لاہور تا پنڈی بلٹ ٹرین چلانے کے منصوبے پر عمل درآمد ممکن نہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 19 May, 2025 سب نیوز

لاہور(سب نیوز )لاہور سے راولپنڈی تک پاکستان کی پہلی بلٹ ٹرین چلانے کے منصوبے پر عمل درآمد ممکن نہیں، بلٹ ٹرین کی جگہ ہائی اسپیڈ ٹرین چلائی جاسکتی ہے تاہم اس کے لیے بھی اربوں روپے درکار ہوں گے۔ پنجاب حکومت پاکستان ریلویز کی مدد سے بلٹ اور ہائی اسپیڈ ٹرین چلانا چاہتی ہے جبکہ ٹرین کی رفتار بڑھانے اور آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹہ وقت کم کرنے کے لیے بھی ریلوے ٹریک اسٹیشن سگنلز ریل گاڑی کی کوچوں سمیت دیگر آلات تبدیل کرنا پڑیں گے۔ریلوے انتظامیہ نے اس حوالے سے مختلف تجاویز تیار کرلی ہیں۔

وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہائی اسپیڈ ٹرین کے لیے ہمارے پاس بوگیاں موجود ہیں مگر ریلوے ٹریک اس قابل نہیں مگر یہ منصوبہ مکمل کرنا ہے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز سے اس سلسلے میں مشاورت ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم یہ منصوبہ مکمل کر کے لاہور سے راولپنڈی تک کا سفر اڑھائی گھنٹے تک لے آئیں گے اس پراجیکٹ کے لیے پنجاب حکومت فنڈز فراہم کرے گی۔ریلوے کے کچھ اعلی افسران کے مطابق پاکستان میں اس رفتار پر چلنے والی ٹرین کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے بے اربوں کھربوں روپے اور طویل وقت درکار ہوگا یہ منصوبہ عملی طور پر ممکن نہیں، ایک بلٹ ٹرین تو چھوڑیں، معمولی رفتار میں بھی بہتری کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی

، لاہور اور راولپنڈی کے درمیان 280 کلومیٹر کا فاصلہ بلٹ ٹرین کے لیے خواب جیسا ہے کیونکہ پاکستان ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ پرانا ہے اور دونوں شہروں کے درمیان انفرا اسٹرکچر انتہائی کمزور ہے آئے روز ٹرینیں ڈی ریل ہو رہی ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لاہور سے راولپنڈی کے درمیان پٹڑی سیدھی نہیں بلکہ خم دار اور اتار چڑھا والی ہے، جس کی وجہ سے تیز رفتاری ممکن نہیں مزید یہ کہ راستے میں تین پل بھی ہیں جنہیں بلٹ ٹرین کی رفتار برداشت کرنے کے قابل بنانا ہوگا،۔

ہائی اسپیڈ ریل کے لیے خصوصی ٹریک، گاڑیاں، کوچز، انجن، سگنلنگ، پاور سسٹم، سیکیورٹی اور اسٹیشنز کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سب تقریبا ناممکن ہے کہ آپ پرانے ٹریک پر صرف 200 ارب روپے سے تین سو ارب روپے خرچ کر کے ٹرین کی رفتار کو بڑھاسکیں۔ریلوے افسران کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ابھی تک ایسے انجن یا کوچز نہیں ہیں جو بلٹ ٹرین کے مطابق ہوں، اِس وقت جو ریلوے کی گرین لائن ٹرین چل رہی ہے وہ لاہور سے راولپنڈی کا 280 کلومیٹر فاصلہ تقریبا چار سے ساڑھے چار گھنٹے میں طے کرتی ہے، جبکہ دیگر ٹرینز کو پانچ سے ساڑھے پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔ایک اعلی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ناممکن کچھ بھی نہیں سب کچھ ہو سکتا ہے مگر اس کے لیے ایک جامع پلان اور کھربوں روپے درکار ہوں گے

، بلٹ ٹرین تو امریکا میں بھی نہیں ہے تاہم ہائی اسپیڈ ٹرین چلائی جاسکتی ہے مگر ایم ایل ون کے چکر میں ریلوے انفرا اسٹرکچر پر سال 2015 سے کام ہی نہیں کیا گیا، یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوچکا ہے اسی منصوبہ کو مکمل کر لیا جائے تو بلٹ ٹرین کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ بلٹ ٹرین کے لیے سب کچھ نیا بنانا پڑے گا۔اعلی افسر نے بتایا کہ بلٹ ٹرین جاپان، چین اور یورپ کے کچھ ممالک میں چلتی ہے جس کی اسپیڈ 200 کلو میٹر فی گھنٹہ سے لے کر 500 بلکہ اب تو اس سے زیادہ اسپیڈ پر چل رہی ہیں،

بلٹ ٹرین اگر امریکن کمپنیاں بنائیں تو 30 سے 40 ملین ڈالر فی کلومیٹر خرچ آئے گا اور چینی کمپنیوں کا ریٹ 17 ملین ڈالرز سے 20 ملین ڈالرز فی کلومیٹر تک ہے، اتنا سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ اس لیے بہتر ہے کہ چین کو ہی ایم ایل ون منصوبے کے لیے راضی کیا جائے کیونکہ موجودہ صورتحال میں یہ بہترین موقع ہے اگر ایم ایل ون بن جاتا ہے تو پھر بلٹ ٹرین کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ اگر بلٹ ٹرین منصوبہ بن بھی جاتا ہے تو عام مسافر کی پہنچ سے بہت دور ہو جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ بلٹ ٹرین اگر بن بھی جائے گی تو اس کا کرایہ 15 یا 20 ہزار روپے سے زائد ہوگا اتنا مہنگا ٹکٹ کون خریدے گا؟ سعودی عرب میں حرمین ٹرین کا کرایہ 130 ریال سے لے کر 220 ریال تک ہے،

سعودی حکومت سبسڈی دے رہی ہے اسی طرح یورپ کے جن ممالک میں بلٹ ٹرین چلتی ہے اس کا کرایہ عام ٹرین کی بہ نسبت سو فیصد زیادہ ہوتا ہے اسی لیے بلٹ ٹرین کے بجائے ہائی اسپیڈ ٹرین ہی چلانی چاہیے۔دوسری جانب پنجاب حکومت اور ریلوے نے اس منصوبے کے لیے ایک ورکنگ گروپ بنایا ہے جس میں پنجاب کے وزیر ٹرانسپورٹ بلال اکبر خان، وزیر اعلی کے مشیر شاہد اشرف تارڑ، پاکستان ریلوے کے سی ای او عامر علی بلوچ شامل ہیں جو اس منصوبے کے لیے تمام تر درکار وسائل کی روشنی میں ایک رپورٹ تیار کر رہے ہیں تاکہ اس منصوبے پر کام شروع ہوسکے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآپریشن بنیان مرصوص میں شاہین میزائل استعمال کرنے کے دعوے مسترد آپریشن بنیان مرصوص میں شاہین میزائل استعمال کرنے کے دعوے مسترد پاک بھارت ہاٹ لائن کھلی ہے، توقع ہے سیز فائر برقرار رہے گا: ترجمان افواج پاکستان کتنے بھارتی طیارے تباہ ہوئے؟ اپوزیشن لیڈر نے اپنا سوال پھر دہرا دیا بھارت کے ایشیا کپ نہ کھیلنے کی خبروں پر بی سی سی آئی کا ردعمل آگیا،میڈیا رپورٹس کی تردید پاکستان کیخلاف ذلت آمیز ناکامی پر انتہا پسند وزرا اور بھارتی فوج کے ریٹائرڈ افسران آمنے سامنے اسرائیلی بربریت حدود سے تجاوز کر گئی،نیتن یاہو کا غزہ پر مکمل قبضے کا اعلان TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: لاہور سے راولپنڈی ہائی اسپیڈ ٹرین بلٹ ٹرین کی بلٹ ٹرین کے ممکن نہیں یہ منصوبہ کرنے کے کے لیے

پڑھیں:

کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-6

 

میر بابر مشتاق

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب، ہمیشہ سے اپنے مسائل کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جو ملک کے ریونیو کا 65 فی صد اور صوبہ سندھ کے ریونیو کا تقریباً 95 فی صد دیتا ہے، لیکن بدلے میں اسے جو سہولتیں ملنی چاہییں وہ آج بھی خواب ہیں۔ اس شہر کو چلانے والے ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنائیں گے، جدید انفرا اسٹرکچر فراہم کریں گے اور عوام کو معیاری سہولتیں دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی آج بھی بارش کے چند قطروں سے مفلوج ہو جانے والا شہر ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ زمین کو شاداب کرتی ہے، کھیتوں کو سیراب کرتی ہے اور زندگی کو تازگی بخشتی ہے، لیکن بدقسمتی سے کراچی کے عوام کے لیے بارش کسی عذاب سے کم نہیں۔ یہاں بارش کا مطلب ہے گھنٹوں کا ٹریفک جام، پانی میں ڈوبی سڑکیں، گھروں میں داخل ہوتا ہوا گندا پانی، بیماریاں، کاروبار کی بندش اور ناقص منصوبہ بندی کا کھلا تماشا۔ حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ ہمارے حکمران صرف دکھاوے کے منصوبے بناتے ہیں، جن پر اربوں روپے خرچ کر کے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی بارش کا پہلا ریلا آتا ہے، یہ منصوبے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔

کراچی میں 55 ارب روپے کی شاہراہ بھٹو اور 12 ارب روپے کی حب کنال صرف چند دن کی بارش میں بہہ گئیں۔ یہ وہی منصوبے تھے جن کے افتتاحی تقاریب پر حکومت نے کروڑوں روپے لٹائے، میڈیا پر اشتہارات چلائے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، لیکن چند دن بعد ہی یہ سب فراڈ بے نقاب ہو گیا۔ شاہراہ بھٹو کا ڈھانچہ بیٹھ گیا، حب کنال ٹوٹ گئی، اور عوام کے اربوں روپے مٹی میں مل گئے۔ یہ کسی ایک منصوبے کی بات نہیں، پورے شہر کا انفرا اسٹرکچر انہی خامیوں کا شکار ہے۔سندھ حکومت نے ہمیشہ کراچی کے وسائل کو لوٹا اور شہر کو نظرانداز کیا۔ پچھلے پندرہ سال میں صوبائی فنانس کمیشن (PFC) کا اجلاس تک نہیں ہوا۔ کراچی کو اس کے جائز حق کے 3360 ارب روپے نہیں دیے گئے۔ صوبائی ترقیاتی پروگرام میں کراچی کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا اور جو منصوبے دیے بھی گئے، ان کا حال وہی ہوا جو شاہراہ بھٹو اور حب کنال کا ہوا۔ کراچی میں بارش کے بعد سب سے زیادہ ناکامی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے نظام کی سامنے آئی۔ نکاسی آب کا نظام مفلوج ہو گیا۔ ندی نالے قبضہ مافیا اور کچرے سے بھرے پڑے ہیں۔ اورنگی نالہ، ناظم آباد، گلشن، گلبہار اور نارتھ ناظم آباد کے شہری بدترین اذیت میں رہے۔ پانی گھروں میں داخل ہو گیا، گاڑیاں ڈوب گئیں، کاروبار بند ہو گئے اور بیماریاں پھیلنے لگیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بیچارہ مرتضیٰ وہاب چند لاکھ کی نوکری کے بدلے میں کبھی حب کینال پر وزیراعلیٰ کی گندگی صاف کرتا ہے تو کبھی شاہراہ بھٹو پر زرداری کا داغدار چہرہ دھوتا ہے۔ یقین کریں، پیپلز پارٹی کے وڈیرے اپنی نجی محفلوں میں ہنستے ہیں کہ کراچی والو کیسا دیا؟ کتنے سستے میں ہمیں یہ چغد مل گیا جو ہمارے کرپشن، تعصب اور بدمعاشی سے لتھڑے گندے چہرے کو صاف کرتا رہتا ہے۔ یہ بیچارا بے اختیار ہوتے ہوئے بھی مجبور ہے کہ کہے کہ میں با اختیار ہوں، حالانکہ نہ بلڈنگ کنٹرول میں اس کی بات چلتی ہے، نہ واٹر بورڈ میں، نہ سالڈ ویسٹ میں، نہ سڑکیں بنانے کے کلک میں۔ کراچی کے ووٹ کی پیپلز پارٹی کو ضرورت نہیں، بس کراچی کے وسائل کی ضرورت ہے جو وہ سامنے رکھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ بیچارہ میئر نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا…

کراچی کی تباہی کا دوسرا بڑا سبب سیاسی قبضہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ کراچی کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ ایم کیو ایم نے شہری حکومت کے نام پر لوٹ مار کی اور پیپلز پارٹی نے صوبائی حکومت کے ذریعے وسائل پر قبضہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے حصے میں محرومیاں، تباہ حال سڑکیں، کچرا کنڈیاں اور بیماریاں آئیں۔ یہ کہاں کی ترقی ہے کہ اربوں روپے کے منصوبے بارش کے چند قطروں میں بہہ جائیں؟ کہاں کی حکمرانی ہے کہ شہری بارش کے پانی میں ڈوب کر بیماریاں برداشت کریں جبکہ حکمران افتتاحی تقریبات اور پریس کانفرنسوں میں خود کو کامیاب قرار دیتے رہیں؟ یہ دراصل جعلی ترقی کے منصوبے ہیں جن کا مقصد صرف کمیشن خوری اور سیاسی تشہیر ہے۔ ایسے حالات میں واحد جماعت جس نے عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا، وہ جماعت اسلامی ہے۔ ’’حق دو کراچی تحریک‘‘ نے کراچی کے عوام کو آواز دی اور ان کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ تحریک محض احتجاج نہیں بلکہ عوامی حقوق کی جنگ ہے۔ جماعت اسلامی نے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو تو محدود اختیارات میں بھی بڑے کام کیے جا سکتے ہیں۔

صرف دو سال کے اندر جماعت اسلامی نے کراچی میں وہ کام کیے جو پچھلے پندرہ سال میں صوبائی اور شہری حکومتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔ 86 ہزار سے زائد گھروں تک پانی پہنچایا گیا، جس سے 6 لاکھ افراد مستفید ہوئے۔ 9 ٹاؤنز میں سیکڑوں ماڈل اسٹریٹس بنائی گئیں۔ رین واٹر ہارویسٹنگ کے کئی منصوبے شروع کیے گئے۔ 171 تباہ حال پارکس بحال کیے گئے۔ 42 اسکول اپ گریڈ کیے گئے اور ریکارڈ نئے داخلے ہوئے۔ ایک لاکھ سے زائد اسٹریٹ لائٹس نصب ہوئیں، جس سے ہزاروں گلیاں روشن ہوئیں۔ 30 ہزار سے زائد گٹر کے ڈھکن اور رنگز نصب کیے گئے۔ بورنگ کا پانی جو صرف 10 منٹ آتا تھا، اب ایک گھنٹے تک مستقل آنے لگا۔ نارتھ ناظم آباد میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا جدید نظام کامیاب ہوا۔ یہ تمام کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ جماعت اسلامی نے سیاست نہیں بلکہ خدمت کی۔ اسی خدمت کی وجہ سے قابض میئر مرتضیٰ وہاب جماعت اسلامی پر تنقید کر کے حقیقت سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں اور عوامی ردعمل کے دباؤ سے پریشان ہیں۔ کراچی کے عوام سب دیکھ رہے ہیں کہ کس نے خدمت کی اور کس نے صرف بیانات دیے۔ میئر کے عہدے کا ادب اور آداب یہی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو ترجیح دیں، لیکن افسوس کہ موجودہ میئر نے اس منصب کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے صرف تنقید کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو شہر کے ندی نالوں کو مستقل بنیادوں پر صاف کرنا ہوگا اور قبضہ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی مکمل اصلاح ناگزیر ہے۔ نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور معیار کو یقینی بنانا ہوگا۔ کراچی کو اس کا جائز مالی حصہ دینا ہوگا اور صوبائی فنانس کمیشن کو فوری طور پر بحال کرنا ہوگا۔

کراچی کے لیے کم از کم 500 ارب روپے کا ہنگامی ترقیاتی فنڈ فوری جاری ہونا چاہیے، اور اس میں سے ہر ٹاؤن کو 2 ارب روپے ملنے چاہئیں تاکہ مقامی سطح پر ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ منصوبوں کی تکمیل میں عوام کی شراکت داری اور نگرانی ضروری ہے تاکہ کرپشن اور ناقص کام کی گنجائش نہ رہے۔ کراچی کی موجودہ صورتحال نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ حکمران عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ہر بارش کے بعد وہی اذیت، وہی بیماریاں اور وہی وعدے دہرا دیے جاتے ہیں۔ لیکن اب کراچی کے عوام مزید دھوکا کھانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہر بار ان کی محنت کی کمائی کرپشن کے نذرانے میں ضائع کی جاتی ہے۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہیں تو جعلی ترقی اور کرپشن کے ایجنڈے کو مزید سہنے کے بجائے ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو اختیار سے بڑھ کر خدمت کرے۔ جماعت اسلامی نے عملی مثال دے دی ہے کہ دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ عوام کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اب یہ کراچی کے عوام پر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ریکوڈک منصوبے کے معاہدوں کی منظوری دیدی
  • ای سی سی اجلاس؛ ریکوڈیک منصوبے کیلئے اہم تجاویز کی منظوری
  • ای سی سی نے ریکوڈک منصوبے کی فنانسنگ کے وعدوں اور معاہدوں کی منظوری دیدی
  • رینالہ خورد میں ہونے والا ٹرین حادثہ، تحقیقات میں اہم انکشافات
  • لاہور؛ لاکھوں مالیت کے سامان کی خرد برد میں ملوث 3 ریلوے ملازم گرفتار
  • لاہور سے کراچی جانے والی دو ایکسپریس ٹرینیں سیلابی صورتحال کے باعث منسوخ
  • اڈیالہ جیل میں این سی سی آئی اے کی عمران خان سے تفتیش ، بانی نے سوشل میڈیا اکاونٹس چلانے والے شخص کی شناخت بتانے سے صاف انکار ، مریم نواز خان کا دعویٰ
  • کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے
  • اب اسلام آباد سے صرف 20 منٹ میں راولپنڈی پہنچنا ممکن، لیکن کیسے؟
  • پیٹرول کی قیمت برقرار، ہائی اسپیڈ ڈیزل 2روپے 78پیسے فی لیٹر مہنگا