Express News:
2025-07-04@19:33:50 GMT

کیا ٹرمپ اسرائیل سے اکتا چکے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

ان دنوں ہمارے کچھ دوست اس امکان پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تین خلیجی ریاستوں کے پانچ روزہ دورے میں اسلحہ کی فروخت اور امریکا میں سرمایہ کاری کے لیے ساڑھے تین ٹریلین ڈالر کے جو سمجھوتے کیے ہیں ان کے سبب اب خطے سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی میں ’’ سب سے پہلے اسرائیل ‘‘ کا اصول بدل گیا ہے۔

ہمارے دوست مشرقِ وسطی سے متعلق امریکی پالیسی میں بتدریج یو ٹرن کا اشارہ دینے کے لیے یہ دلیل استعمال کر رہے ہیں کہ ایک ڈونلڈ ٹرمپ وہ تھے جنھوں نے پہلی مدتِ صدارت کے دوران مشرقِ وسطی کے پہلے سرکاری دورے میں سب سے پہلے اسرائیل کو چنا اور وہاں تل ابیب سے یروشلم منتقل ہونے والے امریکی سفارت خانے کا افتتاح کیا اور گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا۔اس کے بعد ہی ٹرمپ صاحب سعودی عرب پہنچے۔

اور دوسری مدتِ صدارت شروع ہوتے ہی ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں جس پہلے مہمان کا استقبال کیا وہ بنجمن نیتن یاہو تھے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ ٹرمپ اب تک کے تمام امریکی صدور میں اسرائیل کے دل کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔مگر پھر اچانک ٹرمپ کا نیتن یاہو سے دل اچاٹ ہوتا چلا گیا اور اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ ٹرمپ نے اس بار اپنے پہلے غیر ملکی دورے میں اسرائیل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے سعودی عرب ، قطر اور متحدہ عرب امارات میں اترنا پسند کیا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب معاشی مفاد امریکی خارجہ پالیسی کا تعین کرے گا نہ کہ خارجہ پالیسی معاشی ترجیحات طے کرے گی۔

ٹرمپ کے منقلب ہونے کے بارے میں مزید دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ انھوں نے ایک امریکی نژاد اسرائیلی فوجی کی رہائی کے لیے حماس سے بالا بالا سمجھوتہ کیا۔انھوں نے یمن کے ہوثیوں سے جنگ بندی کے عوض یقین دہانی حاصل کر لی کہ آیندہ امریکی جہازوں کو بحیرہ قلزم اور باب المندب سے گذرتے ہوئے نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ٹرمپ انتظامیہ نے ہوثیوں سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ اسرائیل کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے دو ہفتے میں کسی امریکی جہاز کو نشانہ نہیں بنایا گیا جب کہ تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پر اس عرصے میں دو بار میزائل گرے۔

یہی نہیں بلکہ اس وقت امریکا اور ایران کے مابین جوہری سمجھوتے کے بارے میں جو بات چیت ہو رہی ہے اس میں امریکا نے اسرائیل سے پیشگی مشاورت گوارا نہیں کی۔اس کے علاوہ ٹرمپ نے اسرائیل کے شدید تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے شام کے صدر احمد الشرع سے نہ صرف ریاض میں ملاقات کی بلکہ شام پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹانے کا اعلان بھی کر دیا اور اسرائیل منہ دیکھتا رہ گیا۔

تو یہ ہیں وہ نشانیاں جن سے ہمارے رجائیت پسند دانشوروں کو اندازہ ہوا کہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے اور اسرائیل رفتہ رفتہ امریکا کی ؟ ڈارلنگ فہرست ‘‘ سے نکالا جا رہا ہے۔

بارش کے بعد گھڑے پھوڑنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر بادل دیکھ کے گھڑے پھوڑنا کس قدر عاقبت اندیشی ہے۔اس کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

کیا یہ وہی امریکا نہیں جس کی ٹرومین انتظامیہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں اقوامِ متحدہ میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی قرار داد منظور کروانے کے لیے کمزور ممالک کی کلائی مروڑ کے اس قرار داد کے حق میں ووٹ ڈلوایا تھا۔یوں اسرائیل کی پیدائش ممکن ہوئی۔

اور پھر اسی امریکا کے صدر آئزن ہاور نے اکتوبر انیس سو چھپن میں مصر پر برطانیہ ، فرانس اور اسرائیل کے مشترکہ حملے پر شدید خفگی ظاہر کرتے ہوئے یہ جنگ فوری طور پر روکنے کے لیے دوٹوک موقف اختیار کیا۔اس کے بعد کینیڈی انتظامیہ نے اسرائیل اور فرانس کے درمیان جوہری تعاون پر مسلسل ناخوشی اور تحفظات ظاہر کیے۔تب بھی کچھ لوگوں کو امید ہو چلی تھی کہ امریکا اب اسرائیل کے معاملے میں غیر جانبدار رہے گا۔

مگر جون انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد امریکا نے مشرقِ وسطی میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے مستقل تحفظ کے لیے یہ طے کیا کہ اسرائیل علاقے میں عسکری اعتبار سے امریکا کا وفادار پولیس مین رہے گا اور عرب ممالک کو کسی بھی صورت میں فوجی اعتبار سے اسرائیل سے زیادہ طاقت ور نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اس کا پہلا ثبوت اکتوبر انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ میں ملا۔سوویت اسلحے سے لیس شام اور مصر کی افواج نے قلعہ بندیاں توڑ کے اسرائیل کو ابتدائی طور پر بھونچکا کر دیا تو وزیرِ اعظم گولڈا مائر نے نکسن انتظامیہ کو ایس او ایس بھیجا اور یہ پوشیدہ دھمکی بھی دی کہ اگر بروقت امداد نہیں پہنچی تو اسرائیل اپنی بقا کے لیے کوئی بھی انتہائی اقدام ( نیوکلیئر آپشن ) کر سکتا ہے۔

چنانچہ جنگ شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد جب اسرائیل تقریباً نڈھال ہو چکا تھا تب امریکی فضائیہ نے ’’ آپریشن نکل گراس ‘‘ شروع کیا اور ہر ایک گھنٹے بعد اسلحے سے لدا طیارہ اسرائیل میں اترنے لگا۔جب تیس اکتوبر کو باقاعدہ جنگ بندی ہوئی تو امریکا اسرائیل کو اس سے دوگنا اسلحہ پہنچا چکا تھا جتنا جنگ میں تباہ ہوا تھا۔

وہ دن اور آج کا دن امریکا میں کوئی بھی انتظامیہ کانگریس کے اسرائیل نواز قلعے میں شگاف نہیں ڈال سکی۔اقوامِ متحدہ میں امریکا اسرائیل کی غیر مشروط ڈھال بن گیا۔

عربوں میں صرف مصر کو اتنی رعائیت دی گئی کہ اگر وہ امریکی کیمپ کا حصہ بن جائے اور اسرائیل کے خلاف آیندہ کسی بھی مہم جوئی سے باز رہے تو اسے نہ صرف اسرائیل کے مساوی سالانہ اقتصادی امداد ملے گی بلکہ مقبوضہ جزیرہ نما سینائی بھی واپس کر دیا جائے گا۔

شام چونکہ اس دام میں نہیں آیا لہٰذا اسے گولان کی پہاڑیوں سے مستقل ہاتھ دھونا پڑا۔اردن کسی گنتی شمار میں کبھی بھی نہیں تھا اور لبنان تو ہمیشہ غریب کی جورو سب کی بھابھی بنا رہا۔فلسطینیوں کو کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو سمجھوتے کے جال میں پھنسا کر انھیں دو ریاستی حل کا لالی پاپ دے کر فلسطینی اتھارٹی نامی ایک ڈھانچہ تھما دیا گیا جسے اب فلسطینی بھی اسرائیل کی بی ٹیم سمجھتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اوباما کے دونوں ادوار میں اسرائیل اور امریکا کے تعلقات میں قدرے ’’ سرد مہری ‘‘ دیکھنے میں آئی۔نیتن یاہو اور اوباما میں بات چیت بند رہی۔مگر یہ کیسی سرد مہری تھی جس کے ہوتے اسرائیل کی فوجی امداد کے جتنے سمجھوتے اوباما دور میں منظور ہوئے ان کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

جو دانشور ٹرمپ کی ’’ کایا کلپ ‘‘ اور اسرائیل سے اکتاہٹ محسوس کر رہے ہیں کیا وہ بتا سکیں گے کہ خلیج کے پانچ روزہ دورے میں ٹرمپ نے ہر مدعے پر بات کی مگر غزہ کے بارے میں ایک بھی واضح جملہ منہ سے نہ نکلا سوائے اس کے کہ وہاں جو ہو رہا ہے افسوس ناک ہے اور ہم غزہ کو ایک ساحلی جنت دیکھنا چاہتے ہیں ( یعنی ٹرمپ اپنے اس اوریجنل خیال پر قائم ہیں کہ غزہ کو خالی کروا کے اسے ’’ جنت ‘‘ بنایا جائے )۔

کیا میزبانوں میں سے کسی نے ٹریلین ڈالرز کے سمجھوتوں کو غزہ میں جنگ بندی سے مشروط کرنے کی کوشش کی ؟ ٹرمپ کا طیارہ ایرفورس ون فضا میں بلند ہوتے ہی اسرائیل نے غزہ پر مستقل فوجی قبضے کا اعلان کرتے ہوئے اس پر زمین ، فضا اور سمندر سے قیامت برسا دی۔

تب سے اب تک وائٹ ہاؤس پر ایک معنی خیز خاموشی طاری ہے۔مگر آپ یہی سوچ کے خوش رہئیے کہ ٹرمپ نے مشرقِ وسطی کے دورے میں روائیت کے برعکس اسرائیل کو نظرانداز کر کے گویا ہتھنی کی پشت پر بھالا مار دیا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور اسرائیل اسرائیل کو اسرائیل کے اسرائیل کی اسرائیل سے کرتے ہوئے نیتن یاہو اور اس کے بعد کے لیے

پڑھیں:

امریکی وفاقی عدالت نے ٹرمپ کی مہاجرین کو پناہ دینے سے انکار کو غیرقانونی قرار دے دیا

امریکی وفاقی عدالت نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکا میکسیکو سرحد سے  پناہ گزینوں کے داخلے پر مکمل پابندی لگانے کی کوشش کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے، اسے روک دیا ہے۔

فیصلہ امریکی آئین اور قوانین کی فتح قرار

وفاقی جج رینڈولف موس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سابق صدر ٹرمپ نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیا اور کانگریس کے بنائے ہوئے قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے پناہ کی درخواستوں پر مکمل پابندی عائد کی، جو کہ غیرقانونی ہے۔

یہ بھی پڑھیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 30 ہزار تارکین وطن کو گوانتاناموبے جیل بھیجنے کے لیے تیار

جج موس نے اپنے 128 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ یا آئین صدر کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ پناہ کی درخواستوں پر مکمل طور پر پابندی لگا کر ایک علیحدہ، غیرقانونی نظام نافذ کرے۔

حکومت کو اپیل کا موقع دیا گیا

عدالت نے یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ نہ کرنے کا حکم دیا ہے، بلکہ حکومت کو اپیل دائر کرنے کے لیے 2 ہفتے کی مہلت دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آغاز پر ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں انہوں نے میکسیکو سے غیرقانونی داخلے کو ’امریکا پر حملہ‘ قرار دیا اور اس بنیاد پر پناہ کے حق کو معطل کر دیا تھا۔ ان کے بقول یہ قدم امیگریشن نظام میں بدعنوانی روکنے کے لیے ضروری تھا۔

سرحدی گرفتاریوں میں نمایاں کمی

عدالتی فیصلے کے ساتھ ہی وائٹ ہاؤس نے یہ بھی اعلان کیا کہ جون میں بارڈر پٹرول نے صرف 6,070 افراد کو گرفتار کیا، جو مئی کے مقابلے میں 30 فیصد کمی ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو یہ 1966 کے بعد کی سب سے کم سالانہ گرفتاریوں کی شرح ہو گی۔

ACLU کی قانونی فتح

امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان افراد کے لیے فتح ہے جو ظلم اور خطرے سے بھاگ کر امریکا میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے امریکا میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف تاریخی آپریشن کا آغاز

امریکن سول لبرٹیز یونین کے وکیل لی گلرنٹ نے کہا ’یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ صدر کسی قانون کو محض ‘ہنگامی حالت’ قرار دے کر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پناہ کے خواہش مند افراد کو تحفظ کا حق حاصل ہے۔‘

تاحال وائٹ ہاؤس، محکمہ انصاف، اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت اور ایران اسرائیل  سمیت کئی ممالک کو جنگ سے روکا، نوبل انعام کا بہترین امیدوار ہوں: ٹرمپ
  • سید محسن رضا نقوی کی امریکی عوام اور سفارتی حکام کو یوم آزادی پر مبارکباد
  • وفاقی وزیر داخلہ کی امریکی عوام اور سفارتی حکام کو یوم آزادی پر مبارکباد
  • امریکا کی جانب سے ایران پر نئی پابندیاں، جنگ بندی کے بعد پہلا قدم
  • پانچ ملکوں کو جنگ سے روکا، امن کے نوبل انعام کا بہترین امیدوار ہوں: ٹرمپ
  • امن کے نوبیل انعام کیلئے میں ہی بہترین امیدوار ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ کی خوش فہمی
  • امریکی وفاقی عدالت نے ٹرمپ کی مہاجرین کو پناہ دینے سے انکار کو غیرقانونی قرار دے دیا
  • صدر ٹرمپ کی تباہ کن پالیسیاں
  • امریکا نے یوکرین کو کچھ ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
  • ٹرمپ کا ایلون مسک کو امریکا سے ڈیپورٹ کرنے پر غور