کیلاش قبیلے کا مذہبی اور ثقافتی تہوار ’’چلم جوشی‘‘ اختتام پذیر
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
چترال میں جاری کیلاش قبیلے کا تین روزہ قدیم مذہبی اور ثقافتی تہوار ’’چلم جوشی‘‘ اپنی تمام تر رنگینیوں اور عقیدت کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔
چلم جوشی تہوار وادی کیلاش کی تہذیب، خوشی، ہم آہنگی اور فطرت سے محبت کی علامت بن چکا ہے، جو ہر سال ہزاروں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔
سالانہ چلم جوشی فیسٹول 13 سے 17 مئی 2025 تک وادی کیلاش کی تینوں خوبصورت وادیوں رمبور، بمبوریت اور بریر میں منایا گیا۔
تہوار کا آغاز رمبور وادی میں رسم ورواج سے ہوا، دوسرے مرحلہ میں وادئ بمبوریت میں سرگرمیاں جاری رہیں۔ آخری مرحلہ میں بریر وادی میں یہ خوبصورت تہوار رعنایوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔
تہوار کو دیکھنے کےلیے 170 سے زائد غیر ملکی سیاحوں نے وادئ کیلاش کا رخ کیا۔ ان میں فرانس، جرمنی، امریکا، آسٹریلیا، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، روس، جاپان، چین، یونان، تائیوان، جنوبی کوریا، انگلینڈ، ہالینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا اور رومانیہ سے تعلق رکھنے والے سیاح شامل ہیں۔
تہوار کےلیے مقامی پولیس کے ساتھ ساتھ فرنٹیئر کور نارتھ نے بھی سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے۔
سیاحوں کا کہنا ہے کہ وادئ کیلاش کی قدرتی خوبصورتی کے ساتھ چلم جوشی تہوار ان کےلیے خوشگوار یادوں کا مجموعہ بن گیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ماحولیاتی تبدیلی؛ حقیقت بھی، سرمایہ دار کا ایک نیا ہتھیار بھی
کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحولیاتی حرارت گیری کی سب سے بڑی وجہ ہے اور گرین ہاؤس گیسوں میں سے سب سے زیادہ منفی اثرات رکھنے والی گیس ہے۔ اس کی مقدار اس وقت پچھلے آٹھ لاکھ سال میں خطرناک حد تک بڑھ کر چار سو دس حصے فی ملین ہوچکی ہے۔
عالمی درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے دور کی نسبت ایک اعشاریہ دو ڈگری بڑھ چکا ہے۔ یہ خطرناک ماحولیاتی تبدیلی سے صرف اعشاریہ آٹھ ڈگری کم ہے۔ کیونکہ سارے سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ ماحولیاتی درجہ حرارت میں دو ڈگری کی تبدیلی آئے گی تو دنیا کے جغرافیائی حالات یکسر بدل جائیں گے۔ آنے والے صرف بیس سال میں درجہ حرارت اس خطرناک نقطے کو چھو جائے گا۔ ابھی تک انسان نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا اور ڈر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کرے گا بھی نہیں!
اس تبدیلی کے اثرات بہت ہی بھیانک ہوں گے۔ جب انسان اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کنٹرول نہیں کرے گا تو اس کے ناخوشگوار اور پریشان کن اثرات سامنے آئیں گے۔ جب درجہ حرارت بڑھے گا تو آب و ہوا کی تبدیلی غیر یقینی ہوجائے گی۔ سیلاب اور طوفان جو ایک سو سال میں ایک دفعہ آتے تھے وہ ہر دس بیس سال بعد آنے شروع ہوجائیں گے۔ دنیا کے ہر خطے کا موسم شدت اختیار کرجائے گا اور ساری صورت حال بگڑ جائے گی۔ جہاں سبزہ زار ہیں وہ ریگستان بن جائیں گے اور سر سبز پہاڑ چٹیل ہو جائیں گے۔ مشرق وسطیٰ کے علاقوں میں بارش کا آنا اور بارش والے علاقوں میں نہ آنا۔
موسموں کی اس تبدیلی سے جغرافیائی اور سیاسی تعلقات پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ کچھ ملک ڈوب جائیں گے اور کچھ ریگستان میں تبدیل ہو جائیں گے، جہاں کے رہنے والے سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈتے پھر رہے ہوں گے اور بہت سارے تلخی ایام سہہ ہی نہ پائیں گے۔ ایسی صورت حال میں تاریخی تعاون کی ضرورت ہوگی۔ امریکا اور چین اس تعاون میں نمایاں ہوں گے۔ اگر ان دونوں ملکوں نے آپس میں تعاون نہ کیا تو ایک قیامت پربا ہوجانے کا ڈر ہے۔ اس کے علاوہ دوسری حکومتیں، پرائیویٹ کمپنیاں اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی اپنا کردار نبھائیں گی تو ہی حالات پر قابو پایا جاسکے گا۔
لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ اس منڈلاتے خطرے کو ترقی یافتہ ممالک ایک ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرنے لگ جائیں، کیونکہ ترقی یافتہ دنیا بھی بڑی چالاک اور طاقتور ہے۔ اس کے بیک جنبش قلم سے ہی نہیں بیک جنبش ابرو سے بھی فیصلے اور حالات بدل جاتے ہیں اور اس طاقت کو مستقل طور پر برقرار رکھنے اور استعمال کرنے کےلیے سرمایہ کار کی دنیا عالمی مسائل کو استحصال کرنے کےلیے استعمال کرتی ہے۔ اس نے پہلے ہی بہت سے ایسے ہتھیار بنا رکھے ہیں جو ہیں تو نادیدہ مگر ایٹم بم سے زیادہ خطرناک اور زہریلے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ انسان کے دماغ پر اس کی سوچ اور احساسات کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ایسے ہی ہتھیاروں میں ایک تازہ ترین ہتھیار ماحولیاتی تبدیلی کا بھی بنا لیا جائے گا۔ خاص طور مسلم ممالک کےلیے یہ ایک بڑا بلیک میلنگ پوائنٹ بن کر سامنے آئے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے دہشت گرد، شدت پسند، غار کے دور کے لوگ، فرسودہ خیالات کے لوگ، عورتوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، مذہبی انتہا پسندی وغیرہ جیسے ہتھیار ہیں۔ کسی بھی مسلم ملک پر حملہ تک کرنے کا جواز انہی باتوں کو بنایا گیا۔
کسی انتہائی اہم معاملے سے صرف نظر کرنے یا کروانے کےلیے اس ماحولیاتی تبدیلی کے نام کو استعمال کیا جائے گا۔ ایسے ہی جیسے عرصہ دراز سے مشرق وسطیٰ حملوں کی زد میں ہے اور غزہ کو بڑے منظم طریقے سے ختم کیا جاچکا ہے۔ کچھ دن پہلے غزہ عالمی اخبارات و میڈیا کی شہ سرخیوں میں آ گیا تھا مگر اسے اسی ترقی یافتہ دنیا نے پس پشت ڈال دیا اور دنیا کی توجہ دوسرے بہت سے گھمبیر مسائل کی طرف مبذول کرا دی۔ ایسا اس دفعہ نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ جب بھی مسلم دنیا پر کوئی ظلم کیا جاتا ہے تب ہی اس سے توجہ ہٹانے کےلیے امریکا ایران جنگ کا شوشا چھوڑ کر اس معاملے کو پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ غزہ سے توجہ ہٹانے کےلیے اس دفعہ بھی ایران اور امریکا ہی کام آئے۔ کبھی ایٹمی معاہدے کا ذکر اور کبھی امریکا پر ایران کا حملہ اور کبھی ایران پر اسرائیل کا حملہ۔ ایسے ہی حربوں میں سے ایک یہ حربہ ماحولیات کا مسئلہ اور عالمی فضا میں تبدیلی کا معاملہ بھی بنے گا۔ عالمی میڈیا جو سرمایہ دار کے قبضے میں ہے ایک دم کہے گا کہ فلاں ملک کی وجہ سے دنیا کا ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے، اس پر پابندی یا حملہ یا کوئی بھی قدغن لگائی جاسکے گی۔
اگرچہ اس وقت دنیا ایک مستقل بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ عالمی لبرل ازم ہر طرف سے گھیرے میں ہے۔ جمہوریت زوال پذیر ہے۔ معاشی بحالی ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔ ابھرتا ہوا چین امریکا کےلیے خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔ اور بین الاقوامی تناؤ ایک تباہ کن جنگ کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ ان تمام بحرانوں سے بڑھ کر ہے اور ہم اس سے یا تو بے بہرہ ہیں یا پھر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اگر یہ کہیں کہ یہ اس صدی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
ماحولیاتی تبدیلی تمام نسل انسانی کےلیے خطرہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی آنے والے وقت میں عالمی معاشیات اور تعلقات پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوگی۔ اس لیے تمام ممالک اور خاص طور پر اسلامی ممالک خود کو چوکنا رکھیں کہ مغرب اب اسے ماحولیات کے نام پر استعمال کرے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔