1970 کی دہائی میں شی جن پھنگ نے چین کے صوبے شان شی کے دیہی علاقے لیانگ جیا حہ میں سات سالوں تک کام کیا ۔مصروفیات کے باعث ملاقاتیں کم اور جدائی کا وقت زیادہ تھا لیکن یہ شی جن پھنگ اور ان کی والدہ کے درمیان معمول کی بات تھی ۔ لیانگ جیا حہ میں اپنے قیام کے دوران شی جن پھنگ نےمقامی کسانوں کے ساتھ ان کا رہن سہن اپنا یا، ان کے ساتھ رہائش اختیار کی اور ہر قسم کا کام کیا۔ کئی سال بعد انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ “مشکل زندگی نے میری تربیت کی ۔ اس کے دو بڑے فوائد حاصل ہوئے ۔ ایک یہ کہ میں نے سیکھا کہ حقیقت کیا ہے ، حقیقت پسندانہ رویہ کیا ہے اور عوام کیا ہیں۔ یہ میرے لئے زندگی بھر کے لئے فائدہ مند چیزیں ہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ مشکلات میری خود اعتمادی کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوئیں۔” شی جن پھنگ کے لئے ماں کی محبت میں سختی بھی تھی۔ ماں کی دی ہوئی تعلیم اور تربیت نے ہی شی جن پھنگ کو ایک دیانت دار فرد بننے کی بنیاد فراہم کی۔ جب وہ سی پی سی سینٹرل کمیٹی کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے، تو انہوں نے بڑی سیاسی ہمت اور ذمہ داری کے ساتھ بدعنوانی کے خلاف جدو جہد کو گہرائی تک آگے بڑھایا۔ایک بار وہ سی پی سی سینٹرل کمیٹی کے پارٹی اسکول کے زیر اہتمام کاؤنٹی سطح کے پارٹی سکریٹری کے تربیتی پروگرام کے طلباء سے گفتگو کر رہے تھے تو سخت لہجے میں بولے ” عہدہ چاہیں تو دولت چھوڑدیں، اور دولت چاہیں تو عہدہ نہ رکھیں۔” خود پر سختی برداشت کرنا، محنت ، دیانت داری اور عوام کو اپنے دل میں رکھنا ، شی جن پھنگ کے لئےان کی والدہ چھی شن کی توقعات اور مطالبہ بھی ہیں اور خاندانی اقدار کی وراثت بھی ۔ ماں کی محبت شی جن پھنگ کو اس عزم کے ساتھ کہ “میں اپنی ذات کو فراموش کروں گا اورعوام کو مایوس نہیں کروں گا” چینی عوام کی رہنمائی کرنے کی ترغیب دے رہی ہے تاکہ چینی طرز کی جدیدیت مسلسل آگے بڑھے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شی جن پھنگ کے ساتھ ماں کی
پڑھیں:
ون ڈش پالیسی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251208-03-3
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو حکم دیا ہے کہ شادیوں، فارم ہائوسز اور کھلی فضا میں ہونے والی تقریبات میں ون ڈش کی خلاف ورزی اور بلند آواز میوزک کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ ساتھ ہی، مقررہ اوقات کار کے اندر تقریبات ختم کروانے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ یہ فیصلے اگر صرف کاغذ پر نہ رہیں بلکہ عملی طور پر پورے صوبے میں سختی سے لاگو کیے جائیں تو بے شمار سماجی اور معاشرتی فوائد سامنے آ سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ عمل درامد کا ہے، ورنہ فیصلے تو پچھلے بیس سال سے بار بار ہورہے ہیں۔ ہر حکومت یہی اعلان کرتی آئی ہے کہ شور کم کرو، رسم و رواج میں سادگی لاؤ، فضول خرچی مت کرو۔ مگر جب ضلعی انتظامیہ خود ان احکامات کو سنجیدگی سے نہ لے، تو عوام کہاں سے عمل کریں گے۔ صوبے میں یکساں سختی کے ساتھ اس پالیسی پر عمل درامد کیا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ون ڈش پالیسی صرف فضول خرچی روکنے کے لیے نہیں، بلکہ غربت زدہ معاشرے میں سماجی دباؤ کم کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ایک گھر پانچ ڈشیں رکھے گا تو دوسرے گھر کو بھی مجبوراً اس کی تقلید کرنا پڑتی ہے۔ یہی معاشرتی دوڑ ہمارے اندر احساسِ کمتری، مقابلہ بازی اور غیر ضروری اخراجات کو جنم دیتی ہے۔ اگر ون ڈش پالیسی مستقل مزاجی سے لاگو رہے تو یہ رواج آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گا اور لوگوں کا بوجھ کم ہوگا۔ اسی طرح لائوڈ اسپیکر اور میوزک کے بے قابو استعمال پر پابندی تو بنیادی سماجی ضرورت ہے۔ ہمارے تقاریب میں آواز کی حد نام کی کوئی چیز نہیں رہتی۔ رات دو بجے گلیاں لرز رہی ہوتی ہیں اور صبح اسکول و دفاتر جانے والے لوگ نیند پوری نہ ہونے پر اذیت میں ہوتے ہیں۔ شور صرف پریشانی نہیں، بلکہ صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ یہ پابندی صرف پنجاب تک محدود رہنے کے بجائے ایک ملک گیر اصول بننی چاہیے۔ دیگر صوبوں کو بھی اسی مستقل مزاجی کے ساتھ یہ پالیسی اپنانی چاہیے۔ یہ قدم خوش آئند ہے، مگر اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے۔ اگر انتظامیہ مستقل مزاجی کے ساتھ یہ اقدامات جاری رکھے، تو پنجاب میں ایک صحت مند، منظم اور نسبتاً پرسکون معاشرتی کلچر فروغ پا سکتا ہے۔ اور اگر باقی صوبے بھی یہی راستہ اختیار کر لیں تو شاید شور، فضول خرچی اور رات گئے تک چلنے والی تقریبات کا ناپسندیدہ کلچر رفتہ رفتہ ختم ہو جائے۔