والد کی رہائی کے لیے ہم انسانی حقوق کی علم بردار ہر حکومت سے اپیل کریں گے.عمران خان کے بیٹوں کا انٹرویو
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 14 مئی ۔2025 )پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیٹوں سلیمان خان اور قاسم خان نے ایک انٹرویو کے دوران عمران خان کی رہائی کے حوالے سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے والد عمران خان کی رہائی کے لیے ہم ہر اس حکومت سے اپیل کریں گے جو آزادی اظہار اور حقیقی جمہوریت کی حامی ہو اس معاملے پر توجہ دینے کے لیے ٹرمپ سے بہتر اور کون ہوسکتا ہے.
(جاری ہے)
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق سابق وزیراعظم کے دونوں بیٹوں نے پہلی مرتبہ عوامی سطح پر پوڈ کاسٹر ماریو نوفل کو انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے عمران خان کی رہائی کے لیے صدر ٹرمپ سمیت بین الاقوامی برادری سے آواز اٹھانے کی اپیل بھی کی ہے ٹرمپ انتظامیہ کے لیے پیغام کے حوالے سے سلیمان خان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری سب کچھ دیکھے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے. انہوں نے کہا کہ ہم ڈونلڈ ٹرمپ سے بات کرنا چاہیں گے یا کوئی ایسا راستہ نکالنا چاہیں گے جس سے وہ کسی طرح مدد کر سکیں کیونکہ آخر میں ہمارا مقصد صرف اپنے والد کو قید سے آزاد کرانا اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانا ہے عمران خان کے بیٹوں نے انٹرویو کے دوران الزام عائد کیا کہ عمران خان غیر انسانی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور انہیںبنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے. سوشل میڈیا انفلوئنسر اور پوڈ کاسٹر ماریو نوفل کے سوال کے جواب میں عمران خان کے بیٹوں نے کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود ان کی اپنے والد سے ہر ہفتے بات نہیں ہو پاتی بلکہ دو سے تین ماہ میں ایک ہی بار بات ہو پاتی ہے جتنا ہم جانتے ہیں اس کے مطابق ان کو کسی دیگر قیدی سے ملنے یا بات چیت کی اجازت نہیں اور وہ وہاں اکیلے رہتے ہیں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہ 10 دن تک مکمل اندھیرے میں رکھے گئے تھے. واضح رہے کہ عمران خان اگست 2023 سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور اس وقت وہ 190 ملین پاو¿نڈ کرپشن کیس میں سزا کاٹ رہے ہیں جب کہ نو مئی 2023 کے احتجاج سے متعلق انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت زیرالتوا مقدمات کا سامنا بھی کر رہے ہیں گزشتہ سال عدالت نے عمران خان کے بیٹوں کو ہر ہفتے اپنے والد سے رابطہ کرنے کی اجازت دی تھی لیکن ان کے دونوں بیٹوں کا دعویٰ ہے کہ یہ رابطہ ہمیشہ ممکن نہیں ہو پایا. انٹرویو کے دوران سوال کے جواب میں قاسم خان کا کہنا تھا کہ ہم نے قانونی راستے اختیار کیے اور ہر وہ راستہ آزمایا جس سے ہمیں لگا کہ عمران خان قید سے باہر آسکتے ہیں لیکن ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کہ وہ اتنے عرصے تک اندر رہیں گے جب کہ اب حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ عوامی سطح پر آ کر بات کرنا ہی واحد راستہ ہے انہوں نے کہاکہ ہم نے تمام دیگر آپشنز اور قانونی راستے آزما لیے ہیں جبکہ ایسا لگتا ہے کہ عالمی میڈیا میں جیسے بالکل خاموشی ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عمران خان کے بیٹوں کی رہائی کے اپنے والد رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
امریکہ سے غیر ملکیوں کی بیدخلی پر انسانی حقوق کمیشنر کو تشویش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 مئی 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے امریکہ سے بڑی تعداد میں غیرملکیوں کو واپس بھیجے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے انسانی حقوق کے حوالے سے خدشات نے جنم لیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غیرملکیوں کی جبری بیدخلی اور بالخصوص انہیں ان کے آبائی ممالک کے بجائے دوسری جگہوں پر بھیجنے سے گریز، منصفانہ قانونی کارروائی، دوسرے ممالک میں تشدد یا دیگر ناقابل تلافی نقصان سے تحفظ اور موثر ازالے کے حقوق کے تناظر میں امریکہ کا یہ اقدام باعث تشویش ہے۔
Tweet URLامریکی حکومت کی جاری کردہ معلومات کے مطابق، 20 جنوری اور 29 اپریل کے درمیانی عرصہ میں ایک لاکھ 42 ہزار غیرملکیوں کو امریکہ بدر کیا جا چکا ہے۔
(جاری ہے)
ان میں وینزویلا کے کم از 245 اور ال سلواڈور کے تقریباً 30 شہریوں کو ال سلواڈور بھیجا گیا جبکہ ان کے موجودہ حالات کے بارے میں تفصیلی اطلاعات تاحال سامنے نہیں آئیں۔قانون تک عدم رسائیامریکہ سے ال سلواڈور بھیجے گئے لوگوں میں بہت سے ایسے ہیں جنہیں غیرملکی دشمنوں سے متعلق قانون کے تحت مخصوص جرائم پیشہ گروہوں کے مبینہ ارکان قرار دیتے ہوئے ملک بدر کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق انہیں ال سلواڈور میں دہشت گردوں کے لیے بنائی گئی جیل میں رکھا گیا ہے جہاں قیدیوں سے سخت سلوک کیا جاتا ہے۔ انہیں نہ تو اپنے وکلا یا رشتہ داروں تک رسائی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کا بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ ہوتا ہے۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی معلومات کے مطابق امریکہ بدر کیے گئے وینزویلا کے تقریباً 100 شہریوں کو اسی جیل میں رکھا گیا ہے۔
ان میں بہت سے قیدیوں کو امریکی حکومت کی جانب سے ملک بدر اور تیسرے ملک میں قید کیےجانے کے بارے میں پیشگی کوئی علم نہیں تھا۔ وکلا تک رسائی نہ ملنے کے باعث وہ امریکہ سے نکالے جانے سے قبل اس اقدام کے خلاف عدالتوں سے رجوع بھی نہ کر سکے۔غیرواضح قانونی حیثیتامریکہ یا ال سلواڈور کے حکام نے اب تک ایسے قیدیوں کی کوئی فہرست شائع نہیں کی جبکہ ال سلواڈور میں ان کی قانونی حیثیت بھی غیرواضح ہے۔
'او ایچ سی ایچ آر' کی جانب سے ان کے اہلخانہ سے کی جانے والی بات چیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنے عزیزوں کے بارے میں ایسی کوئی معلومات نہیں کہ انہیں کہاں اور کس حال میں قید رکھا گیا ہے۔ایسے متعدد لوگوں کو ان قیدیوں کے بارے میں اس وقت علم ہوا جب انہوں نے سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیو دیکھیں یا انہیں میڈیا پر اس جیل میں لے جاتے ہوئے دیکھا۔
اطلاعات کے مطابق امریکہ سے ال سلواڈور بھیجے جانے والے یہ لوگ تاحال اپنی قید کے خلاف کسی مقامی عدالت سے رجوع کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔انسانی حقوق کے احترام کا مطالبہوولکر ترک نے کہا ہے کہ امریکہ بدر کیے جانے والے لوگوں کے خاندانوں نے بتایا ہے کہ انہیں اپنے عزیزوں کو متشدد مجرم اور دہشت گرد قرار دیے جانے پر مکمل بے بسی کا احساس ہوا جبکہ ان پر عائد کیے جانے والے الزامات تاحال عدالتوں سے ثابت نہیں ہوئے۔
ان میں بعض قیدیوں کو جس انداز میں گرفتار اور ملک بدر کیا گیا اور ان کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی وہ انتہائی پریشان کن ہے۔ہائی کمشنر نے امریکہ کی عدالتوں، قانونی برادری اور سول سوسائٹی کی جانب سے اس معاملے میں انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ادا کیے جانے والے کردار کی ستائش کی ہے۔
انہوں نے امریکہ کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں منصفانہ قانونی کارروائی یقینی بنائے، عدالتوں کے فیصلوں پر فوری اور مکمل طور سے عملدرآمد کیا جائے، بچوں کے حقوق کو تحفظ دیا جائے اور کسی فرد کو ملک بدر کر کے ایسی جگہ نہ بھیجا جائے جہاں اسے تشدد یا دیگر ناقابل تلافی نقصانات پہنچنے کا خدشہ ہو۔