سعودی عرب کی اسرائیل سے تعلقات کی بحالی میری خواہش ہے، صدر ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
ریاض: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سعودی عرب کے دورے میں کہا ہے کہ سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک تاریخی پیش رفت ہوگی، اور یہ ان کے لیے باعثِ عزت ہوگا۔
ریاض میں سرمایہ کاری فورم سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ان کی امید، خواہش اور خواب ہے کہ سعودی عرب جلد اسرائیل سے تعلقات بحال کرے اور معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہو۔
ٹرمپ نے کہا: “یہ مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے لیے ایک بڑا اور مثبت قدم ہوگا۔”
ٹرمپ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے بعد شام پر عائد پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ وہاں کے عوام کو ایک نیا موقع دیا جا سکے۔
ایران کے حوالے سے ٹرمپ کا کہنا تھا: “میں امن کے لیے ایران کے ساتھ ڈیل کرنا چاہتا ہوں، اگر انہوں نے موقع گنوا دیا تو سخت پابندیاں جاری رہیں گی۔”
غزہ کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہاں کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک ناقابلِ تصور ہے اور وہ اس جنگ کے جلد خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے ایک اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تاریخی فائر بندی امریکا کی مداخلت سے ممکن ہوئی۔ انہوں نے کہا: “ہم نے جنگ روکنے کے لیے دونوں ممالک کو کہا کہ ایٹمی میزائل کی بجائے تجارت کرو۔”
دورے کے دوران امریکا اور سعودی عرب کے درمیان 142 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ عرب میڈیا کے مطابق F-35 جنگی طیاروں کی خریداری پر بھی بات چیت ہوئی، تاہم ابھی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
دونوں ممالک کے درمیان توانائی، معدنیات، خلائی تحقیق، صحت اور اقتصادی تعاون کے معاہدے بھی طے پائے۔
Post Views: 6.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے لیے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
پاک سعودی دفاعی معاہدہ
اس صدی کا اہم واقعہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس معاہدے کے تحت ایک ملک کے خلاف جارحیت دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور ہوگی اور کسی بھی ملک پر بیرونی مسلح حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور ہوگا جب کہ جارحیت کی صورت میں دونوں ممالک دشمن کو مشترکہ طور پر بھر پور جواب دیں گے۔
یہ اس قدر بڑا اور اہم واقعہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس خبرکو بریکنگ نیوزکے طور پر لیا ہے۔ بظاہر اس کی چند ایک وجوہات ہیں، مثلاً اسرائیل اس وقت جس طرح طاقت کے نشے میں غزہ کو کچلتا ہوا، اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کا کھلے عام اظہارکرتے ہوئے نہ صرف آگے بڑھ رہا ہے بلکہ اس سلسلے میں کسی کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے، یہاں تک کہ قطرکو بھی نہیں بخشا۔ پورے عرب میں کوئی بھی اتنی قوت نہیں رکھتا کہ اس کی طاقت کو چیلنج کر سکے۔
اس تناظر میں پاکستان اور سعودی عر ب کے درمیان ہونے والا معاہدہ دراصل اسرائیل کی راہ میں نہ صرف ایک بڑی رکاوٹ بن گیا ہے بلکہ قطر وغیرہ جیسے ممالک نے بھی پاکستان کے ساتھ اگر اسی قسم کے دفاعی معاہدے کر لیے تو اسرائیل کے لیے آیندہ مزید مشکلات پیش آسکتی ہیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ غیر متوقع اور غیر منطقی نہیں ہوگا۔
کیونکہ اسرائیل نے قطرکی حدود میں حملہ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ برے وقت میں کسی بھی عرب ملک کو اسرائیل کے حملوں سے کوئی طاقت بھی محفوظ نہیں رکھ سکتی اور امریکا بھی ان ممالک کا ساتھ نہیں دے گا۔
قطر پر اسرائیلی حملے نے تمام عرب ممالک کو بہت واضح انداز میں یہ سمجھا دیا تھا کہ اب تمھیں کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ ایسی صورتحال میں ایک یہی راستہ بچتا تھا کہ یہ عرب ممالک کسی با اعتماد اور طاقتور ملک سے دفاعی معاہدہ کر لیں اور زمینیں حقائق یہی ہیں کہ ایسا ملک اگر دنیا میں کوئی ہے تو وہ پاکستان ہے۔
صرف مسلم دنیا نے ہی نہیں، تمام عالمی طاقتوں نے بھی اس معاہدے کو نہایت سنجیدگی سے لیا ہے کیونکہ سب کو علم ہے کہ سعودی عرب سے پاکستان کا سیا سی رشتے سے بھی بڑھ کر ایک اور مضبوط رشتہ ہے اور وہ ہے ’’ اسلام۔‘‘ اور یہ حقیقت تاریخ بھی بیان کرتی ہے یعنی اگر ہم تقسیم ہند سے قبل کی مسلمانوں کی تحاریک کا جائزہ لیں تو ان سب کا مرکزی تصور ایک ’’ امت‘‘ کا تھا یعنی تمام تحاریک میں امت مسلمہ کے لیے جدوجہد یا جہاد کیا گیا۔
ایسی تاریخ دنیا کے کسی کو نے میں نہیں ملتی حتیٰ کہ یہاں علی برادران جیسے رہنما ایک جانب آزادی کے لیے تحریک چلاتے تو دوسری جانب ترکیہ کی خلافت کے لیے بھی میدان عمل میں نظر آتے ہیں۔ یہ وہ زمینیں حقائق ہیں کہ جس کے تناظر میں نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکا سمیت بہت سی طاقتیں اس معاہدے پر سخت فکر مند ہیں۔
یوں دیکھا جائے تو اب دفاعی لحاظ سے سعودی عرب پاکستان ہے یعنی سعودی عرب ایک عالمی ایٹمی قوت کا حامل ملک بن چکا ہے۔
ایسے میں اگر دیگر عرب ریاستیں بھی پاکستان کے ساتھ اس قسم کے معاہدات کر لیتی ہیں (جن کی باز گشت سنائی بھی دے رہی ہے) تو پھر مشرق وسطیٰ کی پوری سیاسی صورتحال پر بھی اس کا اثر پڑے گا کیونکہ پھر عرب ریاستیں اپنی کمزوری کو نہیں بلکہ طاقت کو مدنظر رکھ کر اپنے سیاسی فیصلے کریں گی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب صرف اسرائیل کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ امریکا کی سیاسی پالیسی کو بھی مزاحمت کا سامنا ہوگا جس کے تحت وہ اب تک اپنے مفادات کے فیصلے با آسانی کرتے آیا ہے۔
اگر عرب کی کچھ اور ریاستیں بھی پاکستان کے ساتھ اس قسم کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال پر بھی لازمی اثر پڑے گا اور ایک نیا منظر نامہ ابھرے گا۔
اس معاہدے کے بعد اگر مزید کسی عرب ریاست سے معاہدہ نہیں ہوتا تو پھر سیاسی منظر نامے میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی کی توقع کرنا درست نہیں ہوگا بلکہ اسرائیل کو ایک خاموش پیغام تک والی صورتحال جوں کی توں رہی گی، البتہ اسرائیل کی جانب سے اگرگریٹر اسرائیل کی موجودہ پالیسی اسی طرح تیزی سے آگے بڑھی تو پھر ایک بڑی ہلچل ضرور ہوگی، کیونکہ سعودی عرب اور پاکستان دو ملک ہی نہیں، ان کے عوام ایک امت کا نظریہ بھی رکھتے ہیں۔
پاکستانی عوام تو ایک ’’ امت‘‘ کا نظریہ ہمیشہ سے ہی تھامے ہوئے ہیں اور دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر کڑا وقت آئے تو پاکستانی سب سے آگے آگے کھڑے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہاں کی وہ مٹی ہے جس سے پیدا ہونے والے رہنما خلافت عثمانیہ کے تحفظ کی بھی تحریک چلاتے ہیں۔
یہی وہ مٹی ہے جس سے شاعر بھی علامہ اقبال جیسے پیدا ہوتے ہیں جن کا پیغام ہی ’’امت‘‘ کا ہوتا ہے۔ اقبال نے یہاں کے عوام کو ہر سطح پر نہ صرف رہنمائی فراہم کی بلکہ حالات حاضرہ کے مطابق شعور دیا۔ اقبال کا کہنا تھا کہ
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں
یعنی اقبال نے اپنی قوم کو مغربی نظریہ قوم پرستی میں دفن ہونے سے روکا اور یہ شعور دیا کہ۔
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
یوں دیکھا جائے تو پاک سعودی دفاعی معاہدہ اقبال کے مذکورہ بالا اشعارکی تفسیر نظر آتی ہے۔ اس معاہدے کی سب سے حیرت انگیز اور خوش کن بات جو نظر آتی وہ یہ ہے کہ ایک جانب یہ معاہدہ نہایت خاموشی و راز داری سے طے پاگیا جس میں امریکا سمیت کسی بڑی طاقت کے کسی بھی قسم کے ردعمل کو نظر انداز کردیا گیا۔
دوسری جانب یہ کہ اس میں پاکستانی حکومت اور فوج کی مکمل ہم آہنگی نظر آئی۔ گویا اس معاملے پر فریقین کی تمام اکائیاں ایک ہی پیج پر نظر آئیں اور یہی وہ سب سے اہم بات ہے کہ جس کا مطالبہ ہمارے رہنماؤں اور دانشوروں کو کرنا چاہیے تھا، وہی فیصلہ ہماری فوج اور حکومت نے بروقت کر لیا۔
یہ وہ فیصلہ ہے کہ جس نے عرب ممالک کو بھی تقویت بخشی ہے، ہمارے روحانی مراکزکو مزید سیکیورٹی دی ہے بلکہ ہمارے وطن پاکستان کو بھی مضبوط ترکیا ہے، اب ہم بھی اکیلے نہیں۔ گویا اس میں صرف عرب کا نہیں، ہم سب کا بھلا ہے۔ اس وقت پوری امت مسلمہ کی سوچ یہی ہے کہ اس معاہدے سے اسرائیل کے عزائم کو سخت نقصان پہنچا ہے اور قوی امید ہے کہ امت مسلمہ اس سے مضبوط ہوگی۔