سیاحت 2030 تک سعودی عرب کی معیشت میں تیل کے برابر ہوجائے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
سعودی عرب میں سیاحت کے وزیر احمد الخطیب کے مطابق، سعودی عرب کو تیزی سے متاثر کن پہاڑوں، بحیرہ احمر کے شاندار جزیروں، اور مہمان نواز ثقافت کے ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو 2030 تک سیاحت کو اپنی معیشت میں تیل کی طرح اہم بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔
احمد الخطیب نے منگل کو ریاض میں سعودی-امریکی سرمایہ کاری فورم 2025 کے ایک پینل کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کہ سیاحت کے شعبے نے 2016 میں ویژن 2030 کے آغاز کے بعد سے ایک طویل سفر طے کیا ہے، جس نے تیل پر ملک کا انحصار کم کرنے اور متنوع معیشت بنانے کا منصوبہ تشکیل دیا تھا۔
سعودی-امریکی سرمایہ کاری فورم کے پینل میں سعودی وزیر بلدیات اور ہاؤسنگ ماجد بن عبداللہ الحقیل بھی شامل تھے اور اس کی سربراہی عرب نیوز کے ایڈیٹر انچیف فیصل جے عباس نے کی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا اور سعودی عرب کے درمیان 300 ارب ڈالر کے متعدد معاہدوں پر دستخط
سیاحت اور مہمان نوازی کے شعبوں میں سیاحوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو 2019 میں 50 ملین ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں سے بڑھ کر 2024 میں 115 ملین ہو گئے، جو وژن 2030 کے تحت صنعت کے لیے مقرر کردہ 100 ملین سیاحوں کے ہدف سے یقیناً تجاوز تھا۔
سعودی وزیر احمد الخطیب نے کہا کہ سعودی عرب 2024 میں عالمی سطح پر سب سے زیادہ سفر کیے جانے والے 10 ممالک میں سے ایک تھا، جسں کا 30 ملین بین الاقوامی سیاحوں نے رخ کیا۔
’میں پرجوش ہوں، ہم اپنے عظیم ملک میں موجود صلاحیتوں کو آزمانے اور دنیا بھر سے آنے والے مہمانوں کے ساتھ اپنی خوبصورت ثقافت کا اشتراک کرنے کے لیے اس نئے شعبے کی تعمیر کے لیے توانائی سے بھرپور ہیں۔‘
مزید پڑھیں: ’صدر ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب عالمی استحکام اور خوشحالی کے لیے اہم ہے‘
احمد الخطیب کے مطابق 2030 تک، سیاحت کا شعبہ، تیل کے بعد، سعودی معیشت میں سب سے زیادہ شراکت دار ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو کئی دہائیوں سے ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے جو بنیادی طور پر خام تیل پیدا کرتا ہے، جو اس کی خام ملکی پیداوار کا 85 سے 90 فیصد ہے اور جہاں موسم گرم اور ریت کے ٹیلے ہواکرتے ہیں۔
تاہم 2016 سے اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، سعودی وزیر نے مزید بتایا کہ اب ملک کی جی ڈی پی میں تیل کا حصہ تقریباً 55 فیصد ہے اور، 2019 سے مملکت نے الیکٹرونک ویزے کے ساتھ تقریباً 65 ممالک کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی ہیں۔
مزید پڑھیں:
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد الخطیب بحیرہ احمر ٹورازم سعودی عرب سیاحت عسیر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احمد الخطیب ٹورازم سیاحت احمد الخطیب کے لیے
پڑھیں:
پاک بھارت کشیدگی سے معیشت پر کوئی اثر نہیں پڑا: وزیر خزانہ
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھارت کے ساتھ حالیہ سیز فائر معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کے نتیجے میں ممکن ہوئی، اور ہم چیزوں کو معمول کی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہیں جو ایک مثبت علامت ہے۔ انہوں نے پیر کے روز پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بہتری کو بھی خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کا پاکستان کی معیشت پر کوئی بڑا مالی اثر نہیں پڑے گا۔اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں ابھی تین سے چار ہفتے باقی ہیں، اس لیے کسی حتمی بات سے گریز کیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات چاہے پاکستان میں ہوں یا ورچوئل، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بھارتی فیصلے کو انہوں نے یکطرفہ اور غیر سنجیدہ اقدام قرار دیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکا کے ساتھ تجارتی مسائل بھی جلد حل ہو جائیں گے۔ دوسری جانب پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان بات چیت کا باقاعدہ آغاز آج ہوگیا ہے جبکہ کل سے مذاکرات شروع ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ اہداف پر مشاورت کی جائے گی، جس میں 400 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات زیر غور آئیں گے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ ٹیکس ریلیف سے متعلق خصوصی سیشنز بھی منعقد کیے جائیں گے۔ حکام کے مطابق پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا۔ مذاکرات میں سپر ٹیکس میں کمی پر بھی تفصیلی بات چیت متوقع ہے، جبکہ بجٹ میں آمدن اور اخراجات، ٹیکس آمدنی اور نان ٹیکس آمدنی کے تخمینے آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیے جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس میں کمی اور صنعت و تعمیراتی شعبے کو ریلیف دینے کے لیے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی کوشش کرے گی۔وزارت خزانہ کے مطابق، مذاکرات کا مقصد معاشی استحکام اور مالیاتی خسارے کو قابو میں رکھنا ہے تاکہ پاکستان اپنے مالی اہداف کے قریب تر پہنچ سکے۔