانت داری کا مظاہرہ کرنا اور دیانت داری کا دامن تھامے رکھنا شریعت اسلام کی اہم ترین تعلیمات میں سے ہے۔ امانت داری صرف اخلاقیات ہی نہیں بل کہ ایمانیات کا بھی حصہ ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اس شخص کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں جس میں امانت داری نہیں۔‘‘ (مسند احمد)

یعنی اگر کوئی شخص کسی معاملے میں کسی پر بھروسا کرے اور جس پر بھروسا کیا گیا ہے وہ اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ایمان میں ابھی نقص ہے اور وہ درجہ کمال تک نہیں پہنچا۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی ذات بابرکات میں امانت داری کا وصف بہت نمایاں تھا، آپ ﷺ پورے مکہ میں صادق و امین کے اعلیٰ القابات سے پکارے جاتے تھے، مشرکین مکہ آپ ﷺ سے شدید ترین اختلافات کے باوجود بھی اپنی امانتیں آپ ﷺ کے پاس رکھواتے تھے۔

حالاں کہ مکہ کا سردار ابُوجہل تھا لیکن اہل مکہ کا اعتماد ابوجہل کے بہ جائے نبی کریم ﷺ پر تھا، کیوں کہ ابوجہل کی بددیانتی کے قصے سارے شہر میں زبان زد عام تھے، جس کی ادنیٰ سی جھلک اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی دکھلائی ہے، مفہوم: ’’وہ شخص جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔‘‘ (سورۃ الماعون)

مفسرین کے مطابق یہ آیت ابُوجہل کے بارے میں نازل ہوئی، اس کی عادت تھی کہ جب مکہ کا کوئی رئیس مرض الوفات میں ہوتا اور اس کی اولاد نابالغ اور ناسمجھ ہوتی تو اس کو جا کر یقین دلاتا کہ اپنی جمع پونجی میرے حوالے کر دو، میں وقت آنے پر آپ کے بچوں کو لوٹا دوں گا، وہ شخص سردار ہونے کی وجہ سے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اپنا تمام وراثتی مال اس کے سپرد کر دیتا، پھر جوان ہونے کے بعد وہ یتیم اولاد اس سے امانت کی ادائی کا مطالبہ کرتی تو اسے دھکے دے کر واپس بھیج دیتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیانت داری اسوۂ پیغمبرؐ اور بددیانتی شیوۂ ابُوجہل ہے۔

ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ امانت کا تعلق صرف اس مال سے ہے جو کسی کی پاس بہ طور امانت رکھوایا جائے اور وہ مال پوری مقدار میں کوئی عیب پیدا کیے بغیر مالک کے حوالے کر دیا جائے، اس میں شک نہیں کہ یہ بھی امانت میں داخل ہے لیکن احادیث نبوی ﷺ کے مطالعے سے بہت سی ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ نے بجا طور پر امانت داری میں شمار کیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی معاملے میں کسی سے رائے طلب کرے تو دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اس کو درست مشورہ دے اگر مشورہ دینے والا سمجھتا ہے کہ اس کام میں اس کا نقصان ہے پھر بھی اس کو اس کے کرنے کی تجویز دیتا ہے تو یہ سراسر خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ چناں چہ ارشاد نبویﷺ ہے، مفہوم:

’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)

اگر کسی مجلس میں کوئی معاملہ طے پائے اور شرکائے مجلس میں اس کو خفیہ رکھنے پر اتفاق ہُوا ہو تو ایسی بات کو ظاہر کرنا بھی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مجلس کی باتیں امانت ہوتی ہیں۔‘‘ البتہ اگر خلاف شرع کام کرنے یا کسی کو نقصان پہنچانے کے متعلق بات چیت ہوئی ہو تو ایسی بات کو ظاہر کرنا صرف جائز ہی نہیں بل کہ واجب ہے۔

چناں چہ مذکورہ بالا حدیث میں ہی ارشاد نبویﷺ ہے، مفہوم: ’’مگر تین قسم کی مجالس ایسی ہیں جن کی بات ظاہر کی جائے گی، وہ تین چیزیں ناحق خون کا بہانا۔ یا بدکاری کرنا۔ یا کسی کا ناحق مال لینا ہے۔‘‘ (ابو داؤد) اسی طرح کسی بھی قسم کے عہدہ کو سپرد کرنے کے لیے دو بنیادی شرائط ذکر کی جاتی ہیں: اول یہ کہ مذکورہ شخص اس کا اہل ہو۔ یعنی اس کام کے تمام خد و خال کو اچھے طریقے سے جانتا ہو۔ اور دوسرا یہ کہ وہ ایمان دار ہو جو اس عہدہ کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہ کرتا ہو بل کہ پوری دیانت داری سے اپنے کام میں مگن رہتا ہو۔

قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کے ضمن میں ہے کہ جب انھوں نے عزیر مصر سے وزارت خزانہ کا مطالبہ کیا تو اپنی انھیں دو خوبیوں کو پیش کیا، چناں چہ ارشاد فرمایا: ’’(اے عزیز مصر!) میرا زمین کے خزانوں پر تقرر کیجیے، بلاشبہ! میں (مال کی) حفاظت کرنے والا (اور وزارت خزانہ سے متعلق امور کو) جاننے والا ہوں۔‘‘ (سورہ یوسف)

اگر ایسے شخص کو عہدہ دیا جائے جو اس کا اہل نہ ہو تو یہ بھی بدترین قسم کی خیانت ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے بارگاہ رسالت ﷺ میں آکر سوال کیا، مفہوم: یا رسول اﷲ ﷺ! قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے فرمایا: جب امانت کو ضایع کیا جانے لگے تو پھر تو قیامت کا انتظار کر۔ اس نے عرض کیا: امانت کیسے ضایع کی جائے گی؟ آپؐ نے فرمایا: جب معاملات نااہل کے سپرد کیے جائیں تو پھر تو قیامت کا انتظار کر۔ (صحیح بخاری)

جو شخص کسی کا مزدور یا ملازم ہو اسے چاہیے کہ مالک اور ذمہ دار سامنے ہو یا نہ ہو مکمل دیانت داری کے ساتھ کام کر ے نہ تو وقت میں کمی کرے اور نہ کام میں سستی اور نہ ہی اپنی صلاحیت کو استعمال کر نے سے گریز کرے، ان تینوں میں سے کچھ پایا گیا تو خیانت شمار ہوگی اس لیے کہ ایک ملازم کی صلاحیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تن خواہ طے ہوتی ہے اگر اس نے کام کر نے میں پوری صلاحیت خرچ نہ کی اور کسی بھی وجہ سے دل چسپی لیے بغیر محض ظاہری طور پر کام کر دیا تو کام میں وہ معنویت پیدا نہیں ہوگی جو ذمے دار کو مطلوب تھی تو یہ بھی خیانت کا ہی ایک حصہ ہے۔

اسی طرح اگر مزدور و ملازم سے جتنے گھنٹے کام کرنے کا وقت طے ہوجائے اور پھر کام کر نے والا وقت میں چوری کرے ، وقت کے بعد آئے یا متعین وقت سے پہلے چلا جائے تو یہ بھی خیانت ہے۔ ایک مسلمان ملازم جو کائنات کے مالک کو سمیع و بصیر سمجھتا ہے اور اس پر پورا یقین رکھتا ہے اسے احساس ہو نا چاہیے کہ اگرچہ میرا مالک اور ذمہ دار شخص مجھے نہیں دیکھ رہا ہے لیکن رب تو مجھے دیکھ رہا ہے، اس کی گرفت سے جو بچ گیا وہی کام یاب اور فلاح پانے والا ہے۔

اسی طرح کام میں سستی اور ٹال مٹول کر نا بھی خیانت ہے، وہ کام جو پانچ گھنٹے میں ہوسکتا تھا اس کو دس گھنٹے میں مکمل کرنا تاکہ مزید پیسے ملتے رہیں اور اس کے معاش کا مسئلہ حل ہو تا رہے، یہ بہت بُری سوچ اور ناپسندیدہ عمل ہے، امانت داری کا تقاضا ہے کہ مکمل محنت سے کام کو انجام دیا جائے طے شدہ مکمل وقت اور پوری طاقت اس کے لیے خرچ کی جائے، ورنہ وہ مالک کے ساتھ خیانت کر نے کا مرتکب ہوگا اور اس کا بھی روز محشر حساب دینا ہوگا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے سفر میں دو لڑکیوں کی بکریوں کے پینے کے لیے پانی بھر دیا تھا تو ان دونوں نے واپس جا کر اپنے بوڑھے باپ سے ان کی تعریف کی اور کہا کہ یہ بڑے امانت دار اور طاقت ور ہیں ان کو اپنے گھر میں ملازم رکھ لیجیے۔ قرآن نے اس کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے، مفہوم: ’’اے میرے ابا! ان کو مزدور رکھ لیجیے اچھا مزدور وہ ہے جو طاقت ور اور امانت دار ہو۔‘‘ (سورۃ القصص) اس آیت کریمہ میں جہاں ملازم اور مزدور کے اوصاف کی طرف راہ نمائی کی گئی ہے وہیں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ مزدور امین ہو تا ہے اسے کام کر تے ہوئے اپنی امانت داری کا مکمل ثبوت دینا چاہیے، اس سے اس کی اپنی زندگی خوش گوار ہوگی اور اﷲ تعالیٰ اس کے رزق کا انتظام بھی خزانۂ غیب سے فرماتے رہیں گے۔

دیانت داری سے کام لینے والے انسان کو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن جنت کی نعمتوں سے تو نوازیں گے ہی لیکن دنیا میں بھی اﷲ تعالیٰ اسے بہت زیادہ نوازتے ہیں۔ امانت دار آدمی لوگوں کی نظر میں بہت زیادہ عزت والا اور قابل احترام ہوتا ہے، سب لوگ اسے اچھا دین دار اور مخلص سمجھتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ اسے یہ حاصل ہوتا ہے کہ اس کی اولاد حرام کھانے سے بچ جاتی ہے اور ا س کے رزق میں برکت باقی رہتی ہے۔

امانت داری کا مظاہرہ کرنے میں خدمت خلق کا پہلو بھی مضمر ہے جو بہ ذات خود ایک بڑی عبادت ہے، جس سے خدا ملتا ہے۔ اس لیے کہ ہر شخص کی ضرورت ہے کہ بہ امر مجبوری اپنی چیز دوسرے کے پاس رکھے اور پھر اس کی امانت اس تک بہ حفاظت اور اسی معیار اور اتنی مقدار میں پہنچے جیسے اس نے رکھوائی تھی، لہٰذا جو شخص لوگوں کی یہ ضرورت پوری کر رہا ہے وہ ایمان داری پر ملنے والے ثواب کے ساتھ خدمت ِ انسانیت کا اجر بھی حاصل کر رہا ہے۔

جو شخص اس اہم دینی تعلیم اور اسلامی ہدایت کو نظر انداز کر دے اور بددیانتی اور بدعنوانی کو اپنا شعار بنا لے اسے دنیا اور آخرت میں بہت سے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ دنیاوی نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتماد اٹھ جانے کے باعث اس کا کاروبار اور روزگار بُری طرح متاثر ہوتا ہے، خود کو اور اہل و عیال کو حرام کھلانے کی وجہ سے رزق سے برکت اٹھ جاتی ہے، لوگ اپنی ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے اور اس کے شر سے بچنے کے لیے منہ پر چاہے عزت کریں لیکن پیٹھ پیچھے ہر زبان پر اس کی برائی ہوتی ہے، ایسی بدنامی گلے پڑتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی کوئی اچھے الفاظ میں اس کا ذکر نہیں کرتا۔ اسی طرح اخروی نقصانات کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔ ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ بددیانت شخص اﷲ کی محبت سے محروم ہوجاتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم: ’’بے شک! اﷲ اس شخص سے محبت نہیں کرتا جو خائن (اور) گناہ گار ہو۔‘‘ (النساء)

ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ اعتقاداً تو مسلمان رہتا ہے، لیکن عملاً منافقین کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے، جو کفر کی قبیح ترین قسم ہے۔ حدیث میں ہے کہ ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو وعدے کی خلاف ورزی کرے۔ اور جب اسے امانت سونپی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘ (سنن ترمذی)

جس طرح آج ہمارے معاشرے میں بہت ساری اچھائیاں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں وہیں امانت داری کا بھی فقدان نظر آتا ہے، حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ امانت دار اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے والے افراد کو بعض کم عقل لوگ بے وقوف سمجھنے لگے ہیں اور دھوکا دینے والے کو، خیانت کرنے والے کو ہوشیار اور چالاک انسان کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ گویا کہ معاشرے کی سوچ اس قدر منفی ہوچکی ہے کہ برائی کو اچھائی اور اچھائی کو برائی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے اندر امانت داری کی صفت کو اجاگر کریں اور دوسروں کے حقوق پوری طرح ادا کریں۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں تمام امانتوں کی حفاظت کرنے اور ان کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے امانت دار اور سچا پکا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امانت داری کا دیانت داری اﷲ تعالی ہے کہ اس کام میں نے والا دار اور ہے کہ ا دار ہو کام کر رہا ہے یہ بھی کے لیے اور اس

پڑھیں:

زمین صرف ہماری نہیں، آنے والی نسلوں کی بھی امانت ہے: مریم نواز

لاہور(نیوز ڈیسک) وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ زمین صرف ہماری نہیں، آنے والی نسلوں کی بھی امانت ہے۔

ارتھ ڈے (Earth Day) پر اپنے پیغام میں وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ زمین کے تحفظ کیلئے ہمیں قدرتی وسائل اور درختوں کو بچانا ہے، زمین کو محفوظ بنانے کیلئےآلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت قدرتی مسکن کی حفاظت کے مشن میں سب سے آگے ہے، حکومت پنجاب نے زمینی ماحولیاتی تحفظ کو اپنی پالیسی کا مرکزی حصہ بنایا ہے، زمین کے تحفظ کیلئے سرسبز پنجاب مہم کے تحت لاکھوں درخت لگائے جا چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں پاکستان کی پہلی سمارٹ انوائرمنٹ فورس قائم کر دی گئی ہے، کارخانوں کی نگرانی کی جا رہی ہے، فصلوں کی باقیات جلانے کی روک تھام کیلئے سپر سیڈر دیئے جا رہے ہیں۔

مریم نواز نے مزید کہا کہ پنجاب نے پاکستان کی پہلی جامع کلائمیٹ پالیسی متعارف کرائی ہے، صنعتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے خودکار مانیٹرنگ سسٹم لا رہے ہیں، مل جل کر اپنی زمین کو بہتراور سرسبز بنانے کا عزم کرتے ہیں۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • زمین صرف ہماری نہیں، آنے والی نسلوں کی بھی امانت ہے: مریم نواز