امریکہ اور چین میں تجارتی جنگ، کس کا فائدہ کس کا نقصان؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اس صورتحال کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے کچھ یورپی اتحادی اپنی دفاعی صنعت مضبوط بنانے میں مصروف ہو گئے ہیں تاکہ امریکی اسلحہ اور فوجی مصنوعات پر اپنا انحصار کم کر سکیں۔ جنوبی کوریا نے اپنی جوہری سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور یہ قیاس آرائیاں بھی جنم لے چکی ہیں کہ امریکہ سے تعلقات میں کشیدگی کے باعث ممکن ہے حتی امریکہ کے اتحادی ممالک بھی کم از کم اقتصادی شعبے میں چین سے قربتیں بڑھانے لگ جائیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جو چیز خطرے کا شکار ہے وہ اس عالمی نظام کا مستقبل ہے جو گذشتہ آٹھ عشروں سے امریکہ کی سربراہی میں تشکیل پا چکا ہے۔ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں پر اعتماد نہیں کرتی اور عالمی امور کو سودے بازی کی نظر سے دیکھتی ہے جس کے باعث موجودہ ورلڈ آرڈر متزلزل ہے۔ تحریر: فاطمہ محمدی
ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکہ اور چین کے درمیان شروع ہونے والی تجارتی جنگ گذشتہ چند عشروں کی اہم ترین اقتصادی اور سیاسی تبدیلی شمار ہوتی ہے۔ اس ٹکراو کا مقصد چین کے اقتصادی اثرورسوخ کو کم کرنا اور امریکہ کی اندرونی مصنوعات کی حمایت کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے امریکی حکومت کی جانب سے چین سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔ ٹرمپ حکومت نے 2018ء اور 2019ء میں بھی چین سے درآمد ہونے والی 360 ارب مالیت کی مصنوعات پر 25 فیصد تک ٹیکس عائد کیا تھا اور چین نے اس کے جواب میں امریکہ سے درآمد ہونے والی 110 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات پر بھی ٹیکس عائد کر دیا تھا۔ یہ ٹکراو اب ایک بھرپور تجارتی جنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے دونوں ممالک پر گہرے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔
تجارتی جنگ کس کے فائدے میں ہے؟
لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ تجارتی جنگ جو بظاہر چین کو کنٹرول کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی کیا آخرکار اس کے فائدے میں آگے بڑھ رہی ہے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے ہمیں دونوں فریقین پر اس ٹکراو کے مختصر مدت اور طویل مدت اثرات کا جائزہ لینا پڑے گا اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس تجاری جنگ نے عالمی سطح پر امریکہ اور چین کی پوزیشن کو کس انداز میں متاثر کیا ہے۔ اس تجارتی جنگ نے شروع میں چین کی معیشت کو کئی دھچکے پہنچائے ہیں۔ چین کی سب سے بڑی منڈی امریکہ تھی اور امریکہ جانے والی چینی برآمدات میں 20 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ چینی کمپنیوں کو خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں اچھا خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا جس کی بنیادی وجہ مانگ میں کمی تھی۔ یوں چین اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مزید سرمایہ کاری پر مجبور ہو گیا۔
مختصر مدت میں اس دباو نے چین کو مشکلات کا شکار کیا لیکن بیجنگ نے تیزی سے درپیش خطرات کو مواقع میں تبدیل کر دیا۔ اس نے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کی بجائے فعال انداز اپنایا اور امریکہ پر اپنی تجارت کا انحصار کم کرنا شروع کر دیا جس کے باعث عالمی سطح پر اس کی اقتصادی پوزیشن مزید مضبوط ہو گئی۔ چین کا ایک اہم ردعمل دنیا کے دیگر ممالک سے تجارت کی سطح میں اضافہ کرنا تھا۔ چین نے یورپی یونین، جاپان اور ایشین تنظیم کے رکن ممالک سے تجارتی تعلقات بڑھائے اور یوں 2024ء میں یورپی یونین چین کا سب سے بڑا تجارتی شریک بن کر سامنے آیا۔ اسی طرح بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے چین نے اپنا تجارتی اثرورسوخ افریقہ اور مرکزی ایشیا تک بڑھا دیا۔
اندرونی سطح پر بھی چین نے ملکی مصنوعات کو سبسڈیز فراہم کر کے درآمدات پر انحصار کم کر دیا جس کے نتیجے میں درمیانے طبقے نے ترقی کی اور شہریوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح چین نے مختلف نئے شعبوں جیسے مصنوعی ذہانت، جی 5 اور پاکیزہ انرجیوں میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی اور یوں ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنے پاوں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ دوسری طرف امریکہ بھی اس تجارتی جنگ میں مختصر مدت کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ نہیں رہ پایا۔ درآمدات پر ٹیکسوں نے امریکہ میں باہر سے آنے والی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان ٹیکسوں کے بعد ہر امریکی گھرانہ سالانہ 1200 ڈالر اضافی خرچ کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ یوں عوامی ناراضگی میں اضافہ ہوا ہے اور چھوٹی سطح کے کاروبار بھی متاثر ہوئے ہیں۔
امریکہ کا اصلی نقصان
اکثر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اس تجارتی کے اصل نقصانات وہ ہیں جو طویل مدت بعد اس ملک پر ظاہر ہوں گے۔ روئٹرز نیوز ایجنسی نے اس بارے میں اپنے تجزیے میں لکھا کہ "فرسٹ امریکہ" نامی پراجیکٹ امریکہ اور اس کے دوستوں میں فاصلہ بڑھنے کا باعث بنا ہے جس کے نتیجے میں اس کے دشمن مزید جری ہو گئے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے انجام پانے والے اقدامات نے کچھ حکومتوں کو اس قدر تشویش کا شکار کر دیا ہے کہ وہ خطرناک قسم کے ردعمل ظاہر کرنے لگے ہیں۔ اس تجزیے کے بقول حتی اگر 2028ء میں ایک روایتی صدر امریکہ میں برسراقتدار آتا ہے تب بھی پیدا شدہ اثرات کا ازالہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔ گذشتہ امریکی حکومتوں کے مذاکرات کار ڈینس راس کا اس بارے میں کہنا ہے: "ہم عالمی امور میں وسیع انارکی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس وقت کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے؟"
اس صورتحال کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے کچھ یورپی اتحادی اپنی دفاعی صنعت مضبوط بنانے میں مصروف ہو گئے ہیں تاکہ امریکی اسلحہ اور فوجی مصنوعات پر اپنا انحصار کم کر سکیں۔ جنوبی کوریا نے اپنی جوہری سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور یہ قیاس آرائیاں بھی جنم لے چکی ہیں کہ امریکہ سے تعلقات میں کشیدگی کے باعث ممکن ہے حتی امریکہ کے اتحادی ممالک بھی کم از کم اقتصادی شعبے میں چین سے قربتیں بڑھانے لگ جائیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جو چیز خطرے کا شکار ہے وہ اس عالمی نظام کا مستقبل ہے جو گذشتہ آٹھ عشروں سے امریکہ کی سربراہی میں تشکیل پا چکا ہے۔ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں پر اعتماد نہیں کرتی اور عالمی امور کو سودے بازی کی نظر سے دیکھتی ہے جس کے باعث موجودہ ورلڈ آرڈر متزلزل ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی سربراہی میں امریکی حکومت تجارتی جنگ امریکہ اور مصنوعات پر ہو گئے ہیں امریکہ کی امریکہ کے ہونے والی میں اضافہ ہے جس کے کا شکار ظاہر ہو کے باعث اور چین کر دیا چین نے کے لیے چین سے
پڑھیں:
یوکرین اور امریکہ کے درمیان معدنی معاہدہ طے پا گیا
واشنگٹن :یوکرین کی پہلی نائب وزیر اعظم اور وزیر اقتصادیات سویریڈینکو نے سوشل میڈیا پر انکشاف کیا کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق انہوں نے اور امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے مشترکہ طور پر “امریکہ یوکرین ری کنسٹرکشن انویسٹمنٹ فنڈ کے قیام کے معاہدے” پر دستخط کیے، جسے پہلے “معدنی معاہدہ” کے نام سے جانا جاتا تھا۔بیان کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ اور یو ایس انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشن (ڈی ایف سی) منصوبے کو حتمی شکل دینے کیلئے یوکرین کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے ۔
Post Views: 1