چیئرمین واپڈا انجینئر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد غنی—فائل فوٹو

چیئرمین واپڈا انجینئر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد غنی کا کہنا ہے کہ اگر نیلم جہلم منصوبے کو نقصان پہنچتا تو پانی کے ذخیرے سے بڑی تباہی ہو سکتی تھی۔

آزاد کشمیر کی وادی نیلم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے قریب آبادی کو بھی ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔

چیئرمین واپڈا کا کہنا ہے کہ ہماری فوج نے فوری جوابی کارروائی کی، اس پروجیکٹ میں کوئی غیرملکی اسٹاف موجود نہیں ہے، نقصان کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے، ٹیکنیکل ماہرین کام کر رہے ہیں۔

ممکنہ بھارتی حملہ‘ وادی نیلم میں گزشتہ رات بلیک آؤٹ رہا

مظفر آباد پاک بھارت کشیدگی کے باعث آزاد کشمیر کی.

..

انہوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار تو واپڈا کی ذمے داری ہے لیکن اس کی ترسیل کا کام واپڈا کا نہیں، بھارت نے نیلم جہلم کے بجلی گھر کو نشانہ بنا کر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، نیلم جہلم میں پانی کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی کوشش تھی کہ نیلم جہلم کے اسٹرکچر کو نقصان پہنچایا جائے، بھارت کی نیلم جہلم پر گولہ باری اور شیلنگ کا دورانیہ چند منٹوں کا نہیں تھا۔

انجینئر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد غنی نے یہ بھی کہا کہ بھارت نے نصف شب سے صبح 7 بجے تک اس ہائیڈرو پروجیکٹ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، یہ ہائیڈرو پروجیکٹ ایل او سی کے انتہائی قریب ہے اور ہماری افواج بھی یہاں تعینات ہیں۔

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: چیئرمین واپڈا نیلم جہلم

پڑھیں:

پاکستان: 2030 تک ہیضہ میں نمایاں کمی لانے کے منصوبے کا آغاز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 04 اگست 2025ء) پاکستان میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تعاون سے ہیضے پر قابو پانے کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت اس مرض سے ہونے والی اموات میں 2030 تک نمایاں کمی لائی جائے گی اور قدرتی آفات کے تناظر میں اس سے موثر تحفظ ممکن بنایا جائے گا۔

اس منصوبے کے ذریعے پاکستان میں ہیضے کی وباؤں کی بروقت نشاندہی، ان کی روک تھام اور ان پر قابو پانے کی صلاحیت کو بہتر بنانا ہے۔

منصوبے میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری کو خاص اہمیت دی گئی ہے جن میں ہیضے سمیت دیگر امراض کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ 2022 میں آنے والے سیلاب کے بعد ملک میں ہیضے کے تین لاکھ 70 ہزار سے زیادہ مشتبہ مریض سامنے آئے تھے۔

(جاری ہے)

یہ کثیرالجہتی منصوبہ 2028 تک جاری رہے گا جس کے لیے پاکستان کے وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال اور ملک میں 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے ڈاکٹر ڈا پنگ لو نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

جان لیوا مرض

ہیضہ شدید نوعیت کا انفیکشن ہے جو آلودہ پانی یا خوراک میں موجود وائبریو کولرائے بیکٹیریا سے پھیلتا ہے۔ یہ جراثیم انسانی جسم میں داخل ہونے سے شدید اسہال کی شکایت ہوتی ہے اور فوری طبی امداد میسر نہ آنے پر مریض کی جان بھی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں ہیضہ ایک قابل اطلاع مقامی بیماری ہے اور اس کے زیادہ تر مریض گنجان آباد شہری علاقوں میں سامنے آتے ہیں جہاں ہر جگہ صاف پانی، مناسب نکاسی آب اور حفظان صحت کی سہولتیں موجود نہیں ہوتیں۔

اندازے کے مطابق، دنیا میں ہر سال 13 تا 40 لاکھ افراد ہیضے سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں 21 ہزار سے لے کر ایک لاکھ 43 ہزار تک اموات ہوتی ہیں۔

جنوری 2023 سے جولائی 2025 کے درمیان پاکستان میں ہیضے کے سالانہ اوسطاً 21 ہزار سے زیادہ مریضوں کی نشاندہی کی گئی جبکہ 250 افراد میں اس مرض کی تصدیق ہوئی ہے۔

© UNICEF/Asad Zaidi منصوبے میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔

صحت عامہ کے لیے خطرہ

ڈاکٹر ڈا پنگ لو نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے خطرات میں اضافہ کر رہی ہے جن سے ہیضے کی وبائیں جنم لے سکتی ہیں۔ بروقت نشاندہی اور موثر روک تھام کے بغیر ہیضہ صحت عامہ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ ایسے کمزور طبقات اس سے خاص طور پر متاثر ہوتے ہیں جنہیں صاف پانی اور صفائی کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔

ان کا کہنا ہے کہ 'ڈبلیو ایچ او' کو زندگیاں بچانے کی اس کوشش میں پاکستان کے ساتھ شراکت پر فخر ہے۔

پاکستان نے 'ڈبلیو ایچ او' کی 71ویں اسمبلی کی قرارداد پر دستخط کر رکھے ہیں جس میں ہیضے سے تاحال متاثر رہنے والے 47 رکن ممالک پر 2030 تک اس مرض سے ہونے والی اموات میں 90 فیصد کمی لانے اور 20 ممالک میں اس بیماری کا خاتمہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

یہ تمام کوششیں بین الاقوامی ضوابط صحت اور ہیضے پر قابو پانے سے متعلق عالمی ٹاسک فورس کے مقرر کردہ ایجنڈے کے تحت کی جا رہی ہیں۔منصوبے کا خاکہ

اس منصوبے میں بین الاقوامی، قومی اور صوبائی سطح کے شراکت داروں کی کوششوں سے ہیضے کے خلاف بنیادی طبی ڈھانچے اور صلاحیتوں کو بہتر بنایا جائے گا۔ اس میں انتظام، قیادت اور ربط کاری، بیماری کی نگرانی اور تشخیص، علاج معالجہ اور انفیکشن سے بچاؤ، پانی صفائی اور حفظان صحت جیسی سہولیات کا اہتمام، خطرے سے متعلق اطلاعات کی فراہمی اور مرض کی روک تھام کے لیے مقامی سطح پر لوگوں کی مدد سے اقدامات، حفاظتی ٹیکے لگانے، عملی معاونت و انصرام اور بنیادی صحت و سماجی خدمات کا تسلسل شامل ہیں۔

سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ اور اس پر 'ڈبلیو ایچ او' کے ساتھ شراکت داری میں عملدرآمد اس لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ صحت کی دیکھ بھال ہسپتالوں سے شروع نہیں ہوتی بلکہ اس کا آغاز ہر محلے اور ہر سماجی گروہ میں بیماری کی روک تھام کے اقدامات سے ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ انتہائی ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  •  زیر تعمیر منصوبے پاکستان کیلئے اہم‘بروقت تکمیل ترجیح:چیئرمین واپڈا
  • اسلام آباد میں موسلادھار بارش، نالے بپھرنے سے متعدد علاقوں میں پانی داخل
  • اسلام آباد میں موسلادھار بارش، پانی نے پھر تباہی مچا دی۔
  • لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد سعید چیئرمین واپڈا تعینات، وزیراعظم کی مبارک باد
  • شہباز شریف کی لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد سعید کو چیئرمین واپڈا تعیناتی پر مبارکباد
  • وزیراعظم سے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ محمد سعید کی ملاقات ، چیئرمین واپڈا تعیناتی پر مبارکباد
  • وزیراعظم نے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) محمد سعید کو چیئرمین واپڈا تعینات کردیا
  • لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) محمد سعید کو چیئرمین واپڈا تعینات
  • پاکستان: 2030 تک ہیضہ میں نمایاں کمی لانے کے منصوبے کا آغاز
  • حکومت نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد سعید کو چیئرمین واپڈا تعینات کردیا