Express News:
2025-05-12@15:59:00 GMT

کیا مستقبل میں گوادر پھر ڈوب جائے گا؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

گوادر:

کیا مستقبل میں گوادر ڈوب سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو 2024 میں گوادر میں ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد وہاں رہنے والے ہر شخص کے ذہن میں بار بار آتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ گوادر مستقبل میں ایک جدید شہر بننے جا رہا ہے، جہاں بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں گوادر پورٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو ایم-8 سی پیک شاہراہ کے راستے چین کے خنجراب بارڈر تک وسعت دیں گی۔ طوفانی بارشوں کے پانی میں ڈوبنے والا گوادر بیرونی سرمایہ کاری کو کیسے تحفظ فراہم کرسکے گا؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو جواب طلب ہے۔‘‘

موسمی تبدیلیوں کے باعث گوادر میں زیرزمین پانی کی سطح تشویش ناک حد تک بلند ہوچکی ہے۔ اس صورت حال میں کسی بھی بڑے پیمانے پر انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لیے گوادر کی زمین کتنی موزوں ہے؟ جب میں نے یہ سوال ڈائریکٹر جنرل گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) سیف اللہ کھیتران سے پوچھا تو انہوں نے کہا،’’گوادر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زیرِزمین پانی کی سطح میں غیرمعمولی اضافہ ہورہا ہے، جو مستقبل قریب میں جی ڈی اے کے لیے ایک سنجیدہ تیکنیکی چیلینج بن سکتا ہے۔

بلند ہوتا ہوا واٹر ٹیبل نہ صرف گھریلو سطح پر پانی کے اخراج کا باعث بن رہا ہے بلکہ تعمیراتی منصوبوں، خصوصاً میگا پراجیکٹس کی بنیادوں کے لیے بھی خطرہ بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا،’’ان ممکنہ رکاوٹوں سے نمٹنے کے لیے جی ڈی اے نے پیشگی حکمت عملی مرتب کی ہے اس ضمن میں مختلف ماہرین سے مشاورت کی جا رہی ہے، جن میں این ای ڈی انجنیئرنگ یونیورسٹی کراچی اور پی سی ایس آئی آر کے ماہرین شامل ہیں ان اداروں کی ٹیموں نے گوادر کا دورہ کیا، زمینی حقائق کا جائزہ لیا اور تفصیلی سفارشات پیش کیں۔‘‘

2007 میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویزمشرف نے گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر کا افتتاح کیا، اور اس کے ساتھ ہی گوادر کا ماسٹر پلان زیربحث آیا۔ گوکہ پہلے پہل گوادر ماسٹر پلان کو مقامی لوگوں سے چُھپایا گیا اور مقامی لوگوں کو گوادر کے ماسٹر پلان تک رسائی حاصل نہیں تھی، لیکن 2013 میں جب حکومت پاکستان نے گوادر پورٹ کے چلانے کا ٹھیکا سنگاپور کی کمپنی سے لے کر چینی کمپنی کے حوالے کردیا تو گوادر کے ماسٹر پلان کی ازسرنو ڈیزائن کی گئی۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے معاہدے پر 2015 میں دونوں ممالک کے سربراہان نے دستخط کیے اور خنجراب کے راستے چین کو گوادر کی بندرگاہ سے ملانے کے لیے سڑکیں، ریلوے لائن، بجلی کے منصوبوں کے علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبوں پر دستخط کیے گئے۔

گوادر کا پہلا ماسٹر پلان 1954 میں پاکستان کی حکومت کی درخواست پر امریکی کنسلٹنٹ فرم ''Worth Condrick and Associates'' نے تیار کیا تھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب گوادر سلطنت عمان کے زیرِانتظام تھا، اور پاکستان نے اس کی اسٹریٹیجک اہمیت کو دیکھتے ہوئے اسے خریدنے کا فیصلہ کیا تھا۔

1958 میں جب گوادر کو پاکستان میں شامل کیا گیا تو اس ماسٹر پلان کی بنیاد پر گوادر کی ترقی کے ابتدائی خاکے تیار کیے گئے، لیکن وسائل کی کمی اور دیگر سیاسی مسائل کے باعث اس پر خاطر خواہ عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ گوادر کا موجودہ ماسٹر پلان 2019 میں چینی انجنیئرنگ فرم چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی (CCCC) نے گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (GDA) کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے، جسے ’’گوادر اسمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

کسی بھی شہر کے لیے بنایا جانے والا ماسٹر پلان ایک جامع اور طویل المدتی منصوبہ ہوتا ہے جو اُس شہر، علاقے یا منصوبے کی ترقی، ڈیزائن، اور انتظام کے لیے رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔ اس کا مقصد زمین کے استعمال، انفرااسٹرکچر، رہائشی و تجاری علاقوں، ٹرانسپورٹ، ماحولیاتی تحفظ، اور معاشی ترقی کو منظم انداز میں مربوط کرنا ہے تاکہ پائے دار ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن گوادر کے ماسٹر پلان میں ماحولیات، انفرااسٹرکچر اور موسمی تبدیلی جیسے اہم چیزوں کو نظرانداز کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے سال 2024 کے فروری کے مہینے میں ہونے والی بارشوں نے اس شہر کے بچے کھچے انفرااسٹرکچر کو تہس نہس کردیا۔

گوادر میں لگاتار 29 گھنٹے بارش ہوئی محکمۂ موسمیات کے مطابق یہ غیر معمولی بارشیں تھیں, فروری کے آخر اور مارچ کی ابتدا میں ایک ہفتے کے دوران تقریباً 250 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی, اس سے قبل گوادر میں مارچ کے مہینے میں بارش کا ریکارڈ 38 ملی میٹر تھا۔

صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق ان بارشوں سے 450 گھروں کو مکمل اور 8200 گھروں اور عمارتوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ دوسری جانب مقامی میڈیا کے مطابق کم از کم 1000 سے زائد گھروں کو مکمل نقصان پہنچا اور چار ہزار کے قریب عمارتوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ ان بارشوں کی وجہ سے گوادر شہر نے ایک تالاب کی شکل اختیار کرلی، لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا,سنہ 2005 سے لے کر سنہ 2024 تک گوادر پانچ بار زیرآب آچکا ہے، طوفانی بارشوں کے بعد صوبائی حکومت نے گوادر سٹی کو آفت زدہ قرار دیا اور ہنگامی بنیادوں پر بحالی کے کام شروع کردینے کا اعلان کیا گیا، لیکن انتظامی بحران کی وجہ سے گوادر سٹی کے اندر گھروں میں کھڑے پانی کو نکالنے میں ایک مہینہ لگ گیا۔

سعودی عرب اور چین کی امداد

2024 کے طوفانی بارشوں کے بعد سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی نے بلوچستان کا دورہ کیا اور بارشوں سے متاثر ہونے والے گوادر کے شہریوں کے لیے 9,000 شیلٹر کیمپس اور 9,000 راشن بیگز فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ، سعودی عرب کے کنگ سلمان ہیومینیٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر (KSrelief) نے 873 ٹن اشیائے خورونوش کی تقسیم کا آغاز کیا، جن میں 9,000 فوڈ پیکیجز شامل تھے۔

ہر پیکیج میں 80 کلو آٹا، 5 لیٹر کوکنگ آئل، 5 کلو چینی، 5 کلو دال چنا، اور 2 کلو کھجوریں شامل تھیں، جو تقریباً 63,000 افراد کے لیے ایک ماہ کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی تھیں، KSrelief نے 9,000 شیلٹر کٹس بھی فراہم کیں، جن میں شیلٹرز، سولر پینلز، کمبل، پلاسٹک میٹس، کچن سیٹس، واٹر کولرز، اور اینٹی بیکٹیریل صابن شامل تھے ,سعودی عرب کی جانب سے 9000 شیلٹر کیمپس آج تک گوادر سٹی میں کہیں پر بھی نظر نہیں آئے، جب کہ سوشل میڈیا میں کچھ تصاویر وائرل تھیں، جن میں سعودی عرب کی جانب سے گوادر کے سیلاب متاثرین کے لیے آنے والے راشن بیگز کسی دوسرے صوبے میں ایک سیاسی پارٹی کے جھنڈے تلے مستحق لوگوں میں تقسیم ہو رہے تھے۔

چین کی امداد

اُس وقت چین کی چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی (پاکستان) نے فوری طور پر 30,000 منرل واٹر کی بوتلیں اور 3,000 کین فوڈ متاثرین میں تقسیم کیں, چین نے گوادر پورٹ کے لیے قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ایک ابتدائی وارننگ سسٹم فراہم کیا، جس میں موبائل ورٹیکل آبزرویشن سسٹم، بیڈو نیویگیشن ساؤنڈنگ اسٹیشن، اور تین خودکار موسمیاتی اسٹیشنز شامل تھے۔

ایک ایسا سسٹم گوادر سٹی میں جناح ایونیو پر بی اینڈ آر آفس کے قریب بھی لگایا تھا اور ضلعی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ رات کو ایک زور دار سائرن کی آواز بجے گی، جس سے گوادر کے شہریوں کو ڈرنے یا کہ خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ضلعی انتظامیہ وارننگ سسٹم کی ابتدائی ٹیسٹنگ کر رہی ہے لیکن یہ سسٹم اُس وقت شدید تمسخر کا نشانہ بنا جب ابتدائی ٹیسٹنگ کی رات اِس سے وارننگ کی سائرن نہیں بجی اور ضلعی انتظامیہ نے اپنی نالائقی چھپانے کے لیے پولیس موبائل پر لگی سائرن کو چالو کیا گیا اور پولیس موبائل آدھی رات گئے گوادر کی گلیوں میں پھرتا رہا۔

حکومت پاکستان نے کیا امداد فراہم کی

وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے دورۂ گوادر کے موقع پر بارش متاثرین کے لیے مالی امداد کا اعلان کیا، جس میں جاں بحق افراد کے لواحقین کو 20 لاکھ روپے، زخمیوں کو 5 لاکھ روپے، مکمل تباہ شدہ گھروں کے مالکان کو 7.

5 لاکھ روپے، اور جزوی طور پر متاثرہ گھروں کے لیے 3.5 لاکھ روپے شامل تھے، لیکن گوادر کے اکثریتی رہائشی اب بھی سیلاب زدہ مکانوں میں رہائش پذیر ہیں۔

عام حالات اور ہنگامی حالات میں متحرک شعبے

2024 کے طوفانی بارشوں نے گوادر سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آئندہ بارشوں میں گوادر کی صورت حال کیا ہوگی، اور وہ کون کون سے شعبے ہیں جنہیں عام حالات اور ہنگامی حالات میں فوری امداد فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں اسسٹنٹ کمشنر گوادر ’’جواد زہری‘‘ کا کہنا ہے کہ بارشوں کے دوران گوادر میں نکاسی آب ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گوادر میں ایسی صورت حال پہلے بھی آئی ہے کہ رہائشی گھروں سے پانی کی نکاسی مشکل ہوگیا تھا۔ اُن کے مطابق ہنگامی صورت حال میں متاثرہ لوگوں کے لیے کھانے پینے کا مسئلہ بھی ہوجاتا ہے۔ بارش کی وجہ سے خورونوش کی اشیاء خراب ہوجاتی ہیں اور مجبوری کی حالات میں اُنہیں استعمال کرنے سے امراض پھیل جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔

اس حوالے سے ضلع گوادر کے ضلعی چیئرمین ’’سید معیار جان نوری‘‘ کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ سالوں کے تجربات سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ ضلع گوادر میں سب سے زیادہ بارشوں یا سیلاب کی وجہ سے حالات بگڑ جاتے ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ شہر کی بغیر پلاننگ کنسٹرکشن ہے، یعنی کوئی نکاسی کا نظام موجود نہیں ہے۔ ایسی صورت میں شہر کے اندر مشینری کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے تاکہ فوری طور پر نکاسی آب ہو سکے یا پھر شہر کا نکاسی آب کے نظام کو درست کیا جائے۔

ضلعی چیئرمین بتاتے ہیں کہ وقتی طور پر کوئی بھی امدادی سامان فراہم کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دبئی جیسے ملک میں بھی سیلاب کی وجہ سے حالات بے قابو ہوجاتے ہیں، تو وہاں جدید مشینری سے ہی حالات کو قابو کیا جاتا ہے۔ نقصان سے بچنے کے لیے تو بہتر یہی ہے کہ شہر کے نظام کو بہتر کرنے کے حوالے سے مدد کریں، یعنی کوئی ایسا میگا پروجیکٹ دیں، جس سے گوادر کے مسائل ہمیشہ کے لیے ہی ختم ہوں۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر جدید مشینری دے دیں تاکہ حالات بگڑنے کی صورت میں فوری طور پر قابو ہوسکے۔

ڈائریکٹر جنرل گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) سیف اللّہ کھیتران بتاتے ہیں’’2024 کی شدید بارشوں کے بعد گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) نے شہر کو قدرتی آفات، خصوصاً بارشوں کے نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لیے کئی اہم اور عملی اقدامات کیے۔ ان اقدامات میں سرِفہرست ’’اولڈ ٹاؤن بحالی منصوبہ‘‘ ہے، جو بارشوں کے بعد مزید سرعت سے مکمل کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت نکاسی آب کا ایک مؤثر، جدید اور پائیدار نظام متعارف کرایا گیا ہے، جس کے ذریعے پرانی بستیوں جیسے ملا فاضل چوک، گلگ، اور اولڈ ٹاؤن کی گلیوں و بازاروں میں بارش کے پانی کے جمع ہونے کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوچکا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’’جی ڈی اے نے نہ صرف ان علاقوں میں معیاری ڈرینج لائنیں بچھائیں بلکہ شاہین چوک، عیدگاہ گلی، سورگ دل گراؤنڈ ایریا، پی ٹی سی ایل گلی، تھانہ وارڈ ہسپتال روڈ، کلب روڈ اور دیگر مرکزی شاہراہوں پر بھی نکاسی آب کے منظم نظام نصب کیے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد یہی ہے کہ آئندہ بارشوں میں شہری زندگی متاثر نہ ہو اور سڑکیں بند ہونے سے محفوظ رہیں۔

مزید یہ کہ ان علاقوں کے علاوہ گوادر کے وہ علاقے جہاں بارش کے دوران پانی جمع ہونے کی شکایات زیادہ تھیں، جیسے ٹی ٹی سی کالونی، بخشی کالونی، شمبے اسماعیل، اور سر بندر کے کچھ حصے، ان کے لیے بھی ایک جامع منصوبہ جی ڈی اے نے تیار کر کے صوبائی حکومت کو پیش کردیا ہے۔ جب یہ منصوبہ منظور اور فنڈ کیا جائے گا تو اس پر فوری عملدرآمد شروع کیا جائے گا، جس سے ان علاقوں میں بارش کے پانی کے مسائل مستقل بنیادوں پر حل ہو سکیں گے۔

سیف اللّہ کھیتران نے بتایا،’’اسی طرح لیڈیز مارکیٹ میں بھی پانی جمع ہونے کی شکایات موصول ہوئیں، جس پر جی ڈی اے نے ایک مربوط ترقیاتی منصوبہ تشکیل دیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت نہ صرف مارکیٹ کے انفرااسٹرکچر کو بہتر اور خوبصورت بنایا جا رہا ہے بلکہ وہاں ڈرینیج اور سیوریج کا ایک نیا نظام بھی نصب کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کو صاف، محفوظ اور سہولت سے بھرپور ماحول فراہم کیا جا سکے۔

جی ڈی اے کے ماسٹر پلان میں بھی نکاسی آب، واٹر مینجمنٹ اور قدرتی آفات سے بچاؤ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اور ان تمام منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد جاری ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں گوادر ایک محفوظ، پائیدار اور جدید شہری ماڈل کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘‘

 صحافی ’’بہرام بلوچ‘‘ بتاتے ہیں کہ سرکاری طور پر پی ڈی ایم اے اور ضلعی انتظامیہ موجود ہے۔ بارش یا سیلاب کے دوران میونسپل کمیٹیاں محدود وسائل میں افرادی قوت مہیا کرتی ہیں، جب کہ غیرسرکاری طور پر الخدمت جیسی غیرسرکاری تنظیم کے پاس کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے افرادی قوت اور وسائل موجود ہیں۔ آر سی ڈی کونسل بھی متحرک ہو جاتا ہے اور محدود وسائل میں رہتے ہوئے کیمپ لگا کر کلیکشن کر لیتا ہے۔‘‘

’’ڈاکٹر عبدالواحد بلوچ‘‘ صحت کے شعبے سے منسلک ہیں اور وہ محکمۂ صحت میں بطور ضلع افسر کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’عام حالات اور کسی ممکنہ آفت (مثلاً زلزلہ، سیلاب، طوفان، وبائی امراض، آگ، خشک سالی یا دیگر قدرتی و انسانی ساختہ سانحات) کے ہنگامی حالات میں مختلف شعبہ جات میں امداد کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے یا پیدا ہوسکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صحت و طب کے شعبے میں ایمبولینس، موبائل میڈیکل یونٹس، اور فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز، نرسز، اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی فراہمی۔ ادویات، ابتدائی طبی امداد (First Aid Kits)، ویکسینز، اور دیگر طبی سازوسامان، ہسپتالوں اور عارضی میڈیکل کیمپس کا قیام، اس کے ساتھ، خوراک و پانی یعنی پکے ہوئے کھانے اور خشک راشن کی تقسیم، صاف پانی کی فراہمی، واٹر ٹینکرز، واٹر فلٹریشن یونٹس کا ہنگامی قیام، بچوں کے لیے دودھ اور غذائیت سے بھرپور خوراک، اس کے علاوہ پناہ گاہ اور رہائش، خیمے، ترپال، کمبل، چارپائیاں، اور گرم کپڑے، عارضی شیلٹرز اور ریلیف کیمپوں کا قیام، بے گھر افراد کی شناخت اور ان کی بحالی کے اقدامات یہ تمام ضروری اقدامات ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہنگامی صورت حال میں نقل و حمل ایک اہم مسئلہ ہے، متاثرہ لوگوں کی محفوظ مقامات تک منتقلی، ریسکیو ٹیمز اور سامان کی نقل و حمل کے لیے گاڑیاں، سڑکوں کی مرمت اور آمد و رفت کی بحالی یہ ضروری ہیں۔

ڈاکٹر عبدالواحد بلوچ نے بتایا کہ بطور ہیلتھ افسر میں نے یہ دیکھا ہے کہ سیلابی بارشوں کے بعد گوادر سٹی کی زیادہ تر اسکولز زیرآب آ جاتی ہیں اور تدریس کا سلسلہ دو دو مہینے تک رک جاتا ہے۔ بچوں کا تعلیمی سال ضائع ہو جاتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ متاثرہ علاقوں میں بچوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے عارضی اسکولز، درسی کتب، اسٹیشنری اور اسکول بیگز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیاتی بحالی کے لیے کونسلنگ کی بھی ضرورت ہے۔ جو بچے نرسری میں پڑھ رہے ہیں، اس طرح کی طوفانی بارش، چمک گرج کی وجہ سے وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا،’’ایک مسئلہ کمیونیکیشن کا بھی ہے، طوفانی بارشوں کے بعد علاقے میں تمام موبائل نیٹ ورک بند ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ پی ٹی سی ایل کا سسٹم بھی بیٹھ جاتا ہے، جس کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں شدید متاثر ہو جاتی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالواحد بلوچ نے بتایا کہ سیلابی بارشوں کے بعد نقصانات کی صحیح اعداد و شمار جاننے کے لیے ایک حکومت ایک ڈیٹا انٹری ٹیم کی تشکیل کرے تاکہ وہ صحیح معنوں میں متاثرین کے ڈیٹا جمع کرے تاکہ امدادی سامان صحیح معنوں میں متاثرین تک پہنچ پائیں۔

یہی سوال جب میں نے گوادر کے ایک اور سنیئر صحافی نورمحسن کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا، ’’میری نظر میں اس وقت گوادر شہر یا ضلع گوادر میں گوادر کے نوجوانوں کے لیے ایک نومولود ادارے (ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن) سے بہتر کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ اس ادارے پر کافی حد تک بھروسا کیا جاسکتا ہے اور بھی کچھ ادارے ہیں جو کچھ نہ کچھ ضرور کرتے ہوں گے، لیکن بیشتر سیاست زدہ ہیں، جب کہ فلاحی اداروں کو شفاف ہونا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ایسی کوئی امداد ہے، جس سے لوگوں کا بھوک و افلاس دائمی مٹ جائے گا۔ گوادر کے عوام کو بھکاریوں کی طرح نہیں دیکھا جائے، بلکہ لوگوں کو خود کفیل روزگار کا موقع فراہم کرنا چاہیے تاکہ وہ مستقل بنیاد پر معاشی طور پر مستحکم ہوں۔

عبدالوہاب مجید سابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ہیں اور ابھی بھی ایجوکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں۔ اُن کے مطابق گوادر میں موجودہ نکاسی کا نظام معمولی سی بارش بھی برداشت نہیں کرسکتا، اس نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گوادر شہر کے مضافات میں کچھ ایسی شیلٹر بنانے کی ضرورت ہے، جہاں کسی ہنگامی صورت حال کے پیش نظر شہر کے متاثرہ لوگوں کو عارضی طور پر رکھا جاسکے۔ اس وقت گوادر شہر میں زیرزمین پانی کی سطح بہت اونچی ہے اور شہر میں ویٹ لینڈ کا مسئلہ روز بروز گمبھیر شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پچھلے سال ہونے والی درمیانے درجے کی بارشوں کی وجہ سے کچھ گھروں میں مہینوں تک بارش کا پانی کھڑا رہا۔ آج بھی شہر کے کچھ گھر/علاقے اس سے متاثر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی ممکنہ سونامی یا تیز بارشوں میں لوگوں کو ہنگامی/عارضی طور پر رکھنے کے لیے شہر کی بلند عمارتوں کی ابھی سے نشان دہی ہونی چاہیے۔ کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے ہسپتالوں کو ہائی الرٹ پر رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہنگامی حالت میں ٹرانسپورٹیشن کی بھی ضرورت ہوگی۔ سونامی یا کسی بھی سمندری طوفان کی صورت میں محکمہ فشریز کو بھی اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017

پاکستان کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017 (Pakistan Climate Change Act, 2017) پاکستان کی پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ ایک قانون ہے، جو مارچ 2017 میں نافذ ہوا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بین الاقوامی موسمیاتی معاہدوں (جیسے کہ پیرس ایگریمنٹ اور اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج) کے تحت عاید ذمے داریاں پوری کرنا اور ملک میں موسمی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسیاں اور منصوبے بنانا اور اقدامات کرنا ہے۔ یہ قانون موسمی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے (mitigation) اور ان کے مطابق ڈھالنے (adaptation) کے لیے ایک قانونی ڈھانچا فراہم کرتا ہے۔ تاہم دوسری جانب اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 2030 تک موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے 350 ارب ڈالر درکار ہیں۔

بلوچستان میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بلوچستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2012 موجود ہے، جو ایکٹ 2017 کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ ایکٹ 2017 کے تحت بلوچستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (BEPA) کو مضبوط کرنے اور ماحولیاتی معیارات (National Environmental Quality Standards) کو نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے بلوچستان کے لیے مخصوص فنڈز ناکافی ہیں۔

بلوچستان کی حکومت نے قومی سطح پر وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ مل کر گرین کلائمیٹ فنڈ (GCF) اور ایڈاپٹیشن فنڈ (AF) جیسے بین الاقوامی مالیاتی ذرائع تک رسائی حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس کا مقصد موسمیاتی منصوبوں کے لیے مالی معاونت حاصل کرنا ہے۔ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں حکومت بلوچستان نے مختلف فنڈز کے لیے 13.5 ارب روپے مختص کیے ہیں، جن میں فوڈ سیکیوریٹی ریوالونگ فنڈ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ فنڈ، اور دیگر شامل ہیں۔

زاگرچہ یہ فنڈز براہ راست موسمیاتی تبدیلی کے لیے مختص نہیں ہیں، تاہم ان کا مقصد موسمیاتی اثرات سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنا ہے، بلوچستان کلائمیٹ چینج فنڈ، گرین بلوچستان اقدام، یہ اقدامات ہیں جو صوبے کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچانے اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اہم ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایکٹ 2017 کے تحت قائم ہونے والی کلائمیٹ چینج اتھارٹی سات سال بعد بھی مکمل طور پر فعال نہیں ہوسکی ہے۔ اب لوگ پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل اور اتھارٹی کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔

گوادر موسمی تبدیلیوں کی زد میں آچکا ہے۔ زیرزمین پانی کی سطح اوپر آجانے کی وجہ سے اب گوادر میں بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرنا فقط ایک خواب بنتا جا رہا ہے، کیوںکہ کسی بھی بڑی کنسٹرکشن یا کہ دس منزلہ عمارت کی تعمیر کے لیے 10 سے 50 فٹ یعنی 3 سے 15 میٹر تک کھدائی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن گوادر میں زیر زمین پانی کا لیول اتنا اوپر آچکا ہے کہ 4 فٹ کی کھدائی کے بعد پانی اُبل پڑتا ہے لیکن ڈائریکٹرجنرل جی ڈی اے اپنے ادارے کی کارکردگی سے مطمئن ہیں وہ بتاتے ہیں،’’جی ڈی اے ان ماہرین کی سفارشات کی روشنی میں مستقبل کے ترقیاتی منصوبوں کی منصوبہ بندی اور ڈیزائننگ میں ضروری تبدیلیاں متعارف کروا رہی ہے تاکہ زیرزمین پانی کی سطح کے باعث پیدا ہونے والے مسائل سے بروقت نمٹا جا سکے۔

اس کے علاوہ، واٹر مینجمنٹ، نکاسی کا متبادل نظام، اور زمین کی قدرتی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیراتی طریقہ کار پر بھی ازسرِنو غور کیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد گوادر کو ایک محفوظ، پائے دار اور موسمیاتی لحاظ سے موزوں ترقیاتی ماڈل کے طور پر فروغ دینا ہے۔‘‘ لیکن یہ سوال اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا گوادر کا موجودہ ماسٹر پلان مستقبل میں اِس شہر کو ڈوبنے سے بچائے گا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طوفانی بارشوں کے بعد زیرزمین پانی کی سطح موسمی تبدیلیوں کے انہوں نے بتایا کہ زمین پانی کی سطح ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کے ماسٹر پلان کلائمیٹ چینج انہوں نے کہا طوفانی بارش جی ڈی اے نے کے لیے ایک گوادر میں میں گوادر گوادر شہر گوادر سٹی حالات میں لاکھ روپے ہونے والی اعلان کیا کی وجہ سے جا رہا ہے لوگوں کو گوادر کے نکاسی آب کے علاوہ کے دوران نے گوادر ضرورت ہے کے اثرات شامل تھے سے گوادر اور دیگر گوادر کا کی ضرورت فراہم کی کے مطابق بنایا جا گوادر کی کرنے کے کے ساتھ کیا گیا جائے گا ہیں اور ہے تاکہ کرنا ہے کا مقصد جاتا ہے ایکٹ 2017 پورٹ کے کے باعث میں ایک کسی بھی کیا جا کے تحت اور ان شہر کے پر بھی

پڑھیں:

گوادر میں دستی بم حملہ، پولیس مقابلے میں اہلکار شہید، ایک دہشت گرد مارا گیا

گوادر (نیوزڈیسک) گوادر میں ایک گھر پر دستی بم حملہ، پولیس کی فوری کارروائی میں ایک دہشت گرد مارا گیا، ایک اہلکار بھی شہید ہوگیا۔

ترجمان بلوچستان حکومت کے مطابق دہشت گردوں نے بلال مسجد کے قریب ایک گھر پر دستی بم حملہ کیا جس سے تین افراد زخمی ہوگئے۔

شاہد رند نے بتایا کہ پولیس نے واقعہ کی اطلاع ملتے ہی فرار ہونے کی کوشش کرنے والے حملہ آوروں کو گھیر لیا جس پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا، پولیس سے مقابلہ میں ایک حملہ آور ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔

ترجمان بلوچستان حکومت کے مطابق پولیس اہلکار محمد خماری فرض کی ادائیگی کے دوران جام شہادت نوش کر گئے۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • مارک زکربرگ کی مستقبل کے بارے میں حیران کن پیشگوئی
  • اے آئی دوستوں، بزنس ایجنٹس، تھراپسٹ اور دیگر کی جگہ زندگی کا حصہ بن جائے گی، مارک زکربرگ
  • محکمہ موسمیات نے گرج چمک کیساتھ مزید بارشوں کی پیشگوئی کردی
  • پانی کے معاملے پر بھارت کو اس بار جیسا ہی جواب دیا جائیگا: رانا ثناء اللّٰہ
  • یہ کہنا مشکل ہے کہ امریکا مستقبل میں بھی انگیج رہے گا؛ڈاکٹر ملیحہ لودھی 
  • گوادر میں دستی بم حملہ، پولیس مقابلے میں اہلکار شہید، ایک دہشت گرد مارا گیا
  • گوادر میں گھر پر دستی بم حملہ، 3 افراد زخمی
  • گوادر میں دستی بم حملہ، پولیس مقابلہ میں اہلکار شہید، ایک دہشت گرد مارا گیا
  • کراچی؛ پانی چوری میں ملوث واٹر بورڈ کے دو افسران معطل