اسلام ٹائمز: اس صورتحال کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے کچھ یورپی اتحادی اپنی دفاعی صنعت مضبوط بنانے میں مصروف ہو گئے ہیں تاکہ امریکی اسلحہ اور فوجی مصنوعات پر اپنا انحصار کم کر سکیں۔ جنوبی کوریا نے اپنی جوہری سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور یہ قیاس آرائیاں بھی جنم لے چکی ہیں کہ امریکہ سے تعلقات میں کشیدگی کے باعث ممکن ہے حتی امریکہ کے اتحادی ممالک بھی کم از کم اقتصادی شعبے میں چین سے قربتیں بڑھانے لگ جائیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جو چیز خطرے کا شکار ہے وہ اس عالمی نظام کا مستقبل ہے جو گذشتہ آٹھ عشروں سے امریکہ کی سربراہی میں تشکیل پا چکا ہے۔ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں پر اعتماد نہیں کرتی اور عالمی امور کو سودے بازی کی نظر سے دیکھتی ہے جس کے باعث موجودہ ورلڈ آرڈر متزلزل ہے۔ تحریر: فاطمہ محمدی
 
ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکہ اور چین کے درمیان شروع ہونے والی تجارتی جنگ گذشتہ چند عشروں کی اہم ترین اقتصادی اور سیاسی تبدیلی شمار ہوتی ہے۔ اس ٹکراو کا مقصد چین کے اقتصادی اثرورسوخ کو کم کرنا اور امریکہ کی اندرونی مصنوعات کی حمایت کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے امریکی حکومت کی جانب سے چین سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔ ٹرمپ حکومت نے 2018ء اور 2019ء میں بھی چین سے درآمد ہونے والی 360 ارب مالیت کی مصنوعات پر 25 فیصد تک ٹیکس عائد کیا تھا اور چین نے اس کے جواب میں امریکہ سے درآمد ہونے والی 110 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات پر بھی ٹیکس عائد کر دیا تھا۔ یہ ٹکراو اب ایک بھرپور تجارتی جنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے دونوں ممالک پر گہرے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔
 
تجارتی جنگ کس کے فائدے میں ہے؟
لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ تجارتی جنگ جو بظاہر چین کو کنٹرول کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی کیا آخرکار اس کے فائدے میں آگے بڑھ رہی ہے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے ہمیں دونوں فریقین پر اس ٹکراو کے مختصر مدت اور طویل مدت اثرات کا جائزہ لینا پڑے گا اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس تجاری جنگ نے عالمی سطح پر امریکہ اور چین کی پوزیشن کو کس انداز میں متاثر کیا ہے۔ اس تجارتی جنگ نے شروع میں چین کی معیشت کو کئی دھچکے پہنچائے ہیں۔ چین کی سب سے بڑی منڈی امریکہ تھی اور امریکہ جانے والی چینی برآمدات میں 20 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ چینی کمپنیوں کو خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں اچھا خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا جس کی بنیادی وجہ مانگ میں کمی تھی۔ یوں چین اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مزید سرمایہ کاری پر مجبور ہو گیا۔
 
مختصر مدت میں اس دباو نے چین کو مشکلات کا شکار کیا لیکن بیجنگ نے تیزی سے درپیش خطرات کو مواقع میں تبدیل کر دیا۔ اس نے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کی بجائے فعال انداز اپنایا اور امریکہ پر اپنی تجارت کا انحصار کم کرنا شروع کر دیا جس کے باعث عالمی سطح پر اس کی اقتصادی پوزیشن مزید مضبوط ہو گئی۔ چین کا ایک اہم ردعمل دنیا کے دیگر ممالک سے تجارت کی سطح میں اضافہ کرنا تھا۔ چین نے یورپی یونین، جاپان اور ایشین تنظیم کے رکن ممالک سے تجارتی تعلقات بڑھائے اور یوں 2024ء میں یورپی یونین چین کا سب سے بڑا تجارتی شریک بن کر سامنے آیا۔ اسی طرح بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے چین نے اپنا تجارتی اثرورسوخ افریقہ اور مرکزی ایشیا تک بڑھا دیا۔
 
اندرونی سطح پر بھی چین نے ملکی مصنوعات کو سبسڈیز فراہم کر کے درآمدات پر انحصار کم کر دیا جس کے نتیجے میں درمیانے طبقے نے ترقی کی اور شہریوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح چین نے مختلف نئے شعبوں جیسے مصنوعی ذہانت، جی 5 اور پاکیزہ انرجیوں میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی اور یوں ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنے پاوں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ دوسری طرف امریکہ بھی اس تجارتی جنگ میں مختصر مدت کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ نہیں رہ پایا۔ درآمدات پر ٹیکسوں نے امریکہ میں باہر سے آنے والی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان ٹیکسوں کے بعد ہر امریکی گھرانہ سالانہ 1200 ڈالر اضافی خرچ کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ یوں عوامی ناراضگی میں اضافہ ہوا ہے اور چھوٹی سطح کے کاروبار بھی متاثر ہوئے ہیں۔
 
امریکہ کا اصلی نقصان
اکثر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اس تجارتی کے اصل نقصانات وہ ہیں جو طویل مدت بعد اس ملک پر ظاہر ہوں گے۔ روئٹرز نیوز ایجنسی نے اس بارے میں اپنے تجزیے میں لکھا کہ "فرسٹ امریکہ" نامی پراجیکٹ امریکہ اور اس کے دوستوں میں فاصلہ بڑھنے کا باعث بنا ہے جس کے نتیجے میں اس کے دشمن مزید جری ہو گئے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے انجام پانے والے اقدامات نے کچھ حکومتوں کو اس قدر تشویش کا شکار کر دیا ہے کہ وہ خطرناک قسم کے ردعمل ظاہر کرنے لگے ہیں۔ اس تجزیے کے بقول حتی اگر 2028ء میں ایک روایتی صدر امریکہ میں برسراقتدار آتا ہے تب بھی پیدا شدہ اثرات کا ازالہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔ گذشتہ امریکی حکومتوں کے مذاکرات کار ڈینس راس کا اس بارے میں کہنا ہے: "ہم عالمی امور میں وسیع انارکی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس وقت کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے؟"
 
اس صورتحال کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے کچھ یورپی اتحادی اپنی دفاعی صنعت مضبوط بنانے میں مصروف ہو گئے ہیں تاکہ امریکی اسلحہ اور فوجی مصنوعات پر اپنا انحصار کم کر سکیں۔ جنوبی کوریا نے اپنی جوہری سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور یہ قیاس آرائیاں بھی جنم لے چکی ہیں کہ امریکہ سے تعلقات میں کشیدگی کے باعث ممکن ہے حتی امریکہ کے اتحادی ممالک بھی کم از کم اقتصادی شعبے میں چین سے قربتیں بڑھانے لگ جائیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جو چیز خطرے کا شکار ہے وہ اس عالمی نظام کا مستقبل ہے جو گذشتہ آٹھ عشروں سے امریکہ کی سربراہی میں تشکیل پا چکا ہے۔ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں پر اعتماد نہیں کرتی اور عالمی امور کو سودے بازی کی نظر سے دیکھتی ہے جس کے باعث موجودہ ورلڈ آرڈر متزلزل ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی سربراہی میں امریکی حکومت تجارتی جنگ امریکہ اور مصنوعات پر ہو گئے ہیں امریکہ کی امریکہ کے ہونے والی میں اضافہ ہے جس کے کا شکار ظاہر ہو کے باعث اور چین کر دیا چین نے کے لیے چین سے

پڑھیں:

وفاقی بجٹ عوامی امنگوں کا آئنہ دار نہیں‘ زرعی، تجارتی ، صنعتی سر گر میوں کو بر یک لگے گا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) وفاقی بجٹ عوامی امنگوں کا آئنہ دار نہیں‘ زرعی، تجارتی اور صنعتی سر گر میوں کو بر یک لگے گا‘ چھوٹے کسانوں کے بجائے زمینداروں اور سرمایہ دار طبقے کو نوازا گیا‘ 4.2 فیصد جی ڈی پی گروتھ اور 7.5 فیصد مہنگائی کی شرح کے اہداف غیر حقیقت پسندانہ ہیں‘ زراعت پر ٹیکس عاید نہ کرنے سے معیشت پر دبائو بڑھ رہا ہے‘ دفاعی بجٹ میں اضافہ ناگزیر تھا۔ ان خیالات کا اظہارمرکزی کسان لیگ کے صدر اشفاق ورک ،ایف پی پی سی آئی کے سابق صدر خالد تواب، یو بی جی کے صدر زبیر طفیل اور کورکمیٹی ممبر ملک خدا بخش ، ماہر تعمیرات حنیف گوہر اورتاجر رہنما اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا وفاقی بجٹ ملک سے زرعی، تجارتی اور صنعتی سر گر میوں کو بر یک لگا دے گا؟‘‘مرکزی کسان لیگ کے صدر اشفاق ورک نے کہا کہ بجٹ 2025-26ء بہت سخت ہے جس سے ملک کی زراعت کو بریک لگانے کی کو شش کی جا رہی ہے‘ اس سے زرعی شعبے میں جمود کی کیفیت پیدا ہوجائے گی‘ حکومت نے زرعی شعبے کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے اپنی کسان دشمنی کا کھلا ثبوت دیا ہے‘ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر محض زبانی جمع خرچ پر مبنی تھی اور حقیقی مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا‘ حکومت کے متعارف کردہ ’’ پاکستان انیشیٹو پروگرام‘‘ کے ذریعے صرف بڑے زمینداروں اور سرمایہ دار طبقے کو نوازا گیا ہے، جبکہ چھوٹے کسانوں کو جو ملک میں زرعی پیداوار کا 80 فیصد بوجھ اٹھاتے ہیں ، کے مفادات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے‘ حکومت نے فصلوں کی امدادی قیمتیں مقرر نہ کر کے کسانوں کو کھربوں روپے کے نقصان سے دوچار کر دیا ہے، جس کے باعث کسانوں کو اپنی محنت سے اگائی گئی فصلیں کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کرنی پڑی ہیں‘ زرعی شعبے پر سپر ٹیکس میں صرف 0.5 فیصد کمی کو آٹے میں نمک کے برابر قرار دیا جا سکتا ہے، جو کسی طور پر قابل قبول نہیں۔ بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر ڈھائی روپے فی لیٹر کاربن لیوی عاید کی گئی ہے جس سے نہ صرف ڈیزل مہنگا ہوگا بلکہ بیج، کھاد، زرعی ادویات اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی اور کسان مزید معاشی دبائو کا شکار ہو گا۔ایف پی پی سی آئی کے سابق صدر خالد تواب، یو بی جی کے صدر زبیر طفیل اور کورکمیٹی ممبر ملک خدا بخش نے کہا کہ نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ صنعتی شعبے کے لیے فائدہ مند نہیں، اس سے صنعتی شعبے کو مکمل بریک لگ سکتا ہے‘ حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کا اہم موقع ضائع کیا‘ خصوصاً 9 ٹریلین روپے کی غیر دستاویزی نقدی پر مبنی معیشت کو رسمی طور پر دستاویزی شکل دینے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی پیش نہیں کی گئیجس کا تجارتی وصنعتی نمائندہ ادارے مطالبہ کررہے تھے‘ ٹیکس اصلاحات اور ڈیجیٹل نگرانی کے نظام کے نفاذ سے محصولات میں اضافہ ممکن ہے لیکن یہ تب ہی مؤثرہوگا جب اس کے ساتھ ٹیکس دہندگان کو سہولت بھی دی جائے۔ ماہر تعمیرات حنیف گوہر نے کہا کہ نئے وفاقی بجٹ نے مایوس کیا‘ نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ صنعتی شعبے کی ترقی کے لیے کے لیے نا قابلِ قبول ہے اور نہ ہی عوامی امنگوں کا آئنہ دار ہے، بجٹ ملکی سلامتی، داخلی استحکام اور مالیاتی ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش ضرور ہے لیکن کاروباری طبقے اور سرمایہ کاروں کے لیے تشویش کا باعث ہیں‘ 4.2 فیصد جی ڈی پی گروتھ اور 7.5 فیصد مہنگائی کی شرح کے اہداف غیر حقیقت پسندانہ ہیں‘ زرعی شعبہ، جو قومی آمدنی میں 26 فیصد کا ایک بڑا حصہ رکھتا ہے، بدستور ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور اس کی قومی ٹیکس نیٹ میں شراکت ایک فیصد سے بھی کم ہے جس سے دوسرے شعبوں پر دبائو پڑ رہا ہے‘ اس سے ایسا محسوس رہا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی ختم کر نے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاجر رہنما اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے کہا کہ بجٹ 2025-26ء وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے‘ اس تجارتی صنعتی اور زرعی شعبے کو بریک نہیں لگے گا تاہم ان کا کہنا ہے کہ بجٹ میں عوام اور تنخواہ دار طبقے کو جو ریلیف ملنا چاہیے تھا، وہ نہیں دیا گیا‘ معیشت کو درپیش غیر معمولی دباؤ، آئی ایم ایف کی سخت شرائط، بڑھتی ہوئی عالمی کشیدگی اور پاک بھارت تناؤ کے تناظر میں پیش کیا گیا بجٹ دفاعی، مالیاتی اور اسٹریٹجک تقاضوں کو پورا کرتا ہے‘ دفاعی بجٹ میں اضافہ ایک ناگزیر امر تھا کیونکہ علاقائی صورتحال دہشت گردی میں حالیہ اضافہ، بھارت کی آبی جارحیت اور غیر روایتی خطرات کے تناظر میں ملک کی سلامتی کو اولین ترجیح دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان کے مطابق 2550 ارب روپے کے دفاعی بجٹ میں21 فیصد اضافہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ ریاست اپنی بقا اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران سے معاہدہ قبول کرنے کی اپیل
  •  اگر حملہ ہوا تو امریکی فوج کی “کبھی نہ دیکھی گئی طاقت” کا سامنا کرنا ہوگا، ٹرمپ کی ایران کو دھمکی
  • امریکہ ایران اسرائیل تنازع میں فریق نہیں ہے: ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ کی ایران کو امریکہ پر حملہ نہ کرنے کی دھمکی، اسرائیل سے ثالثی کی پیشکش
  • افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا دوسرا جہاز گوادر پہنچ گیا
  • پاکستان کےخلاف فوجی جارحیت، بھارت کو 103 بلین سے زائد ڈالرکا نقصان
  • وفاقی بجٹ عوامی امنگوں کا آئنہ دار نہیں‘ زرعی، تجارتی ، صنعتی سر گر میوں کو بر یک لگے گا
  • چین امریکہ اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے ایک ہی سمت میں اتفاق رائے پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے، چینی میڈیا
  • ہم ایران کے خلاف حملوں میں ملوث نہیں،امریکہ
  • امریکہ ایران پر اسرائیلی حملوں میں شامل نہیں ، امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو