Daily Ausaf:
2025-09-28@00:30:04 GMT

لا غالب الا اللہ

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب بھی کسی مغرور طاقت نے اللہ کے فضل اور اہلِ ایمان کی غیرت کو للکارا، زمین و آسمان کے قانون نے اسے ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا۔ کل یمن کے ابرہہ جو ہاتھیوں کی فوج لے کر کعبۃ اللہ کو گرانے کے گھمنڈ سے آیا تو اللہ کی ابابیلوں نے کنکروں سے ابرہہ کی فوج کو ریزہ ریزہ کر دیا، آج پاکستان پر ہندوستانی ابرہہ کے جنگی ہاتھیوں پر پاکستان کے شاہینوں نے چینی کنکروں ،ٹیکنالوجی کی طاقت سے ہندوستان کے جدید ’’ہاتھیوں‘‘کو نیست و نابود کر دیا اور مودی کے تکبرانہ گھمنڈ کو بھسم کردیا۔ یہ صرف ایک فوجی تصادم نہیں، بلکہ ایمان، حکمت اور سائنس کی وہ کرشمہ سازی ہے جس نے ’’ لا غالب الا اللہ‘‘کے اصول کو ایک بار پھر زندہ کر دکھایا۔
تاریخی مماثلت، ابابیلوں کا واپسی،قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفیل* میں ابرہہ کی فوج کی تباہی کا ذکر فرمایا:
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے فیل والوں (ہاتھیوں والوں) کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کی چال کو برباد نہیں کر دیا؟ اور ان پر ابابیل کے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دئیے جو ان پر پکی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے، پھر انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا۔‘‘
آج کا ’’ابرہہ‘‘ ہندوستان ہے، جس نے اپنی ڈیجیٹل فوج (Cyber Elephants)، Rafale طیاروں اور سٹیلتھ ڈرونزکے زور پر پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہا۔ مگر ’’ابابیل‘‘کی جگہ ’’پاکستانی شاہینوں‘‘نے لی اور ’’سجیل کے پتھروں‘‘کی جگہ ’’چینی ٹیکنالوجی‘‘کی مہلک میزائلوں نے، چین کا کردار، جدید دور کا ’’سجیل‘‘چین نے پاکستان کو جو دفاعی ٹیکنالوجی دی، وہ کسی ’’کنکر‘‘ سے کم نہیں تھی۔’’ہائپر سونک میزائل‘‘ (DF-ZF)جو ہندوستان کے S-400 ڈیفنس سسٹم کو بے اثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’’کوانٹم ریڈار‘‘ جس نے دشمن کے خفیہ طیاروں (Stealth Jets) کو بھی پکڑ لیا۔ AI-Powered سائبر ڈیفنس،جس نے ہندوستان کے ’’سائبر حملوں‘‘ کو ناکام بنا دیا۔ یہ وہی حجار من سجیل(پکی مٹی کے پتھر) ہیں جو آج ’’ڈیجیٹل دور‘‘ میں ’’میگا ہرٹز کی لہروں‘‘ اور ’’سپر سونک اسپیڈ‘‘ میں تبدیل ہو گئے!
پاکستانی کی فوجی قیادت نے جذبہ ایمان سے لیس اپنے شاہینوں کو بہترین جنگی حکمت عملی کے ساتھ صرف چینی ٹیکنالوجی پر انحصار نہیں کیا، بلکہ ایمان،جرات اور جدید سائنس کا حسین امتزاج پیش کیا۔ ’’ڈیجیٹل ابابیل شیلڈ‘‘ پاکستانی ہیکرز نے ہندوستان کے ’’سٹیلتھ ڈرونز‘‘ کو ’’الیکٹرومیگنیٹک جیمنگ‘‘سے تباہ کر دیا۔ JF-17 ،تھنڈر کا کمال ہے کہ پاکستانی طیاروں نے ہندوستان کے رافیل طیارے مار گرائے، جبکہ خود صفر نقصان اٹھایا۔
غیرتِ سائبری،پاکستانی آئی ٹی ایکسپرٹس نے ہندوستان کے ’’ڈیٹا سینٹرز‘‘ کو ڈیجیٹل کنکروں (Malware Attacks) سے تباہ کر دیا۔ دنیا کو پاکستان کی عسکری قیادت نے حیرت ردیا ،یہ کوئی معجزہ ہے؟ (نیویارک ٹائمز) پاکستان نے جدید جنگ کا نقشہ بدل دیااب ہتھیاروں سے زیادہ ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی اہم ہے (بی بی سی) ’’کیا پاکستان نے واقعی ہندوستان کو ’’ڈیجیٹل ٹیکنالوجی‘‘ کے ذریعے شکست دی؟ہندوستانی وزیر دفاع کا بیان،ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارے ہتھیار کیوں ناکام ہو گئے،یہ کوئی جادو تھا! سبق: لا غالب الا اللہ، یہ جنگ ثابت کرتی ہے کہ اللہ کی مدد کے بغیر کوئی طاقت غالب نہیں آ سکتی۔ جدید سائنس کو ایمان اور حکمت کے ساتھ استعمال کیا جائے تو دشمن کی تمام تر طاقت بے بس ہو جاتی ہے۔ پاکستان اور چین کا اتحاد صرف اقتصادی نہیں، بلکہ ایک روحانی،ٹیکنالوجیکل اتحاد ہے۔
آج بھی ’’ابابیل‘‘ موجود ہیں وہ طیارے ہیں، وہ میزائل ہیں، وہ سائبر ٹیکنالوجی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ’’کنکروں کی جگہ الیکٹرونک سگنلز‘‘ نے لے لی ہے۔ مگر نتیجہ وہی ہے: ’’پھر اللہ نے انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا‘‘ سو، ہندوستان کے ’’ابرہہ‘‘کو پھر سے شکست ہوئی ہے اور پاکستان کے ’’ابابیل‘‘ فتح کی نوید سنا رہے ہیں! یہاں ہم دوست ملک چین اور برادر ملک ترکیا کی مدد اور حمایت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ الحمد للہ والشکر للہ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نے ہندوستان کے کی فوج کر دیا

پڑھیں:

تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا پہلو اس کی وہ قدرتِ تاثیر ہے جس سے یہ انسان کو اندر سے بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ پھر یہ انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو یوں اپنے سامنے حاضر وموجود پاتا ہے کہ اپنے تمام تر امور و معاملات میں اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کا دم بھرتا ہے اور تسلیم و رضا کی اس انتہائی بلندی کو پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں خود قرآن ہی کا بیان ہے، ترجمہ: ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘ (الانعام: 162)۔
مذکورہ آیت میں جس تبدیلی کا ذکر ہے قرآن انسان کے دل کے اندر اپنا نور داخل کرکے اس تبدیلی کا آغاز کرتا ہے۔ چوںکہ یہ نور اپنے اندر پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا رفتہ رفتہ بڑھتا رہتا ہے اور زندگی بھی اسی رفتار سے اس کی لَو میں چلنے لگتی ہے اور بالآخر یہ انسان ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے نہ اس کا خوگر اور عادی!
قرآنِ کریم نے انسانی دل میں اس نور کے داخل ہونے سے قبل کی زندگی کو موت سے تعبیر کیا ہے اور بعد کی زندگی کو حیات کا نام دیا ہے، فرمایا، ترجمہ: ’’کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زند گی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو‘‘ (الانعام :122)۔
اس اعتبار سے قرآن وہ روح ہے، جو دل میں جاگزیں ہو کر دل کو زندگی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید کے بارے میں یہی بیان کیا ہے، فرمایا، ترجمہ: ’’اسی طرح (اے نبیؐ)! ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمھیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ‘‘ (الشوریٰ: 52)۔

جب یہ روح دل میں داخل ہوتی ہے تو دل کے تمام گوشے نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ پھر اس روشنی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات اور حُبِّ دنیا کو وہاں سے نکال باہر کرتی ہے اور اس کا اثر انسان کے کردار، اس کی ترجیحات اور دلچسپیوں پر واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ سب بدل کر رہ جاتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جس کو نبی اکرمؐ نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب صحابہؓ نے قرآنِ مجید کی اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا، ترجمہ: ’’کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے‘‘ (الزمر: 22)۔ (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے سبق نہ لیا؟)۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جب نور دل میں داخل ہو جاتا ہے تو دل کھل جاتا ہے اور کشادہ ہو جاتا ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ! اس کی نشانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: (آخرت) کی طرف میلان اور دارِغرور (دنیا) سے کنارہ کشی اور موت کے آنے سے پہلے پہلے موت کے لیے تیاری‘‘ (اخرجہ البیہقی فی الزھد)۔
قرآنِ کریم کی تاثیر اور انسانی دلوں کو بدل ڈالنے کی قوت ناقابل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال قرآنِ کریم میں ہی بیان فرمائی ہے۔ فرمایا، ترجمہ: ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں‘‘ (الحشر: 21)۔
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کرکے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے (الجامع لاحکام القرآن)۔

قرآنِ کریم کی اس مثال میں قرآنِ حکیم کی قوتِ تاثیر پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی ہے تاکہ تمام انسانوں کے لیے حجت قائم ہو جائے اور اس آدمی کا دعویٰ غلط قرار پائے جو یہ کہتا ہو کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
جو شخص پوری دیانت داری اور طلبِ ہدایت کے ارادے سے قرآن کو کتابِ ہدایت و شفا سمجھ کر اس کی طرف آتا ہے، اس شخص پر قرآن کی عجیب تاثیر ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میں گہری بنیادوں پر استوار ہونے والا ایک مکمل انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کی ڈھلائی اور تشکیل ایک ایسے نئے انداز سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس باب میں اگر کسی کو شک ہو تو وہ اُن اصحابِ رسولؐ کی زندگیوں کا مطالعہ کرے جو اسلام سے قبل جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن اسی حالت میں جب قرآن کی بھٹی میں داخل ہوتے ہیں تو ایسے نئے انسان بن کر باہر نکلتے ہیں جن پر ساری انسانیت کو آج تک فخر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کو اس لیے بدل کر رکھ دیا تھا کہ صحابہؓ قرآن کو سمجھنے، اس کے مقصدِ نزول کو جاننے اور اس کے معنی و مفہوم کی قیمت کا ادراک کر لینے کے بعد اسی کو اپنی زندگیوں کا رہنما سمجھتے تھے۔ صرف سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کا سو فیصد مظاہرہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں ان کے رہنما و مقتدا اور استاذ و معلّم رسولؐ تھے اور اللہ کے رسولؐ زندگی کے ایک ایک لمحے کو قرآن کی رہنمائی میں گزار رہے تھے۔ آپؐ کی زندگی پر قرآن کا رنگ یوں چڑھا ہوا تھا کہ آپؐ چلتے پھرتے قرآن تھے۔ آپؐ کا اندازِ تلاوت اور طریقۂ قرأت یہ تھا کہ آپؐ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے۔ ایک بار تو آپؐ نے تہجد کی نماز میں یہ آیت دہراتے ساری رات گزار دی، ترجمہ: ’’اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں‘‘ (المائدہ : 118)۔
قرآن کی قوتِ تاثیر اس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب ہم رسولؐ کے یہ کلمات سنتے ہیں کہ: ’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے‘‘ (صحیح الجامع الصغیر)۔

جب اللہ کے رسولؐ پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گزار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرۂ آخرت پر مشتمل سورتیں آپؐ کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ کی تلاوت سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے۔
آج ہمارے ہاتھوں میں بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھا۔ انھیں تو اس قرآن نے ایک بے مثال گروہ بنا دیا، لیکن ہم—؟ آج ہمارے اندر ان جیسے نمونے اور کردار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ کیا آج قرآن کی تاثیر ختم ہو گئی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! قرآن کی تاثیر ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ دلِ بیدار نہیں ہیں جن کے اندر یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ قرآن کی طرف رجوع کی صورت میں ہی ہم اس پریشان کن صورتِ حال کو ختم کر سکتے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر یا اس کو نظرانداز کرکے کوئی ذریعہ اور طریقہ ایسا نہیں جو امت کی اصلاح اور تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کر سکے اور مطلوبہ نتائج فراہم کرے!

ارشاد الرحمن گلزار

متعلقہ مضامین

  • تبدیل ہوتا ہوا بین الاقوامی منظر نامہ
  • پنجاب میں پاکستان کا جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس پہلا ایئرکوالٹی فورکاسٹ سسٹم تیارکرلیا گیا
  •  احسن اقبال کا چینی صوبہ ہونان میں مختلف اداروں ‘کمپنیوں کا دورہ  
  • تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار
  • پاکستان اب ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے نہیں رہے گا، بلال بن ثاقب
  • پاکستان کا نیا سنگِ میل: اکتوبر میں جدید ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ خلا میں روانہ ہوگا
  • مصنوعی ذہانت ترقی پذیر ممالک کے لیے کامیابی کی ضمانت بن چکی، بلال بن ثاقب
  • پاکستان کا خلائی میدان میں ایک اور انقلابی قدم ، جدید سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کی تیاری مکمل
  • معرکہ حق پاکستان کی عظیم فتح، پاک افواج نے ہندوستان کو شکست فاش دی: وزیراعظم
  • پاکستان کا ایک اورانقلابی قدم ،جدید سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کی تیاری مکمل کرلی گئیں