ایسے دو اداکار جو دوست بنے، ایک ہی سال میں طلاق لی اور ایک ہی تاریخ کو انتقال کرگئے
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
بالی ووڈ کے دو مایہ ناز آنجہانی اداکار، ونود کھنہ اور فیروز خان نہ صرف اپنی اداکاری اور مشہور فلموں کے لیے یاد رکھے جاتے ہیں بلکہ ان کی ذاتی زندگی میں موجود چند حیران کن مشابہتیں بھی لوگوں کو آج تک حیران کرتی ہیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق دونوں اداکار نہ صرف گہرے دوست تھے بلکہ کئی ہٹ فلموں میں ایک ساتھ کام بھی کر چکے تھے، جن میں ’قربانی‘، ’شَنکر شَمبھو‘ اور ’دیوان‘ شامل ہیں۔
ان دونوں سینئر اداکاروں کی زندگی کا ایک دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ دونوں نے اپنی ازدواجی زندگی کا اختتام ایک ہی سال، 1985 میں کیا۔ ونود کھنہ نے اپنی اہلیہ گیتانجلی سے علیحدگی اختیار کی، جبکہ فیروز خان نے اسی سال اپنی بیوی سندری سے طلاق لی۔
یہی نہیں بلکہ دونوں اداکاروں کا انتقال بھی ایک ہی تاریخ، اگرچہ مختلف سالوں میں، تاہم 27 اپریل کو ہوا۔ فیروز خان کا انتقال 2009 میں پھیپھڑوں کے کینسر کے باعث ہوا جبکہ ونود کھنہ 2017 میں مثانے کے کینسر کے باعث جان کی بازی ہار گئے۔
بالی ووڈ ستاروں کی یہ حیرت انگیز مماثلت ان دونوں شخصیات کو نہ صرف فلمی دنیا میں بلکہ ذاتی طور پر بھی ایک خاص مقام دیتی ہیں۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: ایک ہی
پڑھیں:
نا ممکن کچھ بھی نہیں
’’دانشور ڈاکٹر سلامت اللہ فرماتے ہیں‘ یہ ناممکن ہے کہ کسی قوم کی معیشت خراب ہو اور اس قوم کا اخلاق و کردار ا چھا ہو‘‘ اسی لئے تو میرے پیارے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ’’میں اخلاق سنوارنے کے مبعوث کیا گیا ہوں‘‘ہمارے روشن خیال اور لبرل دانشور کو یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی نہ آنی ہے ،اس کی عقل پر دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں ۔
ڈاکٹر سلامت اللہ کی بات آب زر سے لکھنے والی ہے مگر کیا کیجئے کہ میرے دانشور کی آنکھیں روشنی سے چندھیا جاتی ہیں ۔وہ زندگی کے ہر تاریک پہلو پر نظر رکھتے ہیں اور کہلوانا روشن خیال پسند کرتے ہیں ۔معیشت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو انہوں نے دعائوں کے سہارے کنارے لگتے نہیں دیکھا اور ہم نے یہ آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ان دعائوں کے پیچھے ’’اخلاق ‘‘ ہوتا ہے ،یہ احساس نہیں ہوتا کہ سب ڈوب جائیں فقط میں بچ جائوں ۔
زندگی خود غرضی اور خود فریبی کے سہارے نہیں گزرا کرتی ۔باہمی ہم آہنگی اور آپس کے اتحادو اتفاق کے ذریعے خوش رنگ و خوش حال ہوتی ہے ۔انسانی تاریخ کا وہ اب تک کا پہلا اور آخری واقعہ ہے جسے ’’مواخات مدینہ‘‘ کے نا م سے تعبیر کیا جاتا ہے جب معیشت زندگی اور موت کا سوال بن سکتا تھا مگر سب نے ایک دوسرے کے لئے حسن اخلاق کے در وا کردیئے ہر کوئی اپنی متاع زندگی لئے اپنے دوسرے،مسلمان بھائی کے روبرو کھڑا اپنا مال قبول کرنے کا خواستگار تھا ۔
ایک مسلمان تو اپنی دو بیویوں کو ساتھ لائے کہہ رہا تھا ’’ اپنی پسند کی ایک تم لے لو ‘‘ تم ’’کیپٹل داس‘‘ کو تو اسٹڈی سرکلز میں سبقاً سبقاً پڑھتے ہو ،کبھی ’’ قران کریم‘‘ کا مطالعہ بھی کیا؟ کبھی اس معلم اخلاق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کا بھی مطالعہ کیا ہے جن کی ساری زندگی انسانوں کے حقوق کی بحالی کی نبرد آزمائی میں گزری،جنہوں نے مساوات کا عالمگیر منشور پیش کیا جو قیامت تک کی زندگی پر محیط ہے ۔
آج بھی اقوام عالم کی بڑی معیشتیں ان کے بتائے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر کھڑی ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معیشت کے جو اصول وضع فرمائے وہ عمدہ معاشرت کے لئے بھی مثالی ڈھانچے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ان سے پہلے یا ان کے بعد کس نے بتایا کہ ’’دیانت،عدل ،محنت ، خیرات، قرض حسنہ،ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ، زکوٰۃ، سود کی حرمت ،تجارت میں امانت و دیانت ، مزدور کے حق کا تحفظ اور دولت کی تقسیم ‘‘ سب کیسے ہوں ؟
اقوام عالم میں سر اٹھا کر چلنے میں کس قوم کو فوقیت حاصل ہے ؟ جرمنی ،ہالینڈاوراسکینڈے نیوین ۔ یہ وہ فلاحی ریاستیں ہیں جو عوامی حقوق کے تحفظ کا وہی نظام اپنائے ہوئے ہیں جو محمد کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضع فرمایا ۔یہاں معاشی عدل و انصاف،فرد کی عزت نفس اور اس کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں کی بلا امتیاز کڑی سزائیں دی جاتی ہیں ،مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اجرت ادا کی جاتی ہے ۔
جاپان جہاں اسلامی معاشی نظام کی جھلک ہر طور نمایاں و آشکار ہے جھوٹ ،ملاوٹ کا تصور تک جاپانی معاشرے میں ناممکن ہے ۔چین جہاں سماجی انصاف میں اسلامی نظام کی جھلک عیاں ہے ، غربت مٹانے کی کوششیں بھی دین ہی کا اصل ورثہ ہیں ، ملائیشیا اور انڈونیشیا وہ اسلامی ممالک ہیں جن کی معیشت اسلامی مالیاتی اصولوں پر قائم ہے اور بنک بھی سودی آلائشوں سے پاک ہیں ۔غرض مسلم ممالک ہوں یا یورپ جہاں جہاں فلاحی نظام چل رہاہے وہ اسلامی نظام ہی کا عکس ہے وہاں کے لوگ محبت اخوت کے درس سے آگاہ ہیں ان کا معاشرتی زندگی بھی حسن اخلاق کا نمونہ ہے ،ان کے سیاسی نظام میں ناہمواریوں کی طلاطم خیزی نہیں ،ان کا عدالتی ڈھانچہ ناتواں نہیں ان کے اہل کار بے رحم و ظلم پسند نہیں ۔ہم اگر یہ سب مان لیں اس پر عمل کرنے والے بن جائیںتو سب کچھ آسان ہو سکتا ہے ۔